جھوٹی تصویریں ۔۔ اظہر سید

نومنتخب وزیراعظم کی جی ایچ کیو آمد پر مسکراتی   تصویروں کے ساتھ کابینہ اراکین کے متفکر چہروں والی ایک تصویر بھی آئی ایس پی آر کے سوچ بچار کرنے والے منتظمین نے جاری کی ہے ۔نومنتخب حکومت کے اراکین کو دی جانے والی بریفنگ کیسی تھی ۔اس بریفنگ میں کونسے حقائق بیان کئے گئے اس کے متعلق تو بریفنگ لینے والوں میں سے کسی نے لب نہیں کھولے۔تاہم 55 روپیہ فی کلو میٹر ہیلی کاپٹر والے وزیراطلاعات نے اس بریفنگ پر جامع تبصرہ کیا ہے جو بہت مختصر ہے لیکن انتہا کا بلیغ ہے “دل کھول کر رکھ دیا “
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نا اہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا تو انکی جماعت میں شامل بعض درد مند لوگوں نے ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور جانے کا مشورہ دیا ۔کچھ کم متفکرین کا خیال تھا میاں صاحب کو موٹر وے کے ذریعے لاہور جانا چاہے۔چکری کے ایک چکر باز نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس میں پوری قوم کو متفکر کر دیا۔ان کا موقف تھا ملک پر خطرات کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں ۔ان کا مزید فرمان تھا صرف تین لوگ ان سیاہ بادلوں سے واقف ہیں جن میں ایک تو موصوف خود تھے ایک یقینی طور پر آرمی چیف تھے اور تیسرے آئی ایس آئی چیف تھے یا وزیراعظم اس کے متعلق انہوں نے قوم کو آگاہ نہیں کیا۔اس بریفنگ کا مرکزی نکتہ یہ تھا جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ ملک کے مفاد میں نہیں چپ چاپ عدالتی فیصلہ تسلیم کر لیا جائے اور کوئی احتجاج نہ کیا جائے۔
خواجہ آصف عابد شیر علی خواجہ سعد رفیق شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کا موقف تھا جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے میں ہی بھلا ہے اور اسی میں سیاسی بقا ہے ۔سابق وزیراعظم نے جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کا فیصلہ کیا اور سال گزر گیا جو سیاہ بادل ملک پر چھائے تھے وہ بارش برسائے بغیر گزر گئے یہ اور بات ہے سابق وزیراعظم کو ڈٹ جانے کا مشورہ دینے والے تمام عقاب انتخابات میں اپنی سیٹوں پر ہار گئے صرف احسن اقبال بہت زیادہ ووٹوں کے فرق کی وجہ سے بال بال بچے۔
ہماری ناقص رائے  میں قدرت کے بعض فیصلوں کی وجہ سے پاکستان جغرافیائی طور پر جس قدر محفوظ آج ہے تاریخ میں کبھی نہیں رہا ۔پاکستان پر یہ مہربانی کچھ عالمی حالات کی وجہ سے ہے کچھ بروقت فیصلوں کی وجہ سے پاکستان آج جغرافیائی چیلنجز سے باہر نکل آیا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف افغانستان میں امریکہ بھارت اتحاد توڑنے اور بھارت کو غیر جانبدار کرنے کیلئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو استعمال کرنا چاہتے تھے ۔سابق وزیراعظم کے خلاف پالتو اینکرز کے ذریعے” مودی کا یار” کی غلیظ مہم شروع کرا دی گئی ۔ اس مہم کی انتہا عالمی عدالت میں کلبھوشن یادو کیس کی سماعت تھی ۔ پاکستانی جانبازوں نے اس سماعت میں پاکستانی وکیل کی ناکامی کو بھی مودی کے یار سے منسلک کر دیا ۔نواز شریف بیچارے نے تو یہ وکیل بھی خود مقرر نہیں کیا تھا اور جنہوں نے وکیل مقرر کرایا تھا انہوں نے کوئی ٹویٹ بھی نہیں کیا منتخب وزیراعظم کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا بند کیا جائے۔
ملک کا مفاد سب سے پہلے ہے ۔بھارت کے ساتھ پتہ نہیں کونسے ٹریک کے تحت غیر رسمی بات چیت مسلسل جاری رہی” ٹریک ون، ٹریک ٹو اور ٹریک تھری غیر رسمی بات چیت ہمیشہ حکومتوں کی اجازت سے ہوتی رہی ہے “کبھی جنرل احسان لندن سکول آف اکنامکس کے اجلاس کے دوران اپنے سابقہ بھارتی منصب کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے رہے۔کبھی جنرل درانی اسی سابقہ بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر مشترکہ کتاب لکھتے رہے۔بھارت کو افغانستان میں امریکیوں سے دور کرنا مقصد تھا اور اس کی ضرورت بھی تھی یہ مقصد حاصل ہو گیا ہے اب ماسکو میں دونوں دشمن ملکوں کے افسران اور جوانوں نے مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران گانوں پر مل جل کر رقص بھی کیا ہے۔
لائین آف کنٹرول پر اب وہ گرم بازاری نہیں اور افغانستان میں بھارتی امریکی مشترکہ ایڈونچر کے خدشات بھی بہت معدوم ہو چکے ہیں ۔ایران بہت پرانہ دوست ملک اور مسلمان ملک ہونے کے باوجود افغانستان میں  پاکستانی مفادات کیلئے خطرات کا باعث بنتا تھا ۔ افغانستان میں بھارتی ایرانی اتحاد ہمیشہ پاکستان کیلئے مشکلات کا باعث بنا رہا گوادر بندر گاہ بھی ایرانی پسند نہیں کرتے تھے ۔
افغانستان پر سوویت یونین کے حملہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے افغانستان میں ایران پاکستان ایک پیج پر آچکے ہیں ۔اس  نئی دوستی میں عراق اور شام سے افغانستان میں آنے والے داعشیوں کا بھی کردار ہے اور امریکیوں کی طرف سے ایران ایٹمی معاہدہ کی تنسیخ بھی، اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں کیونکہ ہم نے تو عین ایرانی صدر کے دورہ کے دوران ایران سے اپریٹ ہونے والے بھارتی جاسوس کی گرفتاری کا اعلان کر دیا تھا اور سعودی اتحاد کی سربراہی بھی قبول کر لی تھی جو ایران کے ہی خلاف ہے۔
ایران اب افغانستان میں پاکستان کا حلیف ہے۔روس اور چین بھی افغانستان میں داعش کے خطرات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ مل چکے ہیں ۔خطہ کے چار اہم ترین اور طاقتور ملک چین روس ایران اور پاکستان ایک اتحاد بنا چکے ہیں ان میں تین ایٹمی طاقتیں ہیں جبکہ خطہ کا دوسرا حریف اور امریکیوں کا افغانستان میں حلیف بھارت غیر جانبدار ہو چکا ہے ۔
امریکیوں کی پاکستان سے افغانستان میں شکست کا بدلہ لینے کی جہاں تک  بات ہے تو اسی تھیوری میں کوئی جان نہیں رہی، امریکیوں کی اب بس ہو چکی ہے وہ تو بلیک واٹر ایسے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو افغان معاملات سونپنے کے چکر میں ہیں ۔
پاکستان کی اندرونی صورتحال کا جہاں   تک تعلق ہے تو شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان مالاکنڈ ڈویژن اور بلوچستان میں حالات ماضی کی نسبت 90 فیصد بہتر ہو چکے ہیں۔اب جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے طالبان کی بجائے پر امن احتجاج کرنے والا منظور پشین ہی واحد چیلنج بچا ہے ۔اندرونی اور بیرونی خطرات بہت کم ہو چکے ہیں ۔
جی ایچ کیو میں بریفنگ کے دوران کابینہ اراکین کے اترے ہوئے متفکر چہرے دیکھ کر چکری کے چکر باز کے ملک پر منڈلانے والے سیاہ بادلوں کا خیال آتا ہے اور کچھ نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply