• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیرت وشہا د ت امام العادلین سید نا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

سیرت وشہا د ت امام العادلین سید نا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

عمر کے ایمان سے اسلام کوشوکت ملی اہل ایمان کوسکونِ قلب کی دولت ملی
جانشین رسول،امام العادلین،امیرالمؤمنین،ناصردینِ مبین،فاتح اعظم سیدُناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے تیرہ ۳۱برس بعدمکۃ المکرمہ میں ہوئی۔نامِ نامی اِسم گرامی ”عمر“لقب”فاروق“کنیت”ابوحفص“ ہے۔ والدماجدکانام خطاب اوروالدہ کانام حنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشمارعشرہ مبشرہ صحابہ کرام میں ہوتاہے۔عشرہ مبشرہ وہ صحابہ کرام جنہیں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کی حیات میں ہی جنت الفردوس کی بشارت دی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاخاندان اپنی ذاتی وخاندانی وجاہت کے اعتبارسے نہایت ممتازاوربلندمرتبہ کاحامل تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسلسلہ نسب آٹھویں پشت میں سرکارمدینہ سے جاملتاہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسلسلہ نسب ”عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی ہے“۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحلیہ مبارک،عادات،رہن سہن بلکہ زندگی کاہرایک پہلوسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اسوہئ حسنہ کانمونہ تھا۔روایات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحلیہ مبارک کچھ یوں ہے۔”گندمی رنگ،سفیدی اورسیاہی کاامتزاج،جس میں ہلکی سرخی نمایاں تھی،رخسارزیادہ بھرے ہوئے نہ تھے،داڑھی مبارک گھنی،درازقدجوہزاروں آدمیوں میں بھی نمایاں نظرآئے،جسم دبلاپتلاچال میں متانت،سرمبارک کے بال ہلکے،شخصیت میں ایسارعب کہ جودیکھے وہ متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے “۔
فض ا ئل ومن ا ق ب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تومشرکین نے کہاآج ہماری طاقت آدھی ہوگئی اس وقت حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (تفسیرمظہری،درمنثور)ترجمہ”اے غیب کی خبریں بتانے والے اللہ تمہیں کافی ہے اوریہ جتنے مسلمان تمہارے پیروہوئے۔(الانفال)
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”میرے صحابہ کوبُرامت کہواگرتم میں سے کوئی احدپہاڑکے برابربھی سوناخرچ کردے توپھربھی وہ ان کے سیربھریااس سے آدھے کے برابربھی نہیں پہنچ سکتا(بخاری)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”جس نے میرے صحابہ کوگالی دی تواس پراللہ تعالیٰ کی،تمام فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے“۔حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”ہرنبی کے لئے دووزیرآسمان والوں میں سے اوردووزیرزمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔سوآسمان والوں میں سے میرے دووزیر،جبرائیل امین علیہ السلام ومیکائیل علیہ السلام ہیں اورزمین والوں میں سے میرے دووزیرابوبکراورعمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہما)ہیں۔(ترمذی)حضرت عبداللہ بن حنطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت ابوبکراورحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کودیکھاتوفرمایا:یہ دونوں (میرے لئے)کان اورآنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں“۔(ترمذی)سیدناحضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا۔”لَوْکَانَ نَبِیَّ بَعْدَیْ لَکَانَ عمربِنْ الخَطَابَ“”اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ عمربن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہوتے“۔(جامع ترمذی،مسندامام احمد،المعجم الکبیر)حضرت جابربن عبداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”میں نے امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکرصدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کرکسی کورعایاکے حق میں بہتراورمہربان نہیں دیکھااورامیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کرکسی کوکتاب اللہ(قرآن پاک)کاعالم،دین کافقیہہ،حدوداللہ کانافذکرنے والااوررعب ودبدبہ والانہیں دیکھاہے۔(اسدالغابہ)
قب ولِ اس لام
سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جس وقت نبوت کااعلان کیااس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمرقریباًستائیس ۷۲برس تھی۔امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب توحیدکی دعوت دی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ابتداء میں اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیا۔حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اللہ عزوجل سے دعافرمائی ”یااللہ!عمربن خطاب یاعمربن ہشام دونوں یادونوں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کی خدمت فرما“۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی دعاشرف قبولیت کوپہنچی اورحضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چالیس مردوں اورگیارہ عورتوں کے بعداسلام لائے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام سے پہلے آپکے بہنوئی حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپکی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔انہوں نے قبولِ اسلام کوخاندان کے دیگرلوگوں اورحضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہسے چھپارکھاتھااسی طرح حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے ایک اورشخص حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسلام قبول کرچکے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کرنیوالوں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے۔ایک دن آپ اسی کیفیت میں نیام سے تلوارنکالے جارہے تھے کہ راستے میں حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی۔حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپکواس حالت میں دیکھاتوپوچھاکیوں ”عمر“ کہاں کاارادہ ہے؟آپ نے کہامیں محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوقتل کرنے کی غرض سے چلاہوں۔حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی بات سن کرکہاکہ ”عمر“!تمہیں تمہارانفس دھوکہ دے رہاہے تم کیاسمجھتے ہوکہ اگرتم نے محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوقتل کردیاتوبنی عبدمناف تمہیں چھوڑیں گے،تم زمین پرچلنے کے قابل بھی نہ رہوگے اورمحمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوقتل کرنے سے پہلے اپنے گھرکی خبرلوتمہاری بہن اورتمہارے بہنوئی نے اسلام قبول کرلیااورانہوں نے حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی پیروی اختیارکرلی ہے۔حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے جب یہ بات سنی توراستہ بدل کراپنی بہن فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گھرروانہ ہوگئے۔آپکی بہن اوربہنوئی کے گھراسوقت حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجودتھے جوانہیں سورۃ طہٰ کی تعلیم دے رہے تھے حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قدموں کی آہٹ سن کرحضرت سعیدبن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہکوگھرکے ایک کونے میں چھپادیا۔آپ گھرمیں داخل ہوئے اورپوچھاتم لوگ ابھی کیاپڑھ رہے تھے؟آپکی بہن نے کہاکچھ بھی نہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ میں نے خوداپنے کانوں سے تم دونوں کوکچھ پڑھتے سناہے اورمجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ تم دونوں نے محمد(ﷺ)کے دین کی پیروی اختیارکرلی ہے آپ نے یہ کہتے ہی اپنے بہنوئی حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہکے منہ پرطمانچہ دے مارا۔فاطمہ بن خطاب شوہرکوبچانے کے لئے آگے بڑھی توآپ نے ان کودھکادے ماراجس سے ان کاسرپھٹ گیااورخون بہناشروع ہوگیا۔آپکے بہنوئی نے آپکے جلال کی پرواہ کئے بغیرکہاکہ ہاں!ہم نے اسلام قبول کرلیاہے اورآقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پردل وجان سے ایمان لے آئے ہیں۔آپ نے جس وقت حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہکاسخت لہجہ اوربہن کابہتاہواخون دیکھاتوقدرے شرمندہ ہوگئے اورکہنے لگے اچھامجھے بھی وہ صفحات دکھاؤجوتم پڑھ رہے تھے میں تمہیں پڑھ کرواپس کردوں گا۔آپکی بہن فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہاکہ ان صفحات کوکوئی ناک شخص نہیں چھوسکتااس کے لئے پہلے تمہیں غسل کرناہوگاحضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے غسل کیااوراپنی بہن اوربہنوئی سے اوراق کامطالبہ کیا۔آپکی بہن نے خودسورہ طہٰ کی تلاوت شروع کی جب وہ اس آیت کریمہ پرپہنچیں۔(ترجمہ)”بے شک میں ہی اللہ ہوں اورمیرے سواکوئی دوسرامعبودنہیں اسلئے تم میری عبادت کرواورمیری ہی یادمیں نمازپڑھاکرو“۔توحضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی آنکھوں سے آنسونکل گئے اورکہنے لگے کس قدراچھااورعظمت والاکلام ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہبے اختیارپکاراُٹھے۔اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہجوکہ گھرمیں چھپے ہوئے تھے انہوں نے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی زبان سے یہ کلمات سنے توباہرنکل آئے اورکہنے لگے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ!واللہ میں نے کل ہی حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کویہ دعافرماتے ہوئے سناتھاکہ یاالٰہی!عمربن خطاب اورعمربن ہشام دونوں میں سے ایک کے ذریعے دین اسلام کوتقویت پہنچااللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی دعاقبول فرمالی اوردین اسلام کوتمہارے ذریعے تقویت پہنچائی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قلب پررقت طاری ہوئی اورحضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہسے کہنے لگے کہ مجھے حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اس وقت کوہِ صفاکے نواح میں دارِارقم میں موجودتھے۔ حضرت سید ناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہدارِارقم روانہ ہوگئے۔صحابہ کرام علہیم الرضوان نے جب عمرِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکوآتے دیکھاتوآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کواس بات کی اطلاع پہنچائی۔حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چچاسیدناحضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہجوکہ اسوقت آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس موجودتھے انہوں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے متعلق سناتوفرمایاکہ ”عمر“کوآنے دواگرتووہ بھلائی کے ارادے سے آیاہے تواسکے ساتھ بھلائی ہی ہوگئی اوراگرکسی برائی کے ارادے سے یہاں آیاہے تومیں اس کاسرقلم کردوں گا۔حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہجس وقت دارِارقم میں داخل ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے آپکادامن پکڑکرفرمایا”عمر“کیاارادہ لے کرآئے ہو؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!اسلام قبول کرنے کے لئے حاضرخدمت اقدس ہواہوں۔امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی با ت سن کرنعرہ تکبیربلندکیااورصحابہ کرام علہیم الرضوان نے جواب میں اللہ اکبرکانعرہ بلندکیاجس سے کوہِ صفاکی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اسلام قبول کیاتوابوجہل کے گھرجاکرفرمایامیں تمہیں بتانے آیاہوں کہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے اوراگراب تم نے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے بارے میں کچھ غلط کیایاکہاتومجھ سے براکچھ نہ ہوگا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اسلام قبول کرنے کے بعدامام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!جب ہمارادین برحق ہے اورمشرکین باطل ہیں توپھرہم اس دین کوپوشیدہ رکھ کرکیوں عبادت کرتے ہیں سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مجھے اجازت دیجیے رب کعبہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کودین حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اسلام قبول کرنے سے پہلے میں کفریہ مجالس میں بھی اعلانیہ شرکت کرتاتھااب میں دین اسلام کی محافل کاخوب چرچاکروں گااوردیکھوں گاکہ کس میں اتنی جرأت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اورصحابہ کرام علہیم الرضوان کی طرف گندی نظروں سے دیکھ سکے۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اجازت کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہخانہ کعبہ میں تشریف لے گئے اورمشرکین مکہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایااے لوگو!جوشخص مجھے جانتاہے اسے خوب معلوم ہے اورجومجھے نہیں جانتااسے معلوم ہوناچاہیے میں عمربن خطاب ہوں اے مشرکین مکہ!میں نے اسلام قبول کرلیاہے اورآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اطاعت اختیارکرلی ہے میں تمہیں آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اطاعت کی دعوت دیتاہوں اگرتم نے اس دعوت کوقبول کرنے میں سستی دکھائی توعنقریب میری تلوارتمہاری گردنوں پرہوگی۔اس اعلان کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے بیت اللہ شریف کاطواف کیااوربلندآواز سے کلمہ طیبہ کاوردجاری رکھا۔ابن سعدکی روایت ہے کہ جب حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اسلام قبول کیااسکے بعدسے اسلام کوکبھی زوال نہ آیااورمسلمانوں کوکبھی رسوائی کاسامنانہ کرناپڑا۔
ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ جب حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے وصال کاوقت قریب آیاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکوبطورِ خلیفہ نامزدکیاحضرت سیدناعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے پاس تشریف لائے اوردریافت کیاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے کس کوخلفیہ نامزدکیاہے؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے جواب دیاکہ میں نے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخلفیہ نامزدکیاہے دونوں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بیک وقت پوچھاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اپنے رب کوکیاجواب دیں گے؟فرمایاکیاتم مجھے اللہ پاک سے ڈراتے ہوبے شک میں اللہ اورعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوتم دونوں سے زیادہ جانتاہوں،میں کہوں گاکہ میں لوگوں میں سے بہترین کوخلیفہ مقررکرکے آیاہوں۔منصب خلافت سنبھالتے وقت آپکی عمرمبارک قریباًباون سال تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے منصب خلافت سنبھالنے کے بعدسب سے پہلے فوجی معاملات اورعراق کی مہم کی جانب اپنی توجہ مبذول فرمائی اورحضرت خالدبن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکمانڈرانچیف کے عہدے سے ہٹاکرحضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکمانڈرانچیف مقررکیا۔تاریخ اسلام میں کوئی بھی شخص حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے پایہ کافاتح نہیں ہوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی فتوحات کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے دورخلافت میں چھتیس سوعلاقے فتح،نو۰۰۹سوجامع مساجداور۰۰۰۴عام مساجدتعمیرہوئیں۔آپکے دورِ خلافت میں مفتوح علاقوں کاکل رقبہ بائیس لاکھ مربع میل ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے ساڑھے دس سالہ دورِ حکومت میں کئی بڑے علاقے اورملک فتح ہوئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی بہترین جنگی حکمت عملی کے باعث مسلمان ملک عرب سے باہرنکل کرایک بڑے حصے پرقابض ہوئے اوراسلام کاجھنڈالہرایا۔خلافت کاآغازحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے دنیاسے ظاہراًپردہ فرمانے کے بعدحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے خلیفہ بنتے ہی شروع ہوگیاتھامگرانتظامی امورجن کے لئے محکموں کاقیام ضروری تھاوہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے دورِخلافت میں معرضِ وجودمیں نہ آسکے کیونکہ اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہجب خلفیہ مقررہوئے تواس وقت مختلف فتنے برپاہوگئے جن میں نبوت کے جھوٹے دعویدار،منکرین زکوٰۃ وغیرہ جس کی وجہ سے حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اُمت کی یکجہتی کے لئے ان کے خلاف جہادشروع کیااورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے مختصردورِ خلافت میں ان تمام فتنوں کاسدِ باب کیاگیا۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے دورِخلافت میں مجلس شوریٰ قائم کی گئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ملک کوآٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایاجن کے نام یہ مکۃ المکرمہ،مدینۃ المنورہ،شام،جزیرہ،بصرہ،کوفہ، مصراورفلسطین ہیں۔صوبوں کے انتظامی امورکوچلانے کے لئے گورنرمقررکیے اورگورنرکی مددکے لئے دیگرعہدیدارمقررکئے گئے جن کی تفصیل یہ ہے۔صاحب بیتُ المال (وزیزخزانہ) قاضی(جس کاکام ہرقسم کے مقدمات کافیصلہ کرناتھا)صاحب احداث(پولیس کااعلیٰ افسر)صاحب الخراج(محکمہ زکوٰۃ کاانچارج) کاتب دیوان (فوجی دفترکامنشی)کاتب(جوگورنرکی خط وکتابت کرتا)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی جانب سے حکومت کے تمام عہدیداروں کوتنخواہ دی جاتی تھی تاکہ وہ حکومتی کام کے علاوہ کوئی اورکام نہ کریں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے دورِ خلافت میں بیت المال کاقیام ۵۱ہجری معرض وجودمیں آیا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے مروی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آٹھ لاکھ درہم لے کرحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی خدمت میں حاضرہوئے اتنی کثیررقم چونکہ فوری طورپرخرچ نہیں کی جاسکتی تھی اس لئے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اس رقم کواپنے پاس رکھ لیا۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رات کوسونہ سکے بلکہ سوچتے رہے اتنی بڑی رقم کاکیامصرف ہوناچاہیے۔ نمازِفجرکے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی بیوی نے دریافت کیاکہ کیاوجہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہرات بھرسونہ سکے؟ فرمایاکہ میرے پاس لوگوں کی امانت موجودتھی اوراتنامال دین اسلام کے بعدکبھی بھی ہمارے پاس نہیں آیامجھے خطرہ تھاکہ کہیں میں مرجاؤں اوریہ مال میرے پاس رہ جائے۔اس کے بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے صحابہ تمام اکابرصحابہ کرام علیہم الرضوان کواکٹھاکیااوران سے رائے طلب فرمائی کہ اس رقم کاکیاکرناچاہیے؟کیامیں لوگوں کوناپ تول کرکے ساری تقسیم کردوں۔تمام اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے بیک زبان ہوکرکہاکہ ایسے مت کیجیے لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے اورمال کثیرہوتارہے گاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہلوگوں کولکھ کردیجیے پس جب کبھی لوگ زیادہ ہوں اورمال زیادہ ہوتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی تحریرکے مطابق ان کودیتے رہیئے گاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے فرمایاکہ پھرمیں اس کی تقسیم حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے خاندان سے شروع کروں گااوراس کے بعدحضرت سیدابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکاخاندان اورپھرترتیب سے چنانچہ رجسٹرتیارکیاگیاجس میں بنی ہاشم،پہلے،بنی مطلب دوسرے،بنی عبدشمس تیسرے،بنی نوفل چوتھے بنی عبدمناف پانچویں،بن عبدشمس چھٹے اوراسی طرح باقی ترتیب بنائی گئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے بیت المال کے قیام کے بعدتمام صوبوں کے گورنروں کوہدایت کہ وہ اپنے مصارف کے لئے رقم نکال کربقایارقم اورمال مرکزی بیت المال کوروانہ کردیاکریں۔ایک مرتبہ صدقے کے کچھ اونٹ بیت المال میں آئے حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓکرم اللہ وجہہ الکریم کوبلابھیجاتاکہ ان کے کوائف تیارکیے جائیں اس دوراب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہخوددھوپ میں کھڑے ہوکران اونٹوں کے رنگ،عمراورحلیہ لکھواتے رہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے بیت المال کے لئے عمارت تعمیرکروائیں جن کومسجدوں سے ملحقہ رکھاگیاتاکہ مسجدوں میں ہروقت لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے چوری کاامکان نہ رہے بیت المال میں آمدنی کے ذرائع جووضع کئے گئے تھے۔خراج بیت المال میں آمدنی کاسب سے بڑاذریعہ خراج تھااللہ پاک نے جس وقت اسلام کوملک عرب سے باہرفتح دینی شروع کی تولشکراسلام کے سپاہیوں نے تقاضاکیاکہ مفتوحہ علاقوں کی زمینیں ان میں تقسیم کردی جائیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ان کی اس تجویزکوردکیااورحکم جاری کیاکہ زمینیں ان کے سابقہ مالکوں کے پاس ہی رہیں گی اوران پرٹیکس کانظام نافذکیاجائے گاجس پرزمینوں کے مالک سالانہ رقم کی ادائیگی کریں گے۔بیت المال کی آمدنی کاایک اورذریعہ جزیہ تھا جولشکراسلام لوگوں کوامان دینے کے سلسلے میں وصول کرتاتھا۔مسلمانوں کی ملکیت میں جوزمینیں تھیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پرخراج کی بجائے عشرکانظام رائج کیاجس کے مطابق وہ اپنی پیدوارکادسواں حصہ بیت المال میں جمع کروانے کاپابندتھا۔ عشورکانظام جوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجادتھی۔کوئی مسلمان تاجراپناسامانِ تجارت دوسرے ملک لے کرجائے گاتووہ پہلے اپنے مال کادس فیصدٹیکس اورجو دوسرے ممالک سے اپنے سامانِ تجارت فروخت کرنے والے تاجربھی اپنے مال کادس فیصدٹیکس بیت المال میں جمع کروائے گا۔زکوٰۃ، صدقات،مال غنیمت وغیرہ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے اخراجات کے لئے مدارج مقررفرمائے جن کے تحت بیت المال کی رقوم کوخرچ کیاجاتارہا۔بنوہاشم کے ہرفردکے لئے سالانہ۰۰۵۱ہزاردرہم،حضرت سیدناعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے سالانہ۰۰۴۱ہزاردرہم،اصحاب بدرکے لئے سالانہ ۰۰۰۵ہزاردرہم،ہرانصاری کے لئے سالانہ ۰۰۰۴ہزاردرہم،مہاجرین حبشہ کے لئے سالانہ ۰۰۰۴ہزاردرہم،اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سالانہ ۰۰۰۴ہزاردرہم،حضرت عبداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سالانہ ۰۰۰۳ہزاردرہم،ازواجِ مہاجرین وانصارکے لئے سالانہ ۰۰۶۲سودرہم،اہل مکہ کے لئے سالانہ ۰۰۸سودرہم، صفیہ بن عبدالمطلب کے لئے سالانہ۰۰۰۶ہزاردرہم،ہرمعصوم بچے کاسالانہ وظیفہ۰۰۱سودرہم بچے کابالغ ہونے پرسالانہ وظیفہ ۰۰۵سودرہم اس کے علاوہ تمام وہ لوگ جوکسی نہ کسی طرح حکومتی کام میں مددگارتھے اورحکومت کے ملازم تھے ان کی تنخواہیں بھی ان کے کام کے حساب سے مقررکی گئیں۔لوگوں کی تجویزپرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بیت المال سے وظیفہ لینے کی تجویزپیش کی گئی تھی جووظیفہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مقررتھاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہی وظیفہ اپنے لئے مقررکیا۔بعدمیں تمام اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے متفقہ طورپراضافہ کی منظوری دے دی۔غیرمسلموں کے لئے وظائف مقررکئے گئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کی اضافی رقم سے بہت سے تعمیرات بھی کروائیں جن میں سب سے اہم سڑکوں کی تعمیرہے تاکہ لوگوں کوآمدورفت میں آسانی ہواس مقصدکے لئے سڑکوں کاجال بچھایاگیا۔پُل تعمیرکئے گئے اورچوکیاں قائم کی گئیں ۷۱ہجری میں حرمین شریفین کے درمیان سڑک کاکام مکمل ہواجہاں ہرمنزل پرایک فوجی چوکی قائم کی گئی سرائے بنائی گئیں،ہرمنزل پرپانی کاانتظام کیاگیا،جس کے لئے کنویں اورچشمے تعمیرکئے گئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں فتوحات کادائرہ وسیع ہوااورلوگ جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے توہرسال حج کرنیوالے زائرین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہونے لگاجس کے باعث بیت اللہ شریف کی توسیع ناگزیرہوگئی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۷۱ہجری میں بیت اللہ شریف کے گردوبیش کے مکانات خریدکرگرادیئے اوراس جگہ کوبیت اللہ شریف کے صحن میں شامل کرکے چاردیواری تعمیرکروادی۔اسی طرح ۷۱ہجری میں مسجدنبوی کی توسیع کاحکم دیا۔قحط سالی میں پریشانی سے بچنے کے لئے غلہ کے گودام تعمیرکروائے جس میں سرکاری غلہ کومحفوظ رکھاجاتا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیلابی پانی کوشہروں میں داخل نہ ہونے کے لئے دریاؤں پربندتعمیرکروائے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمان خانوں کی تعمیرکروائی۔ تاکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے مسافروں کوکسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ فوج کامحکمہ قائم کیاجس میں باقاعدہ لوگوں کوبھرتی کیاگیا ان کی تنخواہیں مقررکی گئیں تاکہ بوقت ضرورت اس بات کاانتظارنہ کرناپڑے کہ لوگ جمع ہوں اورجہادشروع کیاجاسکے۔اس کے بعددیگرعلاقوں میں فوجی مراکزقائم کئے گیے اسلامی مملک کے مختلف حصوں میں چھاؤنیوں کی تعمیرکی گئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کی آسانی کے لئے بہت سے انتظامات کیے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں تعلیم کے لئے بھی باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نصاب ِتعلیم میں قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم اورحفظ قرآن،عربی لغت اورعربی ادب کی تعلیم کوبصابِ تعلیم کاجزوبنایا۔رفتہ رفتہ جب نظام تعلیم چل پڑاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نظام تعلیم میں حدیث وفقہ کی تعلیم اورفن وکتابت کوبھی اس نصاب کاحصہ بنادیااس کے علاوہ ہرطالب علم کونیزہ باری،شمشیرزنی،تیراندازی،نشانہ بازی اورشہسواری کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نظام تعلیم کوروانی سے چلانے کے لئے ان اساتذہ کابندوبست کیاجوکہ حفاظ تھے،مفسرتھے،محدث تھے،فقیہہ تھے،ادیب تھے،مجاہدتھے اورخاص کربارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے فارغ التحصیل تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اساتذہ کی معقول تنخواہیں مقررکیں تاکہ وہ دلجمعی سے طلباء کوتعلیم دے سکیں۔آزادعدلیہ کاقیام بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت کابڑاکارنامہ تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں ہجری سال کاآغازکیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورخلافت میں دین کی اشاعت کے لئے بڑھ چڑھ کرکام کیا۔
ش ہادت
مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ کاایک نصرانی غلام فیروزابولولورہتاتھاجوکہ نہاوندکے معرکہ میں قیدہوکرمدینہ منورہ میں لایاگیاتھا۔ایک دن فیروزابولولوامیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوتااورکہتاہے کہ میراآقامجھ سے زیادہ محصول وصول کرتاہے۔امیرالمومنین نے اس سے محصول کی رقم دریافت کی تواس نے کہاکہ دودرہم روزانہ،امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے دریافت کیاکہ تم کام کیاکرتے ہو؟اس نے کہاکہ امیرالمومنین میں نقاشی اورنجاری کاکاکام کرتاہوں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ ان ہنروں کے آگے یہ رقم زیادہ نہیں۔فیروزابولولونے جب یہ سناتووہ امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دل میں بغض رکھنے لگا۔ذی الحجہ ۳۲ہجری نمازفجرکے وقت جب تمام مسلمان مسجدنبوی میں نمازکے لئے جمع ہوئے توفیروزابولولوایک تیزدھارخنجرلے کرمسجدنبوی میں داخل ہوا۔امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازفجرکے وقت تشریف لائے اورنمازکے لئے صفیں درست کروانے لگے۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفیں درست کروانے کے بعدامامت کے لئے کھڑے ہوئے اورتکبیرکہہ کرنمازشروع کی توفیروزابولولواس دوران نمازیوں کی صفیں چیرتاہواتیزی سے آگے بڑھااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریکے بعددیگرے چھ وارکئے جن سے ایک وارزیرناف لگاجس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نڈھال ہوگئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپکڑکرامامت کے لئے آگے کیااورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے ہوش گئے۔فیروزابولولونے حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرحملہ کرنے کے بعدبھاگنے کی کوشش کی اورجب لوگوں نے اسے پکڑلیاتوفیروزابولولو نے اپنے ہی خنجرسے خودکشی کرلی۔نمازفجراداکرنے کے بعدامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوگھرلایاگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہوش میں آتے ہی پوچھامیراقاتل کون ہے؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبتایاگیاکہ فیروزابولولو اوراس نے اپنے خنجرسے خودہی خودکشی کرلی ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ رب العالمین کاشکراداکیاکہ میراقاتل کوئی مسلمان نہیں ہے اس دوران طبیب کوبلایاگیاجس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودودھ اورنبیذپلایاجوکہ زخم کے راستے سے باہرنکل آیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حالت آہستہ آہستہ مزیدخراب ہونے لگی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کواُم المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجاکہ وہ انہیں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اورحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلومیں سپردخاک ہونے کی اجازت مراحمت فرمادیں۔حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اُ م المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچے اوران سے امیرالمومنین حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش کااظہارکیاتواُم المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایایہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن میں حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات کوخودپرترجیح دیتی ہوں اوریہ جگہ ان کوعطاکرتی ہوں۔امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجب بتایاگیاکہ اُم المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جگہ مرحمت فرمادی ہے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایاکہ میرے سرکے نیچے سے تکیہ ہٹادوتاکہ میں اپناسرزمین سے لگاسکوں اوراللہ پاک کاشکراداکروں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوقت وصال اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہاکہ دیکھومیراوپربیت المال کاکتناقرض ہے؟حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ چھیاسی ہزارآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ تم میراتمام مال فروخت کرکے بیت المال میں جمع کرادینااوراگریہ رقم ناکافی ہوتوپھراپنے مال سے اسکواداکرنااوراگرپھربھی ناکافی ہوتوبنی عدی بن کعب سے لے لینااوراگرپھربھی یہ قرضہ پورانہ ہوتوقریش سے قرضہ کی ادائیگی کاسوال کرنااوران کے علاوہ کسی سے نہ کہنا۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کاوقت قریب آیاتوصحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلفیہ کی نامزدگی کامطالبہ کیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایاکہ تم جاکر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم،حضرت طلحہ بن عبیداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت زبیربن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبلالاؤ۔جب یہ صحابہ کرام علہیم الرضوان حاضرِ خدمت ہوئے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ میں خلافت کاامرتمہارے سپردکرتاہوں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اپنے وصال کے وقت تم سب سے راضی تھی۔اس لئے میں یہ امرتمہارے سپردکرتاہوں اورتم خودمیں سے ایک شخص کوخلیفہ مقررکرلو۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کووصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ بیٹا!جب میں مرجاؤں تومیری آنکھیں بندکردینااورمیرے کفن میں میانہ روی اختیارکرنااوراسراف نہ کرناکیونکہ اگرمیں اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ہوامجھے دنیاسے بہترکفن مل جائے گااوراگرمیں اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول نہ ہواتویہ کفن میرے پاس نہیں رہے گااورمجھ سے چھین لیاجائے گا۔میری قبرکوزیادہ لمبی اورچوڑی نہ کرناکیونکہ اگرمیں اللہ پاک کے نزدیک معتبرہواتووہ میری قبرکوحدنگاہ وسیع کردے گاورنہ میری قبرجتنی مرضی چوڑی ہووہ اتنی تنگ کردی جائیگی کہ میری پسلیاں ٹوٹ جائیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۲ذی الحجہ ۳۲ہجری کوزخمی ہوئے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاوصال یکم محرم الحرام ۴۲ہجری بروزہفتہ کو ہوا۔(اِنّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن)وصال کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمرمبارکہ قریباً63 برس تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوامیرالمومنین سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلومیں دفن کیاگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبیری کے پتوں میں ابلے ہوئے پانی سے تین مرتبہ غسل دیاگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازہ جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی جوکہ نبی کریم رؤف رحیمصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے منبراورمزارکے درمیان ریاض الجنۃ میں اداکی گئی جبکہ حضرت سیدناعثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت سیدناعلی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم،حضرت زبیربن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم مبارکہ کوقبرمبارک میں اتارا۔ اللہ رب العزت ہم سب کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کومعاف فرمائے بروزقیامت آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply