• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ونٹر پیلس پیٹرز برگ کے نگرانوں سے ذرا سی ” تُو تُو میں میں”۔۔۔۔۔ سلمیٰ اعوان

ونٹر پیلس پیٹرز برگ کے نگرانوں سے ذرا سی ” تُو تُو میں میں”۔۔۔۔۔ سلمیٰ اعوان

خیال نہیں مجھے پُختہ یقین تھا کہ طے کردہ جگہ پر مہر النساء میری جان کا سیاپا کر رہی ہوگی پر جب میں اُ س کے قریب گئی وہ چیکنگ کے عملے میں سے ایک منحنی سی لڑکی کے پاس بیٹھی کاپی کھولے لینگویج کلاس لے رہی تھی۔ میرا فضیحتا کرنے کی بجائے اُس نے اپنا چہرہ اُوپر اٹھایا۔ سرشاری کی پھوار میں بھیگا چہرہ۔ ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا اور اُونچی آواز میں قدرے چلاّتے ہوئے بولی۔
”دیکھومیں نے رُوسی حُر وف تہجی سارے کے سارے نہ صرف سیکھ لئے ہیں بلکہ اُردو میں لکھ بھی لئے ہیں اور یہ کہ اب اُسے بل بورڈز اور نیون سائنز پڑھنے میں ذرا دُشواری نہیں ہوگی۔“
”چلو یہ تو بڑا معرکہ مارا ہے تم نے۔“ میں نے مَسکا لگایا۔
نلوونا سے میرا تعارف کرواتے ہوئے مہرالنساء نے بڑے تاسّف سے بتایا۔
”تنخواہوں کا تو رُوس میں بھی مسئلہ ہے۔ دیکھو نہ ذرا کتنی اچھی انگریزی بولتی ہے۔صُبح نو بجے سے شام چھ بجے تک ڈیوٹی اور اُجرت صرف چھ ہزار روبل۔
عام رُوسی لڑکیوں کے برعکس نلوونا حددرجہ دُبلی پتلی لڑکی تھی۔سینئر سکولنگ کے بعد اُس نے انگریزی کے بُہت سے کورس کر لئے اور گذشتہ سال سے وہ ہرمیٹیج کے اِس
مرکزی حصّے ونٹر پیلس میں مترجم کے طور پر کام کر رہی تھی اور اپنی ملازمت سے شاکی بھی تھی۔
”تمہارا نام بُہت خوبصورت اور بُہت خاص ہے۔ اِس کے پسِ منظر سے کچھ آگاہی ہے تمہیں؟“
چھوٹا سا خوبصورت سر نفی میں ہلا۔
میکسم گورکی کے ناول”ماں“کے مرکزی کردارکانام ”نلوونا“ ہے۔
وہ ہنس پڑی۔
”میں نے ابھی گور کی کو نہیں پڑھا۔“

کیفے ٹیریا اور باتھ روم دونوں کے بارے میں جو معلومات اُس سے ملیں انہوں نے میری میپ ریڈنگ کی صلاحیت کو ٹھیک ثابت کرتے ہوئے میری کمر تھپکی۔
”بلّے بلّے بھئی تیرا تو جواب نہیں۔“
میں فائیوسٹار باتھ رُوموں کے مزاجوں سے تو آشنا ہوں پر چھ اورسات سٹاروں سے قطعی واقف نہیں اور یہ بات سو فیصد یقین سے کہی جا سکتی تھی کہ وہ باتھ روم چلو سات چھوڑو چھ سے تو کسی طور کم نہیں تھے۔
کیفے ٹیریا پر بڑا رش تھا۔ لمبی سی راہداری تھی۔ ہم نے بھی ڈٹ کر عیاشی کا سو چا۔
رشین سلاد لیا۔ مچھلی کے کٹلس، کلباسا اور سویٹ ڈش کے طور پرچُوسنے والی آئس کریم لی۔
چھوٹے چھوٹے نوالوں کے ساتھ مزے لیتے اور تھکن کو اس میں حلُول کرتے ہوئے کھایا. چائے پی۔سچ تو یہ تھا اُس وقت جی لم لیٹ ہونے کو چاہ رہا تھا۔
پر نہیں جناب۔۔ بیگ سے دوسرا ٹکٹ نکالا۔دل نہیں چاہتا تھا
Treasure Gallery جانے کو پر کیا کرتے مجبوری تھی.تین سو کا ٹکٹ لئے بیٹھے تھے۔
لیکن ٹکٹ گیلری میں پہنچ کر ٹکٹ دکھانے کی دیر تھی کہ ظالم شکاری والا سلوک ہوا جو اُڑنے کیلئے پَر تولنے سے پہلے ہی پرندوں کے قینچی کے ایک زبردست وار سے اُن کے لیتھڑے اُڑادیتے ہیں۔


رعُونت بھرے لہجے میں جانے کیا کیا بولا جارہا تھا۔پھر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا گیا کہ اس حصے میں غیر ملکیوں کا داخلہ صرف دن کے ساڑھے گیارہ بجے ہوتا ہے۔
ساڑھے گیارہ کا سُن کر تو جیسے میں غُصّے کے کھولتے کڑاہے میں دھم سے گر پڑی تھی۔
”کسی مترجم کو بلاؤ۔“
میری آواز میں غصہ  تیزی اور تلخی سبھی کچھ تھا۔
اورمترجم تو وہی تھی۔۔ نلوونا! جو بھاگتی ہوئی آئی تھی۔میں نے دونوں ٹکٹ نکال کراُسکی آنکھوں کے سامنے لہرائے۔تیرہ سوروبل کا بتایا۔
”پیلس کے رہائشی حصّے میں داخلہ ساڑھے دس،بتاؤ مجھے۔ یہ ونٹر پیلس ایک گھنٹے میں دیکھا جا سکتا ہے۔چار گھنٹوں میں ہم نے اسکے چند کمروں کو ایک طرح ہاتھ لگا کرچھُوا ہی ہے۔آپ لوگوں کے بھیجے میں عقل نہیں؟بولیں، بتائیں ہمیں یہ دو ٹکٹ اکٹھے کیوں دیئے گئے؟“
نلوونا نے سنجیدہ صورت تین خواتین کو جواپنے اپنے کیبنوں میں اٹین شن کھڑی میری اونچی آواز اور غصیلا چہرہ دیکھتی تھیں، بتایا۔
اب ٹیلفون پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔کبھی ایک پر بات ہوتی. کبھی دوسرے پر.ایک بڑی باوقار سی عورت بھاگ کر سامنے والے حصے میں گئی.
تھوڑی دیر بعد اُسی طرح بھاگتی واپس آئی۔

”آپکا گائیڈ؟“ پُوچھا گیا۔
”گائیڈ کو ماریں گولی۔ ہمیں گائیڈ کی کیا ضرورت ہے؟“ میں نے نقشوں اور کتابچوں کا ڈھیر اُسکے سامنے لگا دیا۔
”ہم پڑھتے ہیں،گائیڈوں کی اُلٹی سیدھی باتیں نہیں سُنتے۔“
ان کی کمزوری مجھے سمجھ آ گئی تھی۔ اسی لئے تڑاخ تڑاخ بول رہی تھی۔
”یہ وقت رُوسیوں کیلئے مخصوص ہے“بے چاری عاجزی اور مسکینی سے بولی۔
”بھاڑ میں جائیں رُوسی. اسوقت پانچ بجنے والے ہیں اور چھ بجے میوزیم بند ہو جائے گا۔ایک گھنٹے میں رُوسی زاروں کے یہ سونے اور جواہرات کے ذخیرے کیسے دیکھے جا سکیں گے؟کوئی جن ہیں ہم لوگ۔“
یقیناً وہ دراز قامت دُبلے پتلے وجود پر مہربان سا چہرہ رُوسی مزاج کے برعکس گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔بہت سے صلاح مشورے ہوئے۔پھر رسیدیں مانگی گئیں۔
میں نے بیگ میں ہاتھ ڈالا۔ دنیا بھر کی خرافات سے اَٹے اِس پرس میں سے رسیدیں ڈھنڈونا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ خیر سے میں تو ہوں بھی اول نمبر کی بُھلکڑ۔ اب کِسی اندھے کی لاٹھی کی طرح ہاتھ اِس فضول ڈھیر میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
”کیا پتہ ہاتھوں ہی میں رکھ کر کچھ دیر بعد مروڑیاں سی بنا کر کہیں کِسی کونے کھڈے میں پھینک دی ہوں۔“ میں نے اپنے آپ سے کہا۔
مجھ سے ایسی تمام فضول اور بے تُکی چیزوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔
دوٹکڑے نکال کر دکھاتی ہوں۔ اُ ن کے چہروں پر نفی کے آثار پا کر سر کو پھر بیگ میں گھُسیڑا۔ اب جو ہاتھ آیا وہ بڑھایا۔خدا کا شُکر تھا۔وگرنہ ایک فی صد امید نہیں تھی۔ چہر ہ اُس وقت خوشی سے نہال ہو رہا تھا۔ چھ سو روبل کوئی چھوٹی رقم بھی نہ تھی۔
”چلو کل ہرمٹیج کے دوسرے حصوں کا بندوبست ہوگیا۔“میں چہچہائی تھی۔

روبل گن کر مہرالنساء کے حوالے کئے۔دفعتاً مجھے یاد آیا کہ چار سو روبل خرچ کر کے میں نے جو کتاب خریدی تھی وہ تو جورڈن سیٹئرز سے ملحقہ بُک شاپ پر ہی ہے۔ونٹر پیلس کی بھُول بھُلّیوں میں سے کچھ زیادہ خجل ہوئے بغیر نکل آنا اتنا آسان نہ تھا۔ میری آدھی رات تو مطالعہ میں گذری تھی۔ونٹر پیلس والوں نے جوگائیڈ بک دی تھی وہ خاصی مدد گار ثابت ہوئی۔اُس پر طُرّہ ہماری حد سے زیادہ مستقل مزاجی کہ ہر کمرے کے برآمدے میں بیٹھی ہوئی نگران خاتون سے پُوچھنا اور سمجھنا ضرور ہے۔
”اب کیا ہو۔“ میرے غُل غپاڑے نے یقیناً  مجھے خاصا ہائی لائٹ کر دیا تھا۔مانیں گی بھلا کبھی۔میں نے تذبذب سے سوچا۔
”چلو تو کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے؟“
نلوونا نکولائی بڑے ہال کے دروازے کے ساتھ بیٹھی تھی۔صورت حال سے اُسے آگاہ کیا۔ اُس نے اندر والیوں کو بتایا اور خلاف توقع گرین سگنل کا اشارہ ہوگیا۔
مہر النساء کو وہیں کو ریڈور میں صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔اور خود میں خوشی سے ناچتی گاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
”تو اب اگر میں دوبارہ یہاں داخل ہوگئی ہوں تو پھر میلاچی رُوم دیکھنے ہیں۔“
میں نے خود سے کہا۔
صُبح تو چل سو چل کے چکر میں پھنسی رہی۔ ایک کے سحر سے نکلتی تو دوسرے میں پھنس جاتی۔
کتاب کا شاپر پکڑا،نقشے پر نگاہ ڈالی،میلاچی رُومز کے بارے میں شاپ کی شوخ و شنگ انگریزی بولنے والی لڑکیوں سے مزید سمجھا۔
میلا چی پیلس کا سب سے خوبصورت اور قیمتی حصہ ہے۔ ملکہ الیگزینڈرہ فیدورونہ Alexandra Fidorvna نکولس اول کی بیوی کے اپارٹمنٹ میں ڈرائنگ روم کے طور پر 1830ء میں اسے شامل کیا گیا تھا۔

میرے قدموں میں غیر معمولی تیزی تھی۔ماسکو کے تجربات میرے سامنے تھے.وقت سے پہلے ہی اِنکی آنکھوں چہرے اور ہاتھوں کے جھُلار میں خفگی اور ڈانٹ ڈپٹ کی مار دھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔
منظر کو ئی ایک تھا.یہاں تو انکے ڈھیر لگے پڑے تھے۔ نیوا کے پانیوں، اُن میں اٹھکیلیاں کرتی کشتیوں اور کنارے کی بلند وبالا عمارتوں کے حُسن کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر اندر آکر آنکھوں میں گھُسے جاتے تھے۔اور اِدھر اُدھر سر کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور وقت کی کمی سانسوں کوپھُلائے دیتی تھی۔
میلاچی Malachite جیسے قیمتی پتھر کاکِس بے دردی سے استعمال ہو ا ہے۔
گہرے تاسّف کی جھلک تھی میرے لہجے میں۔لیکن فوراً ہی میں نے خود کو لعن طعن کی۔
”میرے جیسی کم مایہ عورت کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ بے دردی سے استعمال کا کہے۔
بھئی وہ تو شہنشاہ وقت تھے،اَن داتا تھے،لوگوں کی حیات وممات کے وارث ومالک تھے۔انہیں روکنے ٹوکنے والاکون،رعایا کی کھلڑی کے جُوتے بنواکر پہنیں،انہیں کولہو میں پسوائیں،یا انہیں نوازشات سے مالا مال کریں۔“
یہ قیمتی پتھریورالز Urals کی کانوں سے لایا گیا۔ بڑے ہنر مند لوگ تھے جنہوں نے اپنے دماغ اور توانائیاں صرف کیں اور اس کی کٹائی رگڑائی اور چسپائی سے محل کے کمروں کو جگمگا دیا۔
فن کی باریکیاں تہہ در تہہ نظر آتی تھیں۔ ایک کو سراہتے ہوئے آنکھ ابھی فارغ نہیں ہوتی تھی کہ اس میں سانس لیتے دوسرے عجوبے توجہ کھینچ لیتے تھے۔
جو یہاں رہتی تھی اور جس کے لئے یہ سب بنایا گیا تھا وہ بھی بڑی توپ شے تھی۔ وہ اکیلی کیا یہاں رہنے والیاں سبھی بڑی طرّم خانیاں تھیں۔ ذات ملوک اتنی قصور وار نہیں ہوتی جتنی رہت ملوک۔ اس فسوں خیز سے ماحول میں سانس لینے والوں کا اُس حقیر بے توقیر سی مخلوق سے بھلا کیا ناطہ تھا جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین کے سینے پر رینگتی رہتی ہے اور جس کا نام عوام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریخ کے صفحات پھڑپھڑائے تھے اور وہ ورقہ میرے سامنے آگیا تھا جسے پڑھتے ہوئے میں دم بخود ہوگئی تھی۔
یہ 1906ء کابڑا گرم دن تھا۔ مئی کا پہلا ہفتہ او ر پہلی ریاستی ڈوما (ملک کے مختلف حصّوں کی نمائندہ لوگوں پر مُشتمل پارلیمانی کونسل) کا پہلا اجلاس سٹیٹ ہال میں منعقد ہو رہاتھا۔ سٹیٹ ہال کی چھت کے نیچے ایک عجیب سا منظر تھا۔ سامنے مرصعّ صوفوں پر مادر زارینہ ماریا فیدورونا اس کی بہو الیگزینڈرہ اور دیگر معزز خواتین، ہا ل کے دونوں اطراف پر کھڑے ڈیوک اور کورٹ ایلیٹ اپنے سینوں پر شاہی امتیازی تمغے سجائے شاندار ملبوسات پہنے کھڑی تھی۔ کُرسیوں پر بیٹھے رُوس کے مختلف حصّوں سے آنے والے عوامی لوگ اپنے عجیب وغریب حُلیوں اور لباسوں سے ایک ایسا منظر تخلیق کر رہے تھے جو رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اس تناظر میں بے محل سا نظر آتا تھا۔ لمبے لمبے کالے کوٹ پہنے کسا ن تھے۔ فراک نما کوٹ پہننے والے بوڑھے تھے۔ شانوں پر لہراتے لمبے بالوں والے انٹیلکچو ئل تھے جنہوں نے مونو کل لگا رکھے تھے۔پولینڈ کا پادری گہرے پرپل کپڑوں میں تھا۔ مڈل کلاسیے جن کی ڈھیلی ڈھالی قمیضیں اور کچھ ایسے جو بغیر کالروں کے، چند لوگ Poole کے لباس میں تھے۔ دو صدی قبل کے ڈیزائنوں والے ڈریس پہنے لوگ بھی نظر آتے تھے۔ پولینڈ کے ایک ممبرنے ہلکے نیلے رنگ کا ڈانسرز کا ڈ ریس زیب تن کر رکھا تھا اور ہیس (جرمنی کا ایک شہر)کے بوٹ پہنے ہوئے تھے۔
یہ کس قدر خوش آئند بات تھی کہ رُوسی سوسائٹی کے تما م طبقے اپنی اپنی کلاس اور علاقے کی نمائندگی کے لئے موجود تھے۔پر نہیں حکمران زار کی ماں زارینہ ماریا کے لئے اُن گھٹیا لوگوں کو برداشت کرنا مُشکل ہو رہا تھا۔سونے اور میلاچی سے آراستہ جب وہ اپنے اِن کمروں میں آئی اُس کی طبعیت متلا رہی تھی۔اُس کے سر میں درد تھا۔
تین دن اس کی طبعیت خراب رہی۔ چوتھے دن اُس نے اپنے وزیر مالیات سے کہا۔
”یہ کیسی ڈوما ہے۔اتنے گھٹیا لوگ۔ میرے لئے انہیں برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔“
میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے پل بھر کے لئے آنکھیں بند کیں۔ پھر اُنہیں کھولا اور اپنے آپ سے کہا۔
”زارینہ ماریا فیدورونا،تمہارا اور تمہاری سوچوں کا بھی کچھ قصُور نہیں۔ اس تناظر میں وہ بھی ٹھیک پر جب تمہارے اِس ونٹر پیلس میں انہی خوبصورت کمروں میں جن پر چڑھاسونا اور آرائش آنکھوں کو چُندھیاتی ہے۔خالتوران نے اسے بم دھماکے سے اُڑانے کو ایک مُقدّس فرض سمجھا تھا۔نادرن یُونین آف رشین کا ایک معمولی کا رکن جو عام رُوسی کی حالت زار پر کُڑھا کرتا تھا۔ جو جیالا تھا۔دلیر تھا۔ ایک اعلیٰ بڑھئی کی حیثیت سے ونٹر پیلس میں مرمت کے کام پر معمُور ہوا۔اِس درجہ معاشرتی تفاوّت کو ہضم ہی نہ کر سکا۔ خود پھانسی پر چڑھ گیا پر تم جیسے شیشے کے گھروں میں رہنے والوں کو عدم تحفّظ کے احساس میں متبلا کر گیا۔اور ہاں زارینہ ماریافیدورونا اُنہی گھٹیا لوگوں جنہیں دیکھ کر تمہاری طبیعت متلائی تھی نے صرف بارہ سال بعد تمہاری ساری آل اولاد کو تہ تیغ کر دیا تھا۔اِس ظلم اِس تشدد پر مجھے بھی افسوس ہے پر معاشروں کی اِس درجہ اُونچ نیچ ہمیشہ ایسے ہی المیوں کو جنم دیتی ہے اور یہی تاریخ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply