ہم اور ہمارے انداز گفتگو

شہنشاہ سخن مرزا غالب کے معروف شعر کے ساتھ بات کا آغاز کرتے ہیں۔ کہتے ہیں :
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
گفتگو کسی بھی شخص کی سیرت و کردار اور اخلاق و عادات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص گفتگو کرتاہے تب اس کے حسن و قبح سامنے آتے ہیں، ہر شخص کی شناخت اور اس کی پہچان اس کی گفتگو ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انسان کی گفتگو صاف، واضح اور ہرشخص کے لیے قابل فہم ہونی چاہیے، حدیث شریف میں آتاہے کہ تاجدار مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ایک دوسرے سے الگ ہوتاتھا، آپ ؐ کے الفاظ گنے جاسکتے تھے اور زبانی یاد کیئے جاسکتے تھے، آپ گفتگو ٹھہر ٹھہر کے فرماتے تھے اس ٹھہراؤ میں خوبصورتی، رعنائی اور دلنوازی ہوتی تھی، تاکہ لوگ ایک ایک لفظ سن لیں اور یاد کرلیں، اور اگر کچھ پوچھنا ہوتو غور وفکر کرکے مجلس ہی میں پوچھ لیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ منتخب اور موزوں ترین ہوتے، گویا نگینوں کی طرح باہم جڑے ہوتے جس کو علٰحدہ نہیں کیاجاسکتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کالہجہ دھیما ہوتاجس میں محبت و الفت رحمت وشفقت کی حلاوت اور شیرینی ہوتی، دوست تو دوست دشمن بھی آپ کی بات سننے کے بعد کاٹنے کی جرأت نہ کرتامخاطب کو پورے الفاظ سے گفتگو کرنے کا موقع دیتے اور پوری توجہ اور انہماک سے اس کی گفتگو سنتے اور پھر اطمینان سے اس کے سوال کے جواب دیتے، مختصر الفاظ میں تشفی بخش جواب دیتے طول و طویل کلام سے احتراز کرتے تاکہ سننے والا اکتانہ جائے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا کاہے ؛
کل اُن کو بات بات پر سو سو دیئے جواب
مجھے آپ اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا​
زبان، انسانی کردار کی سب سے واضح شکل ہے۔ زبان کے بولنے والے کو کم از کم اپنی زبان کے دو اسلوب اپنانا ہوتے ہیں۔ایک جو وہ بے تکلفّانہ ماحول اور اپنے دوستوں کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو سنجیدہ اور رسمی گفتگو میں اختیار کرتا ہے۔ گویا زبان کے بولنے والے گفتگو کرتے وقت الفاظ کے استعمال میں تین باتوں کا خیال رکھتے ہیں: زمان، مکان اور مخاطب کا۔ مثلاً ہم روزمرّہ زندگی میں بار بار یہ الفاظ و عبارات بولتے اور سنتے ہیں:
’’کہنا‘‘؛ ’’بتانا‘‘؛ ’’عرض کرنا‘‘؛ ’’فرمانا‘‘۔
’’اُس سے لے لو!‘‘؛ ’’اُس سے مانگ لو!‘‘؛’’اُن سے درخواست کرنا‘‘؛ ’’اُن سے گزارش کرنا‘‘۔
جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن الفاظ میں سے کس کو ، کہاں، کس کے ساتھ اور کس طرح استعمال کرنا ہے۔ بعض اوقات کسی ناگوار موضوع سے متعلقہ الفاظ ادا کرنا بُرے، ناشائستہ یا ناگوار سمجھے جاتے ہیں لیکن دورانِ گفتگواِن کا ذکر چوں کہ ناگزیر ہے اِس لیے اشخاص الفاظ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ایسے کنایے ایجاد کرتے ہیں جن سے مطلب ادا ہو جائے لیکن بُرائی ، ناشائستگی یا ناگواری کا کوئی پہلو نہ نکلے۔ گویا ایک ہی بات کو مقتضائے کلام کی بناء پر بہتر، شائستہ اور خوش گوار انداز میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ گفتگو کا گر سلیقہ نہیں تو پھر احمد فراز نے خوب کہا ہے ؛
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے
بلاشبہ معاشرے کا جمالیاتی پہلو ہے۔ اس میں دو چیزیں اہم ترین ہیں: گفتگو میں نرم خو اور نرم رو ہونا اور دسترخوان کا سیلقہ ہونا۔ یہ دونوں چیزیں طبیعت کی کشادگی اور فیاضی کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں اور جو خوداعتمادی کی اساس بھی ہیں اور معاشرے میں جمال کا منصہ شہود بھی۔ دینداری کے متداول تصورات میں خوش سلیقگی، مہذب پن اور زندگی کے جمالیاتی پہلووں کی گنجائش کس قدر ہے، وہ ہم سب پر روشن ہے۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
چاہیئے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دوبدو ہونے لگی
انسان کا سب سے بڑا وصف اظہار خیال ہے۔آپ اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے خیالات ،افکارات ،تصورات ،اعتقادات کو دوسرے تک باآسانی پہنچاسکتے ہیں ۔جب آپ اپنی گفتگو کا آغاز کریں تو چند چیزوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا آپ کیلئے ازحد ضروری ہے۔آپ کو اپنی ذات پر بھر پوراعتماد ہونا چاہیے۔جس موضوع پر آپ گفتگو کرنا چاہ رہے ہوں اُس کے بارے میں آپ کی معلومات کامل وجامع ہونی چاہئیں ۔آپ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے بلا حیل وحجت براہ راست گفتگو کا آغاز کریں ۔اگر آپ اپنی گفتگو کو قرینے سے آگے بڑھائیں گے تو آپ اپنے خیالات کے ذریعے دوسروں کو متا ثر کر کے اپنی پیروی پر آمادہ کریں گے ۔آپ کے اند ر گفتگو کی صلاحیت آپ کی خوبیوں کو جَلا بخشتی ہے ۔اور دوسرے لوگوں سے آپ کو ممتازوممیز کرتی ہے۔آپ کسی بھی اورسماجی اور معاشرتی سرگرمی کی بناء پر معتبراور موقر نہیں بن سکتے ۔جتنی جلدی گفتگو اور فن تقریر کی بناء پر آپ لوگوں میں اپنا مقام بہتر واہم بنا لیتے ہیں ۔گفتگو اور تقریر سے آپ کو اپنے اندر ایک عظیم قو ت کا احساس ہوتا ہے ۔یہ عمل آپ کو دوسرے لوگوں کی سطح سے بلند کردے گا ۔
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا
مجھ سے کسی نے وعدے وعید تو نہیں کیئے ۔۔ اس شعر کو لکھنے کا مقصد وہ خوبصورت اور دلنشین لہجے ہیں جو ماحول اور موقع کی مناسبت سے بات کرنا جانتے ہیں اور اُن کو سننے کے بعد دل چاہتا ہے گفتگو ختم نہ ہو بات سے بات چلتی رہے ۔۔۔
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتے ہیں
دل کو کیا کیا گماں گزرتے ہیں
یہ محبت کی رہ گزر ہے یہاں
لوگ بچ بچ کے پاؤں دھرتے ہیں
پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، سرائیکی بولنے والے جب اپنے مخصوص لہجے میں اردو بولتے ہیں تو اردو بہت پیاری لگتی ہے جتنا خود بولتے ہوئے کبھی نہیں لگتی ۔۔ میرا ایک سرائیکی دوست جب اپنے مخصوص میٹھے لہجے میں اردو بولتا ہے دل چاہتا ہے اُس کو سُنتا رہوں ۔۔ لکھنوی لہجے کی شان ہی نرالی ہے ۔۔ باتوں کی مار بھی مار دیتے ہیں مگر ادب کے ساتھ ۔
گفتگو کرنا بلکہ اچھی گفتگو کرنا کسی فن سے کم نہیں اور یہ فن اُن لوگوں کو آتا ہے جن کا مطالعہ اور سوچ وسیع ہو ۔۔ زندگی کے ہر شعبے سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور ہو تاکہ کسی بھی موضوع پر بات کی جا سکے ۔۔
گفتگو کے ماہر وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو بات کرتے ہوئے مخاطب کے موڈ کا خیال رکھیں اگر کوئی مذاق کے موڈ میں نہ ہو اور بات کرنے والا بلاوجہ بولتا جائے تو اکتاہٹ لازمی ہے ۔۔ اسی طرح اگر کوئی شخص میٹھے اور نرم لہجے میں بات کرنے کا عادی ہو اور ساتھ ہی اُس کی “ میں “ ختم نہ ہو یعنی خود کو ہر بات میں دوسروں سے برتر ظاہر کرنا ہر بات میں دوسرے کی نفی کرنا ۔۔۔۔ ایسے لوگوں کی میٹھی باتیں زہر اور لہجہ خار سے کم محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔
چھوٹے بچّوں کے توتلے تلّفظ اور ادائیگی کا جو دلکش اور حسین لہجہ ہوتا ہے اُس پر تو قربان ہونے کا دل چاہتا ہے ۔۔ بعض اوقات کچھ بڑی عمر کے ننھوں کا لہجہ بھی بچکانہ ہوتا ہے مگر اُن پر قربان ہونے کی بجائے تھپڑ مارنے کا دل چاہتا ہے ۔
گفتگو میں کسی خاص جملے کی تکرار پیار و محبت میں بھلی لگتی ہے جیسے “ مجھے تم سے محبت ہے “ کی تکرار ۔۔۔ لیکن اگر روز مرّہ کی باتوں میں کسی جملے کی بار بار تکرار ہوتی رہے تو سننے والا بات پر توجہ نہیں دیتا کہ کون سنے بک بک ۔۔۔۔
لہجہ حاکمانہ ہو ، طنزیہ و تنقیدی یا چاپلوسی والا، موقع کی مناسبت سے ہی سجتا ہے ۔۔۔ میری گفتگو اور لہجے میں اس پوسٹ میں لکھے گئے ہر لہجے کی آمیزش ہے سوائے خود پسندی اور چاپلوسی کے ۔۔۔ مگر موقع کی مناسبت سے ۔۔۔ دلکش لہجہ اور میٹھی گفتگو ہی سب کچھ نہیں ۔۔ بات کرنے کے سارے سلیقے بھی ساتھ ہوں تو بات بنے ۔۔۔۔ ورنہ خاموشی میں سکون ہے ۔ معروف محقق انور سدید مرحوم کے اس شعر کے ساتھ بات کا اختتام کرتے ہیں ؛
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما علینا الابلاغ ۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply