آج جب میں سوانسی یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوا، تو جذبات کی لہر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شام کی ہوا میں ایک ہلکی سی خنکی تھی، اور بلند عمارتیں اور ان کے گرد موجود سرسبز درخت مجھے حیرت میں ڈال رہے تھے۔ یہ احساس حقیقت سے زیادہ خواب کی مانند تھا۔ ایک خواب جو میں نے اتنے عرصے سے اپنی سینے میں سجا رکھا تھا، آج حقیقت بن گیا۔ میں نے دل میں ایک خاموش دعا کی: الحمدللہ۔
پہلی چیز جو مجھے حیران کر گئی وہ یہاں کا کھلا پن تھا۔ وسیع آسمان اوپر سے بے حد پھیلا ہوا تھا، جبکہ دور سمندر کی سطح سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے رک کر تازہ ہوا کو اپنے اندر کھینچ لیا، اور اس جگہ کی خوبصورتی کو محسوس کیا۔ یہ میرے پیچھے چھوڑے گئے شہر کی ہلچل سے بالکل مختلف تھا — یہاں کا ماحول خاموش، زیادہ پرسکون، اور امیدوں سے بھرا ہوا تھا۔
میری قدم ہلکے ہو گئے تھے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے بازووں میں پر لگ گئے ہیں۔ میں دروازوں سے گزرتا، خوشی اور بے چینی سے سرشار لفٹ پر چڑھتے ہوئے سوچنے لگا۔ یہی وہ جگہ ہے، ہاں ہاں وہی مقام، جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اب اگلا باب شروع ہونا ہے۔ میں نے مائکل جو مجھے چھوڑنے آئے تھے کہا: “میں ہمیشہ خواب دیکھتا رہا ہوں، لیکن یہاں کھڑے ہو کر، جہاں اتنے بڑے ذہنوں نے تعلیم حاصل کی، مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وقت تھم سا گیا ہے”۔
مائیکل میرے پیارے استاد اور فرشتہ صفت انسان جس نے اس سفر میں میری بہت مدد کی۔ نہ صرف اس نے مجھے لندن سے ہاسٹل تک اپنی کار سے ڈرائیو کرکے پہنچایا، بلکہ میری داخلے کی کارروائی کو مکمل کرانے میں بڑی مدد کی۔ سفر کے دوران کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا ہے، کیسے یونیورسٹی کی سہولیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے اس کے بارے میں بتاتے رہے۔ ہاسٹل پہنچنے کے بعد بستر، تکیہ، اور دیگر ضروریات کی چیزیں خریدنے میں بھی اس نے بڑی مدد کی۔ اس کی شفقت اور فراخ دلی نے اس نئے مرحلے میں قدم رکھنے کو میرے لیے بے حد آسان بنا دیا۔
مجھے یاد آیا میں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی منٹس میں کہیں پڑھا تھا۔ پروفیسر آرنلڈ جو علی گڈھ مسلم یونیوسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ جب انھیں لاہور یونیورسٹی میں زیادہ سہولیات اور مراعات کے ساتھ تنخواہ میں اضافے کے ساتھ بلایا گیا تو انھوں نے اس کا ذکر سر سید سے کیا، سر سید نے ٹرسٹی کے ممبران کے سامنے صورت حال سامنے رکھی تو ٹرسٹی کے ممبران نے کہا کہ اگر آرنلڈ جانا چاہتے ہیں تو جانے دیں، ہم کوئی اور انگریز پروفیسر اس سے کم تنخواہ پر لے آئیں گے تو سر سید نے کہا بے شک ہم دوسرا انگریز پروفیسر لے آئیں گے لیکن پروفیسر آرنلڈ جیسا ہمدرد اور شفیق انسان کہاں سے لائیں گے جس سے طلباء بھی مانوس ہیں۔ ایک ایسا شخص جو نہ صرف اعلیٰ خاندانی بیک گراؤنڈ سے ہے بلکہ اعلیٰ قدروں کا حامل بھی ہے۔ اس کے بعد ٹرسٹی ممبران نے لاہور یونیورسٹی سے زیادہ رقم پر، خاص اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کو جانے سے منع کیا اور آخر دم تک وہ علی گڈھ سے ہی جڑے رہے۔ مائکل بھی یقینا آرنلڈ جیسے کسی اعلیٰ خاندان اور اعلیٰ قدروں کے حامل گھرانے سے ہوگا، تبھی تو اس نے اپنی حیثیت اور طاقت سے بڑھ کر میرا تعاؤن کیا۔ میں اس کی مدد کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں، میری دعا ہے کہ اللہ اس کو اس کا کروڑ گنا بہتر بدلا دے۔
میں نے دیکھا یہاں کیمپس کی عمارتیں ایک خاص دلکشی رکھتی تھیں — جدید، لیکن تاریخ سے جڑی ہوئی۔ میں نے تصور کیا کہ کتنے ہزاروں طلباء نے ان ہالوں میں قدم رکھا ہوگا، ہر ایک کی اپنی کہانیاں اور خواب ہوں گی۔ کیا وہ بھی میرے جیسی ہی کوئی امید رکھتے ہوں گے؟، میرے دل میں یہ سوال آیا۔
ریسپیشن پر یونیورسٹی اسٹاف کی گرم جوشی نے مجھے خوش آمدید کہا، اوپر تلے بڑھا تو طلباء کا ایک ہجوم تھا، جن میں سب کے چہروں پر خوشی اور امید کی چمک تھی۔ ہمیں کیمپس کی وسعت، تعلیمی وسائل، اور مختلف سوسائٹیز اور کلبوں کے بارے میں بتایا گیا جو یہاں کے متحرک طلبائی زندگی کو بڑھاتے ہیں۔ دنیا کے ہر کونے سے طلباء کو دیکھ کر دل کو سکون ملا، جیسے میں کسی عالمی برادری کا حصہ ہوں — ایک ایسا اتحاد جو علم اور سیکھنے کی بنیاد پر قائم ہے۔
کمرے میں پہنچا تو میرے ذہن میں ان تمام محنتوں کی یادیں آگئی جو مجھے یہاں تک لانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ لمبی راتیں، زبان کے اسباق، اور نامعلوم امتحانات — آج یہاں کھڑا ہونا ان سب چیزوں کو حقیقت میں بدلنے کی مانند تھا۔ میں نے اپنے بچپن کی یادوں میں جھانکا، جب میں محمد علی جوہر کے بارے میں پڑھتا تھا اور آکسفورڈ کا خواب دیکھتا تھا۔ اگرچہ میری راہ نے مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف دھکیل دیا لیکن اب سوانسی یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہوئے ٓمیں نے محسوس کیا کہ میں کسی حد تک آکسفورڈ میں پڑھنے کے اس بچپنے والے خواب کی تکمیل کر رہا ہوں۔
دن کے اہم لمحوں میں سے ایک میرا پروفیسروں سے ملنا تھا۔ ان کی دوستانہ اور خوش اخلاقی نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ میں نے ان کی شفقت کی حرارت کو محسوس کیا، جو ہماری ترقی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ بہت متاثر کن تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی پڑھائی میں مشغول ہونے کے لیے بے چین ہوں۔
کتب خانہ بھی میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ یہ وسیع، علم کا ایک پناہ گاہ تھی۔ کتابوں کی قطاروں کے درمیان چلتے ہوئے مجھے یک گونا خوشی کا احساس ہوا۔ یہاں، ان دیواروں کے اندر، بے شمار دنیاوں کا خزانہ موجود تھا۔ میں نے ذہن میں ایک نوٹ بنایا کہ جلد ہی واپس آؤں — بیٹھوں، پڑھوں، اور علم کے ان بڑے اسکالرز کی بصیرت میں گم ہو جاؤں۔
دن کے آخر میں، میں نے ساحل سمندر کی طرف تنہا چہل قدمی کی، جو کیمپس کے قریب ہی تھا۔ لہروں کا ہلکا سا ٹکراؤ، دور سے آتی ہوئی پرندوں کی آوازیں، اور سمندر کی پرسکون گنگناہٹ میرے دن کے بہترین اختتام کے مانند تھا۔ اس لمحے نے مجھے احساس دلایا کہ علم کی مشغولیت کے درمیان، خاموشی کی کتنی اہمیت ہے۔ میں کافی دیر تک کھڑا رہا، افق کی طرف دیکھتے ہوئے، شکر گزار، پر امید، اور مطمئن۔
جب میں اپنے رہائش کی طرف واپس آیا، تو میں نے مغرب کی نماز کے لیے کیمپس کی مسجد میں نماز کا فیصلہ کیا۔ یہاں، اس نئے مقام پر بھی، مجھے ایک اجتماعیت کا احساس ہوا، جو بہت ہی تسلی بخش تھا۔ میرا سر آنسوؤں کے ساتھ سجدہ شکر میں جھک گیا، میں نے ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے اس لمحے تک پہنچنے کے لیے کامیاب کیا، تمام چیلنجز سے گزارا، اور مجھے آگے بڑھنے کی طاقت عطا کی۔
زندگی کے عجیب موڑ، خوابوں کی تعبیر، اور کیسے سب کچھ اپنے وقت پر صحیح جگہ پر آ جاتا ہے — آج جب میں سوانسی یونیورسٹی کی راہداریوں سے گذرتے ہوئے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ حالانکہ یہاں پہنچنے کے بعد بھی کئی لوگوں نے مجھے کئی رستے سجھائے لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ بالکل وہ جگہ ہے جہاں مجھے ہونا چاہیے تھا۔
بلا شبہ یہ صرف ایک آغاز ہے، مگر میں سکون محسوس کر رہا ہوں — اتار چڑھاؤ کے ساتھ، انشاء اللہ آگے کا ہر قدم بھی ایسا بلکہ اس سے بہتر اور بہت اچھا ہوگا۔
محمد علم اللہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں