روداد ِسفر (49) تشکیک کا شکار چائنیز مسلمان۔۔شاکر ظہیر

اس طویل سفر میں جو کچھ میں نے تائیوان اور چائنا میں دیکھا اسے معاشرے میں فرد کے مذہب کے حوالے سے نظریات کی تبدیلی کا سفر کہا جا سکتا ہے ۔ ہر علاقے میں لوگوں کے مزاج اور اس سوسائٹی ، علاقے کے حالات یا حکومتی پالیسیز کے مطابق یہ سفر مختلف مراحل میں تھا ۔ جس علاقے میں لوگ نسل در نسل سے اکٹھے رہ رہے تھے یعنی مقامی لوگ ، وہاں اس سفر کی رفتار کم تھی اور جہاں لوگ ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں چلے گئے اور مختلف علاقوں کے لوگ مکس ہوئے وہاں رفتار کچھ زیادہ ۔ یہ شاید سوسائٹی کے جبر کی حالت میں فرق کی وجہ سے مذہب کے متعلق خیالات کی تبدیلی کی رفتار کا فرق تھا ۔

بہت سے لوگ ایسے تھے جو سارا سال یہی کہتے کہ وہ کسی مذہب کو ماننے والے نہیں ہیں لیکن سال میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی عبادت گاہ میں جاتے تھے یعنی اپنی روایت سے سال کے ایک دن کےلیے جڑ جاتے تھے ۔ اور کچھ نہیں تو ان کے  ہاں موت کی رسومات ان کی مذہبی روایت کے مطابق ادا کی جاتی تھیں ۔ یوں کہہ لیں کہ یہ با اختیار زندگی انہوں نے اپنی مرضی سے گزاری اپنے پسندیدہ نظریات سے اور انجان زندگی جس کا   ان کا علم احاطہ نہیں کرتا ،اس زندگی کے سفر کی ابتداء مذہب کے حوالے کر دی ۔ یعنی وہ تشکیک کا شکار تھے ۔ اس کی مثال تائیوان کے وہ مسلمان تھے جو چھن خاندان کے چائنا میں اقتدار میں آنے کے بعد جبر سے بچنے کےلیے تائیوان ہجرت کر گئے ،وہاں مساجد بھی بنائیں لیکن پھر کچھ نسلوں کے بعد وہ مساجد تاؤ ازم کے مندر میں بدل گئیں اور اب ان کی نسل صرف موت کی رسومات کے حوالے سے اپنی روایت کا اظہار کر دیتی ہے کہ وہ میت کو سفید کفن دیتے ہیں اور ان موت کی رسومات میں سور کی قربانی نہیں کرتے ۔ یا قرآن کے کچھ صفحات ان کے پاس موجود ہیں جنہیں وہ مقدس سمجھتے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے لیکن وہ کسی خدا کو نہیں مانتے بلکہ جہاں رہ رہے ہیں وہاں کی سوسائٹی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ جبکہ تائیوان کی حکومت مذہب کے حوالے سے بہت لبرل ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بہت کوآپریٹیو، کہ اسے او آئی سی نے غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر دوستانہ رویے کا حامل ڈیکلیئر کیا ہے ۔

کچھ ایسے بھی تھے جو مذہبی عقائد و نظریات پر عمل پیرا تو نہیں تھے لیکن مذہبی نشانیاں، علامات اپنے پاس رکھتے تھے ۔ چائنا اور تائیوان کے بہت سے شہروں میں دیکھا کہ انہوں نے بدھا کی تشبہہ کا لاکٹ پہنا ہے یا کوئی دھاگہ باندھا ہوا ہے لیکن اگر پوچھا جائے تو یہی کہیں گے کسی مذہبی رسومات میں  شریک نہیں ہوتے ۔ مذہب کی کسی پابندی کو قبول نہیں کرتے ۔ یا چائنا کے اندر بہت سے مسلمان جو مذہبی علامات کے طور پر سر ہو ٹوپی یا سکاف تو پہنا ہوتا ہے لیکن مذہب سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی کسی عبادت میں شریک ہوتے ہیں ۔ جیسے شی ان کے ریلوے سٹیشن کے باہر میں نے ایک مسلم ریستوران کے دروازے پر ایک مرد عورت کو گاہگوں کو بلاتے دیکھا ۔ مرد نے سر پر ٹوپی اور عورت نے سکاف پہننا تھا لیکن دونوں کے ہاتھ میں بیئر کے گلاس تھے ۔ دونوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بس مسلمان ہیں ۔

دیہات میں لوگ پرانے عقائد سے جڑے ہوئے تھے اور زیادہ تر توہم پرستی کا شکار تھے ۔ جیسے میری ساس جو کسی پیر سے تعویذ لے کر آئی اور بیماری کےلیے جلا کر پانی کے ساتھ پی رہی تھی ۔ یا مسٹر چھن کے گھر میں بھی میں نے کوئی مذہبی علامت نہیں دیکھی لیکن والد کی میت کو دفناتے وقت باقاعدہ پیر کو بلایا اور میت کو دفنانے کےلیے اس پیر نے جگہ ، وقت اور سمت بتائی کہ شمالاً جنوباً ہونا چاہیے کہ یہ ان کی روح کےلیے فائدہ مند ہے ۔ یا میری بیوی کی بھابھی جو حاملہ تھی ہم سڑک پر جا رہے تھے پاس سے بینڈ کی سوگ کی دھن کے ساتھ ایک جنازہ گزرا تو اُس نے پیٹ کے سامنے چھوٹا سا آئینہ رکھ لیا کہ اس میت کی بدروح اس کے بچے کو نقصان نہ پہنچائے ۔

صنعتی انقلاب کے بعد دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے اپنے بند ماحول ، معاشرتی جبر سے نکلے اور ان کےلیے نئے نظریات قابل قبول ہوتے گئے ۔ اگر پہلی ہجرت کرنے والی نسل نے ان نئے نظریات کو قبول نہیں کیا تو دوسری تیسری نسل پرانے عقائد سے غیر مطمئن ہو گئی ۔ چائنا کی کلچر ریولوشن ( ثقافتی انقلاب ) کو بھی پرانے مذاہب یا رسومات کو مٹانے کی کوشش ہی کہہ سکتے ہیں جو حکومتی کوشش تھی تاکہ اس سے افراد میں نئے اپنے پسندیدہ حکومتی ضرورت کے نظریات داخل کیے جا سکیں ۔ ان نئے نظریات کےلیے جگہ بنانے کےلیے پرانے تصورات کے تقدس کو توڑنا انتہائی ضروری تھا ۔ اس لیے ہر پرانی تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی علامت سے نفرت کا اظہار کیا گیا اور اسے تباہ کر دیا گیا ۔

یہ سب کیسے ہوا ؟یہ ایک سوال تھا کیونکہ صدیوں پرانے نظریات ایسے چند دنوں میں نہیں ٹوٹتے ،اس بات کو سمجھنے کےلیے مجھے کافی انتظار کرنا پڑتا ۔ پھر وہ وقت آیا کہ محترم عمار خان ناصر صاحب نے چارلس ٹیلر کی کتاب پر لیکچر دیا جس میں ان تبدیلی کے ادوار کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ۔ اور میری  خوش قسمتی کہ اس لیکچر نے میرے سامنے کئی حقائق واضح کئے اور مجھے اپنے پاکستانی معاشرے کے مستقبل کے خدشات سے بھی آگاہ کیا ۔ جو سوالات ہماری آج کی نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں ان کی وجوہات بھی جاننے کا موقع  ملا ۔ جو کچھ ان دوسرے معاشروں میں ہو چکا ہے وہ جنگ ہمارے ہاں شاید ابتدائی مراحل میں ہے ۔ ابھی لوگ شاید صرف جزیات پر اعتراضات کر رہے ہیں ۔ دیار غیر میں شخصی آزادی کے تصور نے وہاں رہنے والے مسلمانوں کی نئی نسل کو گم کرنا شروع کر دیا اور اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آئی وہ یہی ہے کہ ہمارے مذہبی طبقے نے اس جنگ سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی بلکہ جن لوگوں نے ان مسائل پر توجہ دلائی انہیں مغرب زدہ کے القاب دیے ۔ بہرحال اس کتاب کا مختصر تعارف حاضر ہے آپ بھی اسے دیکھیں اور سوالات کےلیے خود کو تیار کر لیں جو ہمارے گھروں سے اٹھ رہے ہیں اور اٹھیں گے ۔

A secular age

چارلس ٹیلر کی مشہور کتاب جس میں اس نے مغربی معاشرے میں مذہبی حوالے سے سوچ کی تبدیلی کے سفر کو بیان کیا ہے کہ پانچ سو سال میں جہاں خدا پر یقین نہ رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہاں تقریباً پانچ  سو سال کے عرصے میں بے خدا کائنات اور زندگی کا تصور عام سی بات ہو گئی ۔ یہ تبدیلی کیسے آئی اور اس میں کون کون سے عوامل کار فرما ہوئے، اسے چارلس ٹیلر نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ اس مطالعہ میں اس نے کئی معاشرتی ، سائنسی اور معاشی عوامل کو بھی بیان کیا ،جو معاشرے کو اس سٹیج پر لے کر آئے ۔ وہ دور جس میں انسان اپنے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، یونٹس تک محدود تھا وہاں ذرائع مواصلات اور معلومات کے تبادلے کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے جو کچھ وہ چھوٹی کیمونٹی مذہبی تصورات اسے دے رہی تھی وہ اسی پر کفایت کر رہا تھا ۔ جب انڈسٹریل دور شروع ہوا اور انسان بڑے شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہوئے تو مکس سوسائٹی بنانا شروع ہوئی اور نئے نئے خیالات کا تبادلہ بھی ہونا شروع ہوا ، سائنسی ترقی اور فطرت کے قوانین کے مطالعہ نے بھی انسان کے مختلف تصورات میں تبدیلی پیدا کرنا شروع کی ۔ اس کے مختلف ادوار کو چارلس ٹیلر مختلف حصوں میں بیان کرتا ہے۔

پہلا دور وہ تھا جسے وہ توہم پرستی کا دور کہتا ہے جس میں انسان ہر عمل کو خدا کے ساتھ یا مقدس اور دشمن ارواح کے ساتھ منسلک کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے علم کے مطابق جن عوامل کی تفصیل یا توجیہ نہیں کر سکتا تھا انہیں مافوق الفطرت قوتوں سے جوڑ دیتا ۔ پھر انہیں مافوق الفطرت قوتوں کو خوش کرنے کےلیے اس انسان نے کئی رسومات بھی ایجاد کیں تاکہ ان کے غضب سے بچ سکے ۔

دوسرا دور وہ تھا جس میں انسان نے ان عوامل کی سائنسی توجیہ پیش کرنا شروع کر دی اور انہیں فطرتی قوانین سے جوڑنا شروع کر دیا ۔ کائنات کیا ہے پہلے ادوار میں اسے ہم اور طرح سے سمجھ رہے تھے اب اور طرح سے سمجھ رہے ہیں ۔ معاشرے کیسے ہونے چاہیں یا کیسے بنیں ۔ انسان کا پہلے اپنے متعلق یہ تصور تھا کہ وہ انتہائی بے بس اور مجبور ہے ، ماورائی قوتوں کے زیر اثر ہے ، اپنا بچاؤ کر لے تو بڑی غنیمت ہے ۔ لیکن نئے تصورات سے اس انسان نے بیان کرنا شروع کیا کہ کائنات کی قوتوں کو وہ اپنے فائدے میں استعمال کر سکتا ، وہ بے بس نہیں ہے ۔ اور انسان معاشروں کو اپنے مفاد کے مطابق نئے سرے سے تشکیل دے سکتا ہے ۔

تیسرا دور وہ تھا کہ جس میں انسان نے اس مذہبی خدا کی ذات کو چیلنج کرنا شروع کر دیا کہ جب ہر کام فطری اسباب سے ہو رہا ہے تو پھر اس خدا کی ضرورت کیا رہ گئی ہے ۔ کہ جو تصور انسان اپنے بارے میں اور خدا کے بارے میں رکھتا ہے وہ آپس میں ٹکراؤ پیدا کر رہا ہے اور ہم آہنگ نہیں رہا ۔ یہودی اور مسیحی روایات کے تصور خدا کے مقابلے میں ایسے خدا کا تصور پیش کیا گیا جس نے کائنات کو بنایا ، ایک مقصد کے تحت بنایا ، ایک پورا نظام کام کر رہا ہے ۔ لیکن اس کو بنانے کے بعد وہ اس سے لاتعلق ہو گیا ۔

یعنی یہ تصور پیش کیا گیا کہ خدا نے اس دنیا میں نظم کو چلانے کےلیے اسباب پیدا کیے اور خود ایک سائیڈ پر لاتعلق ہو کر بیٹھ گیا ۔ یا یہ نظریات کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کائنات کس نے بنائی یا کسی خدا نے ہمیں بنایا ہو گا ۔ لیکن انسان کو جن حالات سے واسطہ پڑتا ہے اسے ہم سمجھ سکتے ہیں اور اس کا کوئی حل نکال سکتے ہیں اور ہم انسانی علم سے ماوراء کسی علم کو نہیں مانتے ۔ یہاں سے الحاد پیدا ہونا شروع ہوا ۔ یہ تصورات پڑھے  لکھے طبقے کو متاثر کر رہے ہیں ۔ جسے وہ ہومن ازم کہتے ہیں ۔ لیکن روایتی مذہب کے ساتھ لوگوں کی وابستگی بھی برقرار رہی ۔

یہاں آپ معاشرے میں دو مقابل قوتیں پیدا ہو گئیں ۔ ایک جو روایتی مذہب سے جڑے ہیں دوسرے جو ہومن ازم سے منسلک ہیں ۔ اسے نوا ایفکٹ کہتے ہیں کہ جیسے کسی ستارے کے پھٹنے سے ایک انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ کہ پہلے ایک مذہب تھا جس نے سوسائٹی کو جوڑ کر رکھا تھا اب انتشار پیدا ہو گیا ۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان یعنی روایتی مذہبی فکر اور ہومن ازم کے درمیان عام لوگوں کےلیے بے شمار پوزیشن قبول کرنا ممکن ہو گیا جس سے چوتھا دور شروع ہو گیا جس میں خدا کے تصور کو سوسائٹی سے نکالنے کے بعد معاشرتی نظام کو چلانے کےلیے انسان نے خود اصول وضع کرنا شروع کر دے ۔ اور ایک ہر ایک کے پاس اپنا خدا کا تصور بھی ا گیا ۔ جہاں جس کو جو تصور خدا یا مذہب مطمئن کرتا ہے وہ اسے قبول کر کے باقی کو رد کر دیتا ہے ۔ جب تک اس تصور سے مطمئن رہتا اس پر قائم رہتا ورنہ تبدیل کرنا عام سی بات ہے ۔ کچھ کہتے کہ میں خدا پر یقین نہیں رکھتا لیکن روحانیت پر یقین رکھتا ہوں ۔ اور ایسے بھی موجود تھے جو خود کو مسیحی تو کہتے تھے لیکن مسیحیت کے عقائد پر یقین نہیں رکھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ان کے مرنے پر ان کی  رسومات مسیحیت کے مطابق ادا کی جائیں ۔ اس دور میں انسان نے خود کو اس کائنات کو سمجھنے کےلیے اپنے تصورات پیش کرنا شروع کیے ۔ مذہب نے دوبارہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اور لوگوں سے رابطے پیدا کیے جس سے کچھ عرصے کےلیے مغربی معاشرے میں مذہب کی طرف رجحان پیدا ہوا ۔ لیکن اس کے رد عمل میں دوبارہ مخالف نے ایک تصور شخصی آزادی کا پیش کیا کہ انسان معاشرتی ، حکومتی ، مذہبی ، خاندانی ہر طرح کے دباؤ کے بغیر خود اپنی آزادی سے کسی نظریے کو قبول کرے ۔ ان حالات میں کچھ لوگوں نے یہ بھی کیا کہ کچھ مذاہب میں جو باتیں انہیں اچھی لگتی ہیں انہیں جوڑ کر اپنا ایک مکسچر بھی بنا لیا ۔ افراد کے پاس اس وقت بہت سے آپشنز ا گئے ہیں کیونکہ ان کو پابند کرنے والی کوئی طاقت معاشرے میں موجود نہیں ۔ فکری طور پر ایک ہی مذہبی روایت جو معاشرے میں موجود تھی وہ ختم ہو گئی تو یہ سب کچھ ممکن ہو گیا ۔

لیکن ان سب مدارج کے باوجود کسی بھی معاشرے سے خدا کا تصور مکمل طور پر نکالا نہیں جا سکا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ان معاشروں سے مذہب سے بے اطمینانی سو فیصد ہو گئی ۔ انسان کے پاس کچھ بنیادی سوالات ایسے ہیں جن سے وہ دامن نہیں چھڑا سکتا اور سائنس ان کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔ ایسے لوگ جنہوں نے اپنے تصورات سے خدا کو نکل دیا وہ بھی کائنات کی ابتداء اور انتہاء کو بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ پھر جو مذہب کا بنیادی مقدمہ کہ موت کے بعد کیا ہو گا اس کو بھی سائنس بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ موت کے بعد کا سوال ایسا سوال ہے جس سے انسان جان نہیں چھڑا سکتا وہ یہ تصور کرنے کو تیار ہی نہیں کہ موت سب کچھ ختم کر دے گی ۔

ہمارے ہاں یہ سوالات پیدا تو ہو رہے ہیں لیکن یہ اندرونی حرکیات سے نہیں بلکہ مغرب سے تعارف اور ایکسپلورر سے پیدا ہو رہے ہیں اور یہ سوالات پڑھے لکھے طبقے کی طرف سے سامنے لائے جا رہے ہیں لیکن مذہبی انٹیلیجنشیا اس  پر توجہ نہیں دے رہی ۔ حالانکہ مغرب میں مذہبی طبقہ ان مباحث سے پوری طرح واقف تھا اور براہ راست فریق تھا ۔ اس کا جواب دینے کی کوشش میں رہا اور اپنا موقف متعین کرتا رہا ۔ ہمارے ہاں یہ مذہبی طبقے کی بے اعتنائی کیا صورتحال پیدا کرے گی، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ ابھی تک مذہبی طبقات اسے باہر سے آئی سوچ ہی کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن یہ نظریات آہستہ آہستہ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں ۔ کچھ صورتحال ایسی بن رہی ہے جیسی مغربی معاشرے میں موجود ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سامنے سامنے خود کو مسلمان کہلواتے ہیں لیکن وہ نان پریکٹس مسلمان ہیں یعنی ان کی عملی زندگی میں مذہب سے کوئی عمل دخل نہیں ۔ آپ کو کہیں عید کی نماز میں مسجد میں نظر آ جائیں گے ۔ یہ جنگ ہمارے معاشرے میں شروع ہو چکی ہے لیکن کس سٹیج پر ہے یہ مطالعہ چاہتا ہے ۔
Jules Bond
I don’t believe in God but I miss him.

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply