• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لگتی ہے نا عجیب بات،بس یہی پاکستان ہے۔۔اسد مفتی

لگتی ہے نا عجیب بات،بس یہی پاکستان ہے۔۔اسد مفتی

کسی بھی اعلیٰ مقصد کو پانے کے لیے “احساس مقصد “کے ساتھ “اخلاص مقصد” عنصر ہے۔احساس مقصد اور اخلاص مقصد کو بنیاد بنا کر یقین محکم کے ساتھ عمل پیہم اور جدوجہد سے منزلیں سر ہوتی ہیں۔انسانی تاریخ میں  گزشتہ بیسویں صدی میں “انقلاب فرانس”اور”بالشویک انقلاب”انہی عناصر کا نتیجہ ہیں۔
ایرانی انقلاب بھی اسی زمرے میں آتا ہے،عظیم ہیں وہ نفوس اور راہنما جن کی پُرکشش شخصیات نے “انقلاب” تاریخ ِ انسانی میں پیدا کیے۔انقلاب اور بغاوت کے ذریعے حکومت اُلٹنے میں بنیادی فرق ہے۔اور یہ فرق ہکسلے نے فلاسفی آف ریولیوشن کے دیباچہ میں یوں ظاہر کیا ہے۔۔۔
انقلاب طاقت سے حکومت کا تختہ اُلٹنے کا عمل نہیں ہے،بلکہ انقلاب وہ ہے جس کے عمل سے انسانی سماج میں سوچنے کا انداز اور عمل کا طریقہ یکسر اور یکلخت بدل جاتا ہے۔اجتماعی طور پر مائنڈ سیٹ بدل جاتا ہے۔۔
بیسویں صدی میں جن شخصیات نے اپنے معاشروں میں حقیقی انقلاب برپا کیا،ان میں لینن(کارل مارکس اینگلز)اور ایرانی انقلاب کے راہنماامام خمینی ہیں،ان میں ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ احساس مقصد اوراخلاص مقصد بھی تھا،اور یقینِ محکم کے ساتھ عمل پیہم سے منزل پانے کی مسلسل جدوجہد نے ان مے معاشروں میں انقلاب برپا کیا ہے،آج جہاں ترکی میں جناب گولن اپنی اسلامی تحریک کو عوام میں متعارف کروا رہے ہیں،وہاں پاکستان میں جماعت اسلامی خود کو مسند اقتدار پر دیکھنا چاہتی ہے۔مولانا ابو اعلیٰ مودودی کا کئی برس سے پہلے انتقال ہوچکا ہے،لیکن ان کی تعلیمات پاکستانی معاشرہ میں کوئی ہلچل نہ پیدا کرسکیں۔مونا جو جم غفیر میں نمایاں تر ہیں،اس قد آور شخصیت نے اپنی تحریکوں،تقریروں اور تحریروں سے پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی،حکومت الیہ کے اپنے مخصوص تصور ی انہوں نے رسائل و مسائل اور سیاسی کشمکش اور مسلمان ہند کے علاوہ اپنی دوسری تصانیف سے مسلمانوں میں اپنے نظریات کے بیج بوئے۔۔لیکن مولانا محترم ان شخصیات میں سے ہیں جن کو اپنی زندگی میں بازیابی ء مقصد حاصل نہیں ہوئی،اور ان کے اس دارِ فانی سے رحلت فرمانے کے بعدان کے پیروکار پاکستان میں اُن کے مقصد سے اور ان کے تصورات سے ہٹ گئے۔
حال ہی میں ان کے صاحبزادے مولانا وحید فاروق مودودی کا ٹائمز آف انڈیا میں ای انٹر ویو شائع ہوا،اس چونکا دینے والے انٹر ویو میں مولانا فاروق حیدر نے اپنے والد محترم یعنی مولانا مودودی مرحوم کی شخصیت کے گرد تقدس او اعتقاد کے اس دائرہ کو مسمار کردیا ہے جو عام مسلمانوں میں مولانا مرحوم کے لیے ہے۔انٹرویو کے ان حصوں کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم کی شخصیت میں احساس مقصد اور اخلاص مقصد نام کی کوئی شئے نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں (ایرانی انقلاب کے مماثل)کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکے،بلکہ کبھی بھی ان کی جماعت اسلامی کو پاکستانی لچس لچرز میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل نہیں ہوسکی۔اپنے انٹر ویو میں مولانا فاروق حیدر مودودی نے جہاں اور بہت سی ناگوار باتیں کہیں،وہاں انہوں نے تحریک مودودیت کے اسلام کو ڈرک یعنی نشہ آور دوا کے نام سے پکارا۔
موصوف کے الفاظ حسبِ ذیل ہیں۔۔
میرے والد (مولانا مودودی)اس نشیلی دوا کے خطرات سے پوری طرح واقف تھے،جس کو وہ آزادانہ بلا قیمت تقسیم کررہے تھے،حقیقت یہ ہے کہ ان کا رویہ ہیروئن کے تاجر کا تھا،انہوں نے کبھی بھی اپنی اہلیہ یا اپنے نوعدد بچوں کو جماعت اسلامی کے قریب پھٹکنے نہیں دیا،انہوں نے کبھی بھی ہمیں (یعنی اپنی اولاد کو)اپنی تسانیف پڑھنے ی اجازت نہیں دی،(مولانا مرحوم کی 80تصانیف ہیں،جو دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں فروخت ہورہی ہیں)ہم میں سے اگر کوئی جماعت اسلامی کی نشستوں یا جلسہ گاہ کی طرف چلا بھی جاتا تو وہ ہمیں بُرا بھلا کہتے تھے،اور منع کرتے تھے،ڈانٹتے تھے۔۔اب ہم ان کے حواریوں کو جماعت اسلامی چلاتے ہوئے بہت قریب سے دیکھتے ہیں۔ان کا کردار تو ایسا ہے کہ ہمیں مرتد قرار دیں گے،ہم اُن سے (مولانا مودودی مرحوم سے)اکثر پوچھتے تھے کہ وہ ایسے دھوکہ باز اور جنوی لوگوں کی مدد سے کیسے اسلامی انقلاب برپا کرسکتے ہیں،لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ان لوگوں کو جو ان کے ربط میں آئے تھے،استعمال کرتے تھے،لیکن اپنی عمر کے آخری حصے میں انہو ں نے اپنی اس دوا کا ذائقہ خودچکھا۔۔جب مولانا مودودی مرحوم قریب المرگ تھے تو ان ے حواریوں نے ان کو کوڑا کرکٹ ہی سمجھا “۔
مولانا مودودی مرحوم کے صاحبزادے کے ان خیالات سے کم از کم اتنا ضرورظاہر ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ملک عزیز میں اسلامی انقلاب آخر کیوں برپا نہ کرسکے،اور تو اور وہ ان کی جماعت اسلامی کے لوگ پاکستان میں اسلامی اخوت و یگانگت کی روح بھی عوام میں پیدا نہیں کرسکے۔
آخر اس کی کچھ تو وجہ ہوگی،کچھ تو ماجرا ہوگا!
آپ بھی سوچیے،میں بھی سوچتا ہوں!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply