جزیرے کا سبق ۔ ایسٹر آئی لینڈ (7) آخری قسط۔۔۔وہاراامباکر

ایسٹر آئی لینڈ کی آٹھ صدیوں کی کہانی انسانوں کی کہانی ہے۔ ہمت اور مہم جوئی۔ تعاون سے کامیابی۔ حیران کن جدتیں۔ کامیابی اور مقابلہ بازی۔ سیاسی نظام۔ منظم معاشرت۔ انقلاب۔ کھیلیں اور تفریح۔ خوشی اور غم۔ خوشحالی اور فاقہ زدگی۔ جنگ و جدل۔ وہی کچھ جو انسان کرتے رہے ہیں۔ ایسٹر آئی لینڈ دنیا کی ان بہت ہی کم جگہوں میں سے ہے جہاں پر لکھائی شروع ہوئی۔ یہ ان کا منفرد رانگو رانگو رسم الخط ہے۔ یہاں پر رہنے والوں کو شاید علم بھی نہیں ہو گا کہ دنیا میں ان کے علاوہ بھی کوئی بستا ہے۔ سینکڑوں ٹن وزنی یادگاریں بنانا ان کے دنیا پر چھوڑے گئے نشان ہیں۔ یہاں تک کہ ماحولیاتی تباہی نے انہیں آن لیا۔ معاشرہ گرا دیا۔

کیتھرین اورلیاک سوال کرتی ہیں کہ “جب آپ کو پتا ہے کہ آپ کا انحصار جنگل پر ہے تو اس کو کیسے تباہ کر سکتے ہیں؟” یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ کہتے ہیں، “میں کئی بار سوچتا ہوں کہ وہ شخص جو جزیرے سے پام کا آخری درخت کاٹ رہا تھا، وہ کیا سوچ رہا تھا”۔ ویسا ہی جیسے آج کہا جاتا ہے؟ “ماحول نہیں، معیشت!”۔ “ٹیکنالوجی مسائل حل کر دے گی۔ لکڑی کا کوئی متبادل بھی مل جائے گا”۔ “ابھی ہمارے پاس ثبوت نہیں کہ جزیرے میں کہیں اور درخت نہیں۔ تھوڑی سے تحقیق سے شاید ہمیں مل جائیں۔ خواہ مخواہ ڈرایا نہ جائے”۔ “وسائل محدود نہیں، صرف تقسیم کا مسئلہ ہے”۔”کسی نہ کسی طرح اور آ ہی جائیں گے”۔ “سب قبیلے ایسا کر رہے ہیں، میرا کیوں پیچھے رہے؟”۔

ہر معاشرے کو ایسے سوال درپیش رہے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ ہم مشکل سوالات کا مقابلہ ان سے نظر چرا کر کرتے رہے ہیں۔ وہ جو ایسٹر آئی لینڈ پر بسنے والے کرتے رہے، وہ صرف اس وقت اور اس جگہ سے مخصوص نہیں۔ یہ انسانی طرزِ عمل ہے۔

جب ماحول کی حفاظت نہ کی جائے، وسائل کے استعمال میں دانشمندی نہ برتی جائے تو معاشرے الٹ جاتے ہیں۔ انقلاب اور احتجاج کام نہیں کرتے۔

ایسٹر آئی لینڈ اور آج کی دنیا میں کئی خوفناک متوازی باتیں ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت، جیٹ طیارے، انٹرنیٹ وغیرہ سے دنیا جڑ چکی ہے۔ زمین کے تمام ممالک وسائل کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی تجارت کے ذریعے ان کو شئیر کیا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایسٹر آئی لینڈ کے درجن قبائل آپس میں کرتے تھے۔ جس طرح ایسٹر آئی لینڈ بحر الکاہل کے بیچ اکیلا جزیرہ تھا، ویسے ہی زمین خلا میں تنہا ہے۔ جب یہاں کے لوگ مسائل کا شکار ہوئے تو ان کے پاس بھاگنے کی جگہ نہیں تھی، کوئی مدد کو نہیں آیا اور نہ آ سکتا تھا۔ اس جزیرے کی آٹھ صدیوں کو انسانیت کے لئے ایک استعارے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے بُرا منظرنامہ کیا ہو سکتا ہے۔ مستقبل کس طرف جانا ممکن ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ استعارہ مکمل نہیں۔ ہماری صورتحال ایسٹر آئی لینڈ پر بسنے والے سترہویں صدی کے لوگوں سے بڑی مختلف ہے۔ ان میں سے کچھ فرق خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔ ایسٹر آئی لینڈ میں رہنے والوں چند ہزار لوگوں نے ماحول کی تباہی اپنے زورِ بازو اور پتھر کے اوزاروں سے کی۔ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ اس سے کہیں زیادہ مشینی اوزار رکھتے ہیں۔ لیکن بہت سے فرق ہمارے حق میں ہیں۔ ایسٹر آئی لینڈ کے پاس ماضی کے یا دنیا کے مختلف علاقوں پر تحقیق کرنے والے اور ان کی کہانیاں بتانے والے نہیں تھے۔ سب سے بڑا فرق آگاہی کا ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے دو چیزیں ہیں جو کئے بغیر گزارا نہیں۔ پہلا یہ کہ علم حاصل کرنا اور دوسرا اس علم کو عمل میں تبدیل کرنا۔

ایسٹر آئی لینڈ کی کہانی صرف دُور کی دنیا کی پرانی کہانی نہیں، یہ کوئی مفروضاتی قصہ نہیں، یہ آج کی دنیا کی بھی کہانی ہے۔ انسان اور زمین کے رشتے کی، تہذیبوں کے بننے کی اور گر جانے کی، انسانی ہمت، طاقت اور کمزوری کی کہانی ہے۔

ایسٹر آئی لینڈ کی تاریخ، انسان کی داستان ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے

وہاراامباکر

Advertisements
julia rana solicitors

ختم شُد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply