ایک (آخری) جلالی کالم: عارف، حکمت اور بابا رحمت ۔۔۔بابر اقبال

عصر حاضر کے عارف نے کہا تھا ’’ بےشک کامیابی حکمت میں ہے‘‘، خان نے میری طرف حیرانی سے دیکھا گویا بات سمجھ نہ آئی ہو۔  کتنا ہی  سادہ آدمی  ہے جو اللہ والوں کے ادب سے ناواقف ہے،گو اب تو خاتون اوّل ہی رومی اور ابن عربی سے آگے کا مقام رکھتی ہے۔  میں نے اس کو کن انکھیوں سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔

یہ واقعہ ق ن یعنی قبل نیا پاکستان کا ہے، خان اس وقت پریشان تھا، پاکستان کی محبت میں پریشان۔ اس کا سابق خسر ہمہ وقت بارہ ہزار ارب پائونڈ تھیلوں میں لیے پیچھے گھومتا۔  اس کو ہزارہا سمجھایا بابا ہمارا یہ طریق نہیں مگر اس کی سمجھ  یہ نہ آتی تھی کہ گھر آئی لکشمی کو کون ٹھکراتا ہے۔  اس کا واسطہ بھی تو خان سے پڑا تھا، جس نے ٹین اسپورٹس اور سونی اسٹار کی کمنٹری کی کھربوں روپے کی آفرز ٹھکرا رکھیں تھیں۔  آخر کار اسمتھ مایوس لوٹ گیا۔ خان کی پریشانی روپے کی ہرگز نہ تھی، شہرت اس کے پیچھے بھاگتی تھی، وہ صرف اس لیے پریشان تھا کہ نیا پاکستان کیوں کر بن پاوے گا۔

اس کے ساتھی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ لیڈر ٹھیک ہو تو ٹیم کرپٹ بھی چل جاتی ہے۔ اس کی ٹیم کے کچھ لوگ کرپٹ نکلے تھے، گو انہیں برطرف کردیا گیا تھا مگر نئے پاکستان کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہ تھا۔ مشورہ کیا گیا تو طے یہ پایا کہ گوجر خان کا رخ کیا جائے جہاں وہ نابغہ روزگار عصر حاضر کا عارف بیٹھا کرتا ہے، جس کے دسترخوان جیسی دیسی مرغی کہیں اور نہ کھائی۔ عارف نے پوچھا کیا چاہتے ہو؟ خان کی وہی رٹ تھی، نیا پاکستان کیوں کر بنے گا؟

پروفیسر نے دھویں کے مرغولے بناتے ہوئے کہا ’’ نیا پاکستان بنانے کے لیے مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ لمبا سفر کروگے۔ سفر کا اختتام  ہوگا تو تمہاری ملاقات ایک بزرگ سے ہوگی۔  وہ تمہیں ایسا پہچانتا ہوگا جیسے باپ بچوں کو۔ اس کے پاس نئے پاکستان کی کنجی ہے۔  مگر یاد رکھنا بے شک کامیابی حکمت میں ہے‘‘۔

آگے سفر ناتمام کی  کہانی  بوریت سے بھرپور ہے۔ کہاں کہاں نہی بھٹکے۔  کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھائیں۔  بالآخر ایک ایسی عمارت جا پہنچے جس کے باہر ترازو لٹکا ہوا تھا۔  اندر سے ایک سوٹڈ بوٹڈ بابا نکلا جس نے سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا۔  بابا جلال میں تھا۔ فون پر کسی کو ڈانٹ رہا تھا ’’ تم کو پتہ نہیں ٹھیک ہوجائو، ورنہ‘‘ یہ کہتے کہتے بابا نے فون پٹخ دیا۔ ہم لوگ دہشت میں مبتلا ہوگئے کہ اچانک بابا کی نظر خان پر پڑی۔ وہ کسی شفیق باپ کی طرح کھل اٹھا اور بولا ’’ بول بیٹا کیا چاہتا ہے؟‘‘

خان بلک بلک کر رونے لگا بولا ’’ بابا، بائیس سال سے نیا پاکستان بنا رہا ہوں بنتا ہی نہیں ہے۔ جو لوگ ملتے ہیں کرپٹ ہیں، فرشتے کہاں سے لائوں؟‘‘

بابا نے خان کو پچکار کر کہا ’’ بیٹا اقتدار پیل دوج کے کھیل کی طرح ہے‘‘ یہ کہ کر بابا نے فرش پر ایک خاکہ بنایا۔

بابا بولا ’’ جس خانہ میں ایک نمبر لکھنا ہے اس میں ایک پیر رکھنا ہے اور جس میں دو وہاں دونوں پیر رکھنے ہیں۔ ایک سے لے کر دس تک  اسی طرح سفر کرنا ہے۔ خیال یہ رکھنا ہے کہ کہیں پیر کسی لکیر سے نہ ٹکرائے۔  پھر اسی راستے دس سے ایک تک واپس آنا ہے۔  اس کھیل میں سب سے اہم ’’یوٹرن‘‘ ہے جو ۹ اور ۱۰ پر آکر لینا ہے۔  اس یوٹرن پر تمہارا رخ بدل جائے گا، مگر تمہارے پیرلکیروں سے ٹکراتے ہیں کھیل سے باہر ہوجائو گے‘‘

ہم دنگ ہو کر دبنگ بابا کی فلسفیانہ باتیں سنتے رہے۔ خان پر جوش لگ رہا تھا۔  ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی گتھی سلجھ گئی ہو۔ خان نے کہا ’’اور کرپٹ ساتھیوں کا کیا ہوگا‘‘ بابا نے جیب سے ایک چپٹی سی بوتل نکالی جس میں بھورے رنگ کا سیال تھا اور بولا ’’ یہ دم کیا ہوا شہد ہے سب کو چٹا دو، ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔

اس وقت ہماری سمجھ آیا کہ عصر حاضر کے سب سے بڑے صوفی نے جس حکمت  کا ذکر کیا تھا وہ حکیم لقمان والی حکمت نہیں قبلہ بڑے حکیم صاحب والی حکمت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عصر حاضر کے عارف نے کہا تھا ’’ بےشک کامیابی حکمت میں ہے‘‘۔

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply