قانون سب کے لئیے۔ عبدالرؤف خٹک

اب کیا کہئیے کہ اک شخص بیمار ہے اور وہ ضیاءالدین ہسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں داخل ہے ،اور ان کے کمرے کے قریب سے کسی بھی قسم کی شخصیت کوگزرنے کی اجازت نہیں ۔اس ہسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں موجود بیمار شخص جس کا نام شرجیل میمن ہے اور سابقہ سندھ کے وزیر اطلاعات ونشریات اور موجودہ کرپشن میں ملوث ملزم کی حیثیت سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے یہ شخص شرجیل میمن بیماری کا بہانہ بنا کر اس وقت ضیاءالدین ہسپتال کے اک پرائیویٹ کمرے میں زیر علاج ہے ،اورسندھ حکومت کی طرف سے تمام سہولیات صاحب کو میسر ہیں ۔ ہسپتال کا یہ پرائیویٹ کمرہ ان صاحب کے لئیے سب جیل قرار دیا گیا ہے ۔
جب اچانک چیف جسٹس نے سندھ کا دورہ کرکے جیل سپرنٹینڈنٹ سے شرجیل میمن کے حوالے سے جب پوچھا تو کہا گیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لہذا انھیں ضیاء الدین ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا ہے ۔ چیف جسٹس نے اچانک سے ان کی عیادت کا کہہ کر ہسپتال کا دورہ کیا ،اور شرجیل میمن کے کمرے کی طرف گئے تو شرجیل میمن سے ان کی ملاقات ہوئی ،چیف جسٹس نے بتایا کہ میں آپ کی عیادت کرنے آیا ہوں ۔ چانک سے جب کمرے کا معائنہ کیا گیا تو وہاں سے دو بوتلیں برآمد ہوئیں جس میں شراب بتائی جارہی ہے ۔
چیف جسٹس نے جب اس بابت شرجیل میمن سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو شرجیل میمن نے صاف انکار کردیا کہ یہ میری نہیں ۔ یہ بات شرجیل میمن ہی کہہ دیتے کہ یہ شراب نہیں ہے یہ تو خالص شہد اور زیتون کا تیل ہے جو برطانیہ سے منگوائی گئی ہے ۔
تھوڑی ہی دیر میں چیف جسٹس نے حکم جاری کیا کہ یہ صاحب بالکل ٹھیک ہیں اور انھیں فوری سے فوری جیل منتقل کیا جائے اور ساتھ میں شرجیل میمن سے یہ مکالمہ بھی ہوا کہ یہ ہے آپ کی سب جیل ؟یہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے ،؟۔ تھوڑی دیر بعد چیف جسٹس نے آرڈر جاری کئیے کہ ایک مہینے کی ریکارڈنگ چیک کی جائے اس کمرے میں کون کون آیا اور کیا کیا چیزیں اس کمرے میں باہر سے آئیں ؟
افسوس اس بات پر نہیں کہ شراب برآمد ہوئی ،شراب اس ملک میں کون نہیں پیتا؟ دکھ اس بات کا ہے کہ سندھ حکومت اس گھناونے جرم پر پردہ ڈال رہی ہے اور میڈیا کے سامنے شراب کو شہد اور زیتون کا تیل ثابت کیا جارہا ہے ۔ اک شخص بیماری کا بہانہ بنا کر نجی ہسپتال میں پرائیویٹ کمرہ لیکر اس میں عیاشی کا تمام سامان پیدا کیا ہوا ہے ، کسی بھی ادارے کو اتنی زحمت نہیں کہ دیکھا جائے شرجیل میمن یہاں کس حیثیت میں داخل ہیں ۔ ان کامیڈیکل چیک اپ کیا جائے کہ آیا واقعی وہ بیمار ہیں یا بہانہ بنا کر ہسپتال منتقل ہوئے ؟ یہ تمام تر زمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اک ملزم کو کس طرح اتنی سہولیات دے کر بیٹھے ہیں ؟ کیا کسی عام ملزم کو اس طرح آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دی جاتی ہے ؟
افسوس کا مقام ہے کہ جب زرداری صاحب سے پوچھا گیا کہ شرجیل میمن کے کمرے سے شراب برآمد ہوئی تو محترم بات گھما گئے اور کہتے ہیں کہ جس ملک میں چیف جسٹس جب چھاپے مارے تو کیا کہے؟ سوال یہ ہے آپ کو کیا برا لگا ؟چیف جسٹس کا چھاپہ مارنا یا ہسپتال کے کمرے سے شراب کا برآمد ہونا؟
اس سے پہلے بھی اک بار پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران کے پی کے کے اک وزیر راستے میں تلاشی کے دوران کچھ بوتلیں برآمد ہوئیں تھیں جنھیں شہد کی بوتلیں قرار دیا گیا تھا ، ہمارے ملک کا اکثر اشرافیہ شراب کو حلال سمجھ کر پیتے ہیں ،انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے ،عوام کی اکثریت اس بات کی جانکاری نہیں رکھتی کہ ہمارے وزیر کن کن کارناموں میں ملوث ہیں ؟
دیکھا جائے تو اس ملک میں قانون تو بہت ہیں لیکن وہ سب غریب عوام پر لاگو ہوتے ہیں باقی ہمارا اشرافیہ اور وزیر ان تمام قوانین سے مبراء ہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ قوانین ان پر بھی لاگو ہوتے ، جرم کوئی بھی ہو اس سے مبراء کوئی بھی نہیں جو بھی شخص چاھے وہ وزیر ہو یا کوئی کسی بھی ادارے کا آفیسر اگر وہ کسی غلط کام میں پکڑا جائے تو اس کے ساتھ کوئی رو رعایت نہ کی جائے بلکہ قانون کے۔مطابق اسے سزا دی جائے ،
اگر اس ملک میں یہ دہرا نظام ختم ہو جائے کہ اک کے لئیے الگ سزا اور دوسرے کے لئیے الگ تو امید کی جاسکتی ہے کہ عام آدمی کا اعتماد بحال ہوگا اس سسٹم پر ۔
قوم اب بھی مایوس نہیں ہے ،وہ سمجھتی ہیکہ اگر اس ملک کو یہ حکومت اک سہی سمت اور سہی ڈگر پر لگا دے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ،بشرطیکہ اپوزیشن اور عوام بھی حکومت کا ساتھ دے ۔ اگر انھوں نے صحت تعلیم اور صفائی پر بھی کچھ کام کردیا تو یہ قوم مشکور رہے گی اس حکومت کی ۔
اس حکومت کو تھوڑا وقت دینا چاہئیے ،تاکہ انھیں موقع ملے کام کرنے کا ،میڈیا بھی بلا وجہ کی تنقید نہ کرے بلکہ میڈیا اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ لوگوں کا میڈیا پر بھی اعتماد بحال ہو ۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کو بھی چاھئیے کہ وہ بھی پچھلی حکومت کی طرح پنجاب کے ساتھ ہی نہ چمٹ جائیں بلکہ دوسروں صوبوں کی طرف بھی توجہ دیں ،کیونکہ پاکستان صرف پنجاب میں نہیں ہے باقی صوبے بھی ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر ادوار میں جو بھی حکومت ہوتی ہے وہ پنجاب پر ہی اپنا زور لگا دیتی ہے ،باقی صوبے پسماندگی کا شکار ہی رہتے ہیں ۔
کچھ دنوں سے خان صاحب کی توجہ پنجاب پر ہی مرکوز ہے ۔ ایسا لگتا ہے خان صاحب وزیراعظم کم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ اک نئی حکومت ہے اور ان کا تجربہ بھی کم ہے دوسری حکومتوں کی نسبت ،انھیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا ، تمام وزراء کو۔میڈیا کے سامنے بڑا محتاط رویہ اپنانا چاہیے تاکہ میڈیا کو کسی بات کا موقع نہ ملے ، نان ایشوزکو بالکل نہ اچھالا جائے ، ہر وزیر اپنے عہدے کامان رکھے اور کسی گھمنڈ میں نہ رہے ،یہ وزارت آنے جانے والی چیز ہے ،آج آپ کے پاس تو کل کسی اور کے پاس۔
جس طرح آپ کا باس عمران خان سادگی اختیار کرنے اور ملک کو ترقی دینے کی بات کرتے ہیں آپ وزیروں کا بھی یہی انداز ہونا چاہئیے ، عوام اب کی بار کام چاھتی ہے اس لئیے آپ کو موقع دیا گیا تاکہ آپ عوام کے وعدوں پر پورا اتریں ۔ امید کی جانی چاہئیے کہ یہ حکومت اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کرے گی اور ان وعدوں کا پاس بھی رکھے گی جو قوم سے خان صاحب نے کئیے تھے ۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply