تقریر سے کیا ہوتا ہے؟ سے یاد آیا کہ جبل الطارق پر طارق بن زیادہ نے جب کھڑے ہوکر حکم دیا کہ “کشتیاں جلادو” تو فوج نے اس کا حکم بلا چوں چراں مان لیا تھا لیکن اس نے پھر بھی وہیں کھڑے ہوکر ایک تقریر, ایک خطاب اپنی فوج سے کیا ،سپین کی فتح کا دروازہ کھولنے سے پہلے جس نے فوج میں موجود ہر چھوٹے بڑے رتبے والے مجاہد کو آہنی فوج کا حصہ بنا دیا اور پھر تاریخ کے ورق بھرے پڑے ہیں کہ شہنشاہ راڈرک اور اسکی فوج کا صفایا کیسے ہوا۔۔
اور اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ طارق کی وہ تقریر من وعن منظوم انداز میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی تصنیف میں شامل کی۔
اسلام کی 14سو سال کی تاریخ میں تلوار کا کردار اور اہمیت ثانوی رہی ہے, اول تحریرو تقریر کی اہمیت رہی ہے۔
بلکہ بہت بڑی بات کرنے جارہا ہوں, پر کروں گا ضرور کہ دراصل تحریر و تقریر اللہ اور اس کے تمام انبیاء کی معروف اور مقبول سنت ہے۔
اللہ نے بگڑی ہوئی اور بے راہ رو اقوام کو تحریر اور انبیاء کے ذریعے تقریر سے ہمیشہ آگاہ کیا کہ تم غلط راستے پر ہو لہذا پلٹ آؤ تو اللہ کی رحمت پالوگے ورنہ اللہ کا غضب تم پر آکررہے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ تمام مسلمان جرنیل جنگ کے لیے تلوار بعد میں نکالتے, پہلے دشمن کے گھر جاکر قاصد روانہ کرتے یا بذریعہ تقریر آگاہ کرتے اور شرائط رکھتے کہ سدھر جاؤ, پلٹ آؤ اور ہمارے ساتھ مل جاؤ ورنہ جنگ ہوگی۔
خطبہ حجۃ الوداع, خطبہ الہ آباد بہت بڑی مثالیں ہیں کہ تقریر سے بہت کچھ ہوتا ہے اور جو ہوتا ہے وہ صدیوں تک گونجتا رہتا ہے۔
بہرحال تحریر و تقریر کا استہزاء مت اڑائیں کہ آپ اس طرح اپنی ساری تاریخ کی دھجیاں خود بکھیر رہے ہیں۔
اللہ نے مکالمے, تحریر و تقریر کو پسند فرمایا ہے کہ یہ امن اور رحمت کے ترجمان عوامل ہیں پر جب ان کا اثر نہ رہے ایسوں پر تو حکم یہ ہے کہ
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (18)
بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ نہیں لوٹیں گے۔
اور اس کے بعد جو زبان عام اور بااختیار ہے وہ عرف عام میں کہلاتی ہے “ڈنڈے کی زبان”۔
تحریر اور تقریر کا حق موجودہ حکومت بالخصوص عمران خان نے بھرپور ادا کردیا کہ جیسے حق تھا, مختصر یہ کہ حجت اتمام کردی۔
اب قوم عمران کی طرف دیکھ رہی ہے اور بیشک کرنا بھی یہی بنتا ہے۔
اختلافات کو حق پر غالب آنے دینا جہالت ہے جس سے ہمیں بچنا چاہیے کہ جہالت بنفس نفیس خود ایک بہت بڑا فتنہ ہے اور فتنوں کے لیےحکم ہے کہ ان سے بچو اور دُور دُور بھاگو۔
تحریر و تقریر سے سب کچھ ہوتا ہے اور بہت کچھ ہوتا ہے کہ قرآن مجسم مثال ہے تحریر و تقریر کا، جس کا اثر یہ ہےکہ آدھی دنیا اس کو پڑھ کر برکت اور ہدایت پاتی ہے اور آدھی دنیا بغض اور تکلیف میں مبتلا ہے مطلب صاف ہےکہ قرآن ایک تحریر و تقریر ہوکر ساری دنیا پر اثر انداز ہے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔
ہم ہیں سفیرِ کشمیر, ہاں ہم کھڑے ہیں۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد
قرآن کریم کسی ایٹم بم کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل اور جامع تحریر و تقریر ہے جو صرف اثر ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کا تسلسل جاری ہے۔
اللہ اور انبیاء علیہ السلام کی سنت پر چل کر ذلالت مقدر نہیں ہوسکتی البتہ سنت کا پہلا حصہ تحریر و تقریر ہے اور دوسرا حصہ جہاد بالسیف اور غضب بر دشمنان, یہ بات فراموش نہیں کرنی یہ بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھنی ہوگی۔
اللہ ہمیں ہدایت سے سرفراز کرے اور نیک عمل کی توفیق دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں