سب سے پہلے پاکستان۔۔ عامرہزاروی

ان دنوں پاکستان بھارت دشمنی عروج پہ ہے. اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ وطن کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ لڑنی چاہیے یا بھارت کے مسلمانوں کا خیال کرتے ہوئے خاموش رہنا چاہیے؟ اس دور میں کس پہلو کو مقدم رکھا جائے گا؟ یہ سوال ہے جو اٹھایا گیا ہے. اس سوال کا جواب پڑھنے سے پہلے ایک حقیقت پڑھ لیں کہ یہ دور مذہبی ریاستوں کا نہیں بلکہ قومی ریاستوں کا ہے. اب فیصلے مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ ملکی مفادات کی بنیاد پہ ہوتے ہیں.

سب سے پہلے وطن کا تصور علمائے دیوبند کے ہاں ملتا ہے. انھوں نے قومی ریاست کی بات کی اور مذہب پر وطن کو ترجیح دی. مولانا مدنی اور علامہ اقبال کی بحثوں سے یقینا آپ واقف ہوں گے. مولانا مدنی کا موقف تھا کہ قومیں وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں مذہب کی بنیاد پہ نہیں. کچھ ایسی ہی شکست خوردہ لیکن حقیقت پر مبنی سوچ مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی کہ مذہب کی بنیاد پہ لوگوں کو اکھٹا نہیں رکھا جاسکتا، میں دیکھ رہا ہوں کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوجائے گا. اور پھر ہوا بھی ایسے ہی. ایک ہی مذہب کے ماننے والے الگ ہوگئے. مولانا سندھی کابل میں سات سال گزارنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچے جب تک آپ کا ملک آزاد نہیں تو کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا. باہر کی حکومتیں آپ کو لونڈیوں سے زیادہ حیثیت نہیں دیتیں. کابل کی ہجرت کی تلخ یادوں نے مولانا کو وطنیت پر مجبور کیا اور خود انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہمیں جاسوس سمجھا جاتا. انگریزوں کے سامنے مسلمان نمبر بنانے کے لیے ہمیں فتنہ پرور ثابت کرتے. مولانا کو کابل میں نظربند بھی کیا گیا اور مجرم جیسا رویہ ان کے ساتھ رکھا گیا. اسی طرح مولانا جب ماسکو سے ترکی پہنچے تو ترکی عوام اورحکمرانوں میں انھیں کوئی ہمدرد نہ ملا. ترکی کی خلافت بچانے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کےحصہ لیا. مولانا محمد علی جوہر جب یورپ کی سیاحت سے واپس استنبول پہنچے تو آپ نے مصطفی کمال سے ملنا چاہا تو آپ کو جواب دیا گیا کہ مصطفی کمال سے ملنا ہے تو برطانوی سفیر سے درخواست کریں. مولانا جوہر نے جواب دیا ہم ہندوستان میں برطانیہ سے تمھارے لیے لڑتے رہے. یہاں پہنچ کر بھی سفیر سے ہی درخواست کرنا ہے تو رہنے دیں. میں مصطفی کمال سے نہیں ملتا.

حضرت شیخ الہند کی مالٹا جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزری کہانیاں تو بیان کی جاتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ حضرت شیخ الہند کو شریف مکہ نے گرفتار کروایا اور پھر انگریزوں کے حوالے کر دیا. جن سعودی بادشاہوں کے گن گاتے آج ہم تھکتے نہیں انھوں نے آزادی کے بوڑھے ہیرو کو انگریزوں کے حوالے کیا تھا.

یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یہ لوگ وطن کوترجیح دینے لگے. ان لوگوں کو اندازہ تھا کہ اب مسلمانوں کا کوئی مرکز باقی نہیں رہا. جب مرکز ٹوٹ جائے تو پھر پناہ قومیت اور وطن میں ہی لی جاسکتی ہے.

آپ آج کے دور کو ہی دیکھ لیں کہ پاکستان جب بنا تو اس کی مخالفت افغانستان نے کی اور آج تک کر رہا ہے. وہاں بھارت کے قونصل خانے قائم ہیں. ایران ایک مذہبی ریاست ہے. خود کو مذہب کا نمائندہ کہتی ہے. لیکن یہ بھی بھارت کے ساتھ کھڑی ہے. آپ دبئی کو دیکھ لیں. دبئی بلوچستان میں باغیوں کی مدد کر رہا ہے. بنگلہ دیش پاکستان کے نام لیوا لوگوں کو تختہ دار پہ لٹکا رہا ہے. یہ مسلمان ریاستوں کے کام ہیں. ان تمام حقائق کے باوجود ہمیں کیا روش اپنانی چاہیے؟

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرے الفاظ میں ہمیں علمائے دیوبند کے نقش قدم پر چلنا چاہیے یا مولانا مودودی کی سوچ پہ؟ یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے. ہمارے ہاں جو سوچ پروان چڑھ چکی ہے یہ مودودی سوچ ہے. اکابرین دیوبند وطن کے حامی تھے، آزاد قومی ریاستوں کے حامی تھے. ہمیں اپنے وطن کا ساتھ دینا چاہیے. یہی اس دور کا تقاضہ ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply