گارڈین کورٹ کی گیلری کا منظر۔۔۔۔۔احمد خان لنگاہ ایڈووکیٹ

اللہ کریم نے کائنات کو خوبصورت بنایا،اور پھر بارہا یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ تم انسان میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے،نعمتیں ان گنت،لاتعداد اور بے مثل و بے مثال ہیں۔کائنات کی تمام خوبصورت نعمتوں میں سے ایک نعمت ایک اچھا،پرسکون اور تہذیب یافتہ گھرانہ بھی ہے۔رشتوں کی یہ خوبصورتی بھی نعمت ہے،بہن بھائیوں جیسا مقدس رشتہ،والدین جیسا شفیق،مہربان اور مؤدب رشتہ،ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ اہم اور خوبصورت ہے،لیکن اولاد اور والدین جیسا حساس رشتہ شاید ہی کوئی ہو،اگر والدین میں موجود ماں اور باپ کا آپسی رویہ،روٹین کے معاملات اوررویے بہتر اور مثالی ہوں گے تو ظاہری سی بات ہے کہ گھر امن کا گہوارہ بنے گا اور اس گھر میں اولاد کی صورت میں پرورش پانے والی آئندہ نسل بہتر طور پر معاملات کو سمجھ سکے گی،ان کی شخصیت،ان کے کردار اور ان کی سوچ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے،اور یوں پھلتے پھولتے وہ معاشرے کے اہم اور کارآمد شہری بن سکیں گے۔اور اگر اس کے برعکس معاملات کو دیکھا جائے تو والدین کی معمولی رنجشیں،چھوٹی چھوٹی نونک جھونک،لڑائی جھگڑے اور دیگر معاملات اگر بہتر نہیں تو یقینی طور پر اس گھر میں سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں ہوگا،اور اولاد کی صورت میں پرورش پانے والی آئندہ نسل چڑ چڑا پن،عدم اعتماد،سٹریس اور عجیب سے کرب میں مبتلا رہتی ہے یوں ان کی شخصیت پر منفی اثرات پڑتے اور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے۔

لمبی تمہید کے لئے معذرت کہ موضوع حساس ہی اتنا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی تمہد لمبی ہوئی،بہرحال اپنے  موضوع کی طرف آتے ہیں راقم پیشہ وکالت سے منسلک ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کچہری،ہائیکورٹ سمیت دیگر اسپیشل کورٹس میں پیش ہونا روٹین کا حصہ ہے،دوران پریکٹس روزانہ ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جن پر لکھنے کو بھی دل کرتا ہے لیکن ان معاملات کی حساسیت کے پیش نظر نہ لکھنا ہی بہتر سمجھتا ہوں،آج کا موضوع بذات خود اتنا حساس ہے کہ بارہا سوچا کہ نہ لکھا جائے لیکن اس کے پیچھے جذبات،معصوم بچوں کے آنسو،والدین کی مجبوریاں اور حالات کے دیگر ستم بھی کارفرما ہوتے ہیں ،ابھی کل ہی ایک گارڈین کورٹ کے سامنے سے گزر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں دو معصوم بچوے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں،معصومیت سے لبریز آنکھوں سے موتیوں کی طرح چمکتے آنسو،جن کی کاٹ کسی طور زہر میں بجھے خنجر سے کسی طور کم نہ تھی،ان کا دھاڑ دھاڑ کر رونابے بسی،محبت اور شفقت کی اک مکمل مگر ٹھوس داستاں تھی،معاملے کی مزید معلومات حاصل کیں تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی معاملہ وہی تھا کہ بچوں کے والدین میں اک معمولی تنازعہ ہوااور بات عدالت تک آ پہنچی اب بچے چونکہ کم عمر تھے اور کم عمر بچوں کی بہترین گارڈین ان کی ماں ہوتی ہے لہذا بچے ماں کو سونپ دیئے گئے،بچوں کو ان کے والد سے ملوانے کے لئے شیڈول ترتیب دیا گیا،اور کل بچوں کا والد عدالت کے طے شدہ شیڈول کے مطابق چند گھنٹوں کے لئے اپنے بچوں سے ملنے آیا،بچوں اور بیوی کا جیب خرچ جمع کرایا اور اپنی شفقت کی انتہا بھی دکھائی،بچوں کو چومنے کا تسلسل محبت،شفقت اور جدائی کی کربناک داستاں سنا رہا تھا،ملاقات کا وقت ختم ہوا لہذا ماں بچوں کو ساتھ لے کر جانے لگی،لیکن دو معصوم جانیں ماں کی محبت کے ساتھ ساتھ باپ کی شفقت ایک ساتھ چاہتے تھے،لیکن حالات و واقعات ان معصوم بچوں کی خواہش کے بالکل برعکس تھے، ایک مہینے کے بعد باپ کی شکل ان معصوم بچوں کو دیکھنا نصیب ہوئی وہ اپنے باپ کی شفقت سمیٹنا چاہتے تھے لیکن بے رحم وقت اپنی رفتار میں گزر رہا تھا اور آخر جدائی کا وقت آن پہنچا،پورے ایک مہینے کی جدائی!ایک طرف معصوم بچوں کی آہیں تھیں،آنسو تھے اور باپ کی جدائی پر چیخیں تھیں،جبکہ دوسری طرف ایک بے بس اور مجبور باپ اپنے بچوں کو خود سے جدا ہوتے خدا جانے کس حوصلے سے دیکھ رہا تھا،دونوں طرف آنسو تھے اور محبت سے محرومی کا دکھ تھا! اب اندازہ کریں اس باپ نے ایک مہینہ اپنی ہی اولاد سے دور رہنا ہے،بچوں کی جدائی الگ اور مہینے بعد بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری الگ،اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے جائز اخراجات برداشت کرنا والد کا فرض ہے لیکن والد کا یہ بھی توحق ہے کہ اسے اپنے بچوں سے ملنے کی مکمل آزادی حاصل ہو،یہ واقعی ایک مکمل جذباتی منظر تھا سمجھ صرف وہ سکتا ہے جس نے یہ منظر دیکھا ہو،محسوس کیا ہو یا جس پر ایسے حالات خدانخواستہ گزرے ہوں۔

اب اگر ہم اس طرح کے واقعات کی وجوہات کھوجنے کی کوشش کریں تو جو چند باتین سامنے آتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں،سنا ہے کہ عورت آدھی روٹی پر گزارہ کر سکتی ہے لیکن اسے اپنا مرد پورا ہی چاہئے ہوتا ہے اگر اسی بات کو مان کر آگے بڑھیں تو دونوں  فریقین یعنی میاں بیوی میں آپسی اعتماد اور وفا کا کیا معیار ہے؟یہ اہمیت رکھتا ہے،آیا ان کے درمیان کوئی تیسرا فریق تو نہیں؟اگر تیسرا فریق ہے تو کیوں ہے اور کس کی طرف سے ہے؟کیونکہ اگر عورت آدھی روٹی پر گزارہ کرسکتی ہے بشرطیکہ اسے اس کا مرد مکمل حاصل ہواس کے برعکس مرد بھوکا گزارہ کر سکتا ہے لیکن اسے اپنی عورت پوری چاہئے ہوتی ہے،انتہائی معذرت کے ساتھ ایسی باتیں لکھنا پڑ رہی ہیں کہ شاید گارڈین کورٹس کی گیلریوں میں بچوں کے ماں باپ کی محبت سے محرومی پر چیخ و پکار کے سلسلے تھم سکیں،دوسری وجہ جو سامنے آتی ہے وہ ہے توقعات،انسان کو سب سے زیادہ دکھ توقعات کے پورا نہ ہونے پر ہوتا ہے،ظاہری سی بات ہے اگر دونوں فریقین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو خواب کچھ دکھائے جائیں،توقعات کچھ ہوں اور حقیقت کچھ اور ہو تو یقینا ًًً اک شادی شدہ زندگی ڈسٹرب ہو گی اور اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی زندگی پر پڑے گا،خاندا ن کی تباہی کی کئی اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں مثلاء غربت،بے روزگاری،فریقین میں سے کسی کا کردار،غصہ،لاپرواہی،ذمہ داریوں سے یکسر روگردانی،وجہ کوئی بھی ہو نقصان صرف اور صرف بچوں کا ہوتا ہے اور ان کی شخصیت پر پڑنے والے یہ منفی اثرات تاحیات انہیں کسی انجان سی کمی میں مبتلا رکھتے ہیں،کسی بھی بچے کو ماں اور باپ میں تقسیم کرنا بچے کو دو ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ بچہ جونہی شعورپکڑنے لگتا ہے باپ اپنی صفائی میں جھوٹ کی حد تک جا کر خود کو بے قصور ثابت کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف ماں اپنے بچے کے ذہن میں اس کے والد کا نقشہ فلم کے کسی ولن کی مانند بنانا شروع کر دیتی ہے،اس خاندانی جنگ میں صرف ایک ہی فریق پستا ہے اور وہ ہے اولاد،خدارا چھوٹے چھوٹے معاملات پرگھر تباہ کرنے،بچوں کا مستقبل برباد کرنے،معاشرے میں مذاق بننے اور عدالتوں کچہریوں میں دھکے کھانے کے بجائے اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات گھر کی سطح پر بڑوں کی موجودگی میں مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں،تاکہ آپ کی اولاد کی زندگی کے کسی بدترین ایڈونچر سے محفوظ ہو سکے اور آپ کا خاندان ٹوٹنے سے بچ سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ باتیں شاید پبلک فورم پر ڈسکس کرنے والی نہیں تھیں لیکن ان دو معصوم ننھی جانوں کی چیخیں،ان کی آنکھوں سے گرتی آنسووں کی قطاریں،ان کی بے بسی اور شفقت سے محرومی یہ سب لکھنے پر مجبور کر گئے،حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کی تمھارے اخلاق کے سب سے زیادی حق دار تمھارے اہل خانہ ہیں، اس مفہوم کی روشنی میں آپ علاقہ کے بہت بڑے مصلح ہوں گے،کامیاب انسان ہوں گے،لوگ آپ کی سنتے اور آپ کو پڑھتے ہوں گے اس سب کے باوجود اگر آپ کے آپسی اور گھریلوں حالات بہتر نہیں تو یقینا آپ مکمل طور پر ناکام انسان ہیں،خود غرضی،غصہ،لالچ،انا،بداعتمادی،کی جگہ اگر احترام رائے،بردباری،تحمل،برداشت کو اپنا لیا جائے تو کئی مسائل تو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں،میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو بظاہر اک مکمل کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں،بڑے گھر، جائیدادیں،بڑی گاڑیاں،سٹیٹس لیکن خاندانی معاملات میں صفر،اندر سے خالی،کھوکھلے کسی ڈھول کی مانند،عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ اپنے اندرونی معاملات کو بہتر بنا کر اپنا اور اپنے بچووں کا مستقبل بہتر بنائیے،اناؤں،نفرتوں اور خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں محبت گھولنے کا فن سیکھئے،اور رشتوں کو بچانے کے لئے جھکنا پڑے تو جھک جایئے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اگر جھک جانے سے تمھاری عزت کم ہو جائے تو بروز قیامت مجھ سے لے لینا!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply