ایک پائو قیمہ اور آئی ڈی پیز

ایک پائو قیمہ اور آئی ڈی پیز
ذیشان طاہر
چھٹی کا دن تھا، شام کا وقت۔ہر ہفتے کی طرح بیگم میکے جانے کے لئے تیاریوں میں مصروف تھیں اور میں ٹی وی پر نیوز چینلز دیکھ کر اپنے صحافی ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔اچانک بیگم کی طرف سے ایک سوالیہ تیر میری طرف آیا،سنیں،نارتھ وزیرستان آپریشن کے دوران آنے والے آئی ڈی پیز کی اب کیا صورتحال ہے؟
یہ سوال ایسا تھا کہ میرا بھی ذہن یہ سوچنے لگا کہ ہاں واقعی،اسکا علم تو مجھے بھی نہیں،بہرحال ایک بار پھر اپنی بیگم کو صحافی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میں نے یہ جواب دیا کہ دوہزار چودہ میں ہونے والے فوجی آپریشن کے نتیجے میں دس لاکھ سے بھی زائد آئی ڈی پیز نارتھ وزیرستان سے پاکستان کے مختلف شہروں میں پناہ گزیر ہوئے تھے، جو تقریبا ًدو سال پاک فوج کی زیر نگرانی رہے اور بعد ازاں انکی باحفاظت واپسی کو ممکن بناتے ہوئے تمام آئی ڈی پیز کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیا تھا،امید ہے جس طرح پاک فوج نے آئی ڈی پیز کو کیمپس میں کسی قسم کی تکلیف یا شکایت نہیں ہونے دی تھی، صوبائی حکومتیں بھی ایسا ہی اب کررہی ہونگی۔میرے اس جواب کے بعد بیگم تو مطمئن ہوکر میکے چلی گئی مگر اسکا یہ سوال میرے ذہن میں گھومتا رہا۔
رات اکیلے گزارنی تھی تو کھانے کے ٹائم باہر سے کھانا کھانے کا سوچا، میرے گھر کے نزدیک ایک بہت ہی مشہور ہوٹل ہے،جسکا کوئلہ قیمہ پورے کراچی میں مشہور ہے،میں نے اسی ہوٹل کا رخ کیا، وہاں پہنچ کر ایک پائوقیمے کی قیمت معلوم کی تو قیمت کے نام پر چار سو سن کر پیر کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی،مرتے کیا نا کرتے،اللہ کا نام لے کر ایک پائوقیمے کا آرڈر دے ڈالا۔ایک تو شہر کا مشہور ہوٹل،اوپر سے ویک اینڈ،رش نا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،بے پناہ رش میں جب میں فقط ایک پائو قیمے کی پرچی لے کر جب کچن لائن میں پہنچا تو سب سے پہلے وہاں موجود ویٹر نے برا سا منہ بنایا گویا وہ یہ کہہ رہا ہو کہ ایک پائو قیمے کے خریدار،ذرا دور ہوکر کھڑا ہو!!۔۔ہزاروں روپے کھانے کے خریداروں کے پیچ میں چار سو روپے کی پرچی لے کر کافی دیر تک کھڑا رہا،مگر کھانا نہیں آیا۔
ایک لمبے انتظار کے بعد میں نے منیجرکے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور انکے پاس جاکر اپنا دکھڑا سنایا،منیجر صاحب سے میری تھوڑی بہت جان پہچان ہونے کا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ ایک ویٹر میرے ساتھ دوبارہ کچن لائن تک گیا اور وہاں موجود اسٹاف کو مجھے منیجر صاحب کا دوست کہہ کر متعارف کروایا۔۔بہرحال اس تگڑی سفارش کے بعد مجھے ایک پائو کوئلہ قیمہ مل ہی گیا۔
دوگھنٹے کی اس محنت کے بعد تھکا ہارا گھر واپس پہنچتے ہی پلیٹ میں قیمہ نکالا تو مشکل سے چار پانچ لقمے کا قیمہ پایا،پلیٹ کو دیکھا توبیگم کے سوال سے لےکر دو گھنٹے ہوٹل کی خواری تک کا وقت ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور پھر میرے ذہن میں شاید بیگم کے سوال کا جواب بھی آہی گیا کہ صرف ایک پائوقیمہ جسکے لئے میں تین گناہ زیادہ قیمت بھی دے رہا ہوں،اسکو پانے کے لئے مجھے کئی ویٹرز سے ذلیل ہونا پڑا،تقریبا ً،ڈیڑھ گھنٹے لائن میں کھڑا ہوا ،اور آخرکار کھانے کے لئے بھی منیجر کی سفارش لگوانی پڑی،ایسے ماحول میں صوبائی حکومتیں دس لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز کا کیا حال کررہی ہونگی،یہ سوچ کر ہی دل بیٹھ گیا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply