انسان اپنی زندگی میں مختلف امتحانات سے گزرتا ہے ۔کچھ امتحانات کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں اور کچھ ناکامی کی صورت میں ملنے والی نئی امید ،راستہ اور حوصلے عنایت کرتے ہیں ۔یہی کامیابی اور ناکامیاں زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں ۔زندگی کے کچھ یادگار دن انسان کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں اور میری سی ایس ایس کی آخری کوشش انہی دنوں میں سے تھی ۔
سی ایس ایس کا امتحان صرف ایک امتحان نہیں تھا بلکہ برسوں کی محنت ،قربانی اور خوابوں کا حاصل تھا۔آخرکار وہ دن بھی آگیا جب میں سی ایس ایس کی آخری کوشش کے لیے گئی ۔دل میں خوشی ،امید ،ڈر اور خوف کی کیفیت تھی ۔دل و دماغ کئی طرح کی خدشات کی جنگ لڑ رہا تھا۔میں صبح فجر کے وقت اٹھی نماز پڑھی۔قرآن پاک کی تلاوت کی۔اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللّٰہ!جو میرے بس میں تھا میں نے کیا باقی تو کرم کرنے والا ہے ۔میرے حق میں جو بہترین ہے مُجھے عطا کر۔دعا سے فارغ ہوکر تیاری کی ہلکا پھلکا ناشتا کیا۔ضرورت کا سارا سامان بیگ میں رکھا اور پھر جانے کے لیے روانہ ہو گئی ۔امتحانی مرکز میرے گھر سے آدھ گھنٹے کے فاصلے پر تھا تو راستے میں دل و دماغ ۔دعاؤں پر تھے پر آنکھیں آس پاس کے نظاروں پر تھیں مگر موسم شاندار تھا عموماً فروری میں موسم خوبصورت ہو جاتا ہے ۔جیسے ہی گاڑی امتحانی مرکز کے قریب پہنچی تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔خیر میں نے تین لمبے گہرے سانس لیے اور اللّٰہ تعالیٰ کا نام لے کر آگے بڑھی اپنا سامان اور بیگ امتحانی مرکز کے باہر موجود کاؤنٹر پر جمع کرائیں اور خود ضروری چیزوں کے ساتھ امتحانی مرکز میں داخل ہو گئی ۔اگرچہ قطار لمبی تھی تو تقریباً 10منٹ کے بعد میں اپنے مقرر کردہ امتحانی ہال میں تھی ۔جیسے ہی امتحانی ہال میں داخل ہوئی تو وہاں موجود تمام طلبہ کی حالت میرے جیسے تھی۔میں اپنی نشست پر بیٹھ گئی اور جوابی شیٹس پر اپنا نام اور رول نمبر لکھ لیا۔
تقریباً 5منٹس کے بعد ہمیں سوالیہ شیٹ دی گئی ۔سی ایس ایس امتحان میں اضطراب کی بڑی وجہ امتحان میں آنے والے غیر ممکنہ سوالات ہیں ۔خیر میں نےسب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھایا کہ مجھے سب آتا ہے اپنی پوری کوشش کی ہے اور سب اچھے سے لکھنا ہے۔۔
سوالیہ شیٹ سے جو سوال مجھے آتے تھے۔میں نے راؤنڈ سر کل کر لیے اور اللّٰہ کا نام لے کر جوابی شیٹس پر لکھنا شروع کر دیا ۔ساتھ ساتھ وقت کو بھی دیکھا کیونکہ کل تین گھنٹے کا پیپر ہوتا ہے ۔
نگران نے 15منٹس پہلے بتایا کہ اپنی شیٹس کو اکھٹا کر لیں اور ایک بار دیکھ لیں ۔کم وقت میں جتنا ممکن تھا سب اچھا لکھا ۔آخری لمحے نگران نے نہایت ہی شائستگی اور طریقے سے سب ایسپائرینٹس سے پیپرز جمع کیے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھنے کو کہا تاکہ نظم و ضبط قائم رہے ۔پیپرز جمع کرنے کے بعد امتحانی مرکز اور ہالز کے دروازے کھول دیے گئے باہر نکل کر ایسا سکون ملا جیسے جنگ لڑ کر آگئے ہوں ۔
باہر جو بے ہنگم شور ،ہجوم،دھول مٹی ،تھکن سے چور جسم اور انتظار کرتی ہوئی آنکھیں سب قابل دید تھا۔اس ہجوم اور شور شرابے سے گزر کر کاؤنٹر سے اپنی چیزیں وصول کیں اور دوسرے پیپر کی دہرائی کے لیے ایک کونہ ڈھونڈا۔آخرکار مجھے ایک پُرسکون جگہ مل گئی جہاں میں کھانا کھایا اور دوپہر 2بجے شروع ہونے والے پیپر کی دہرائی کی ۔12سے 2کے درمیان وقت بہت کم ہوتا ہے اسی 2گھنٹے میں سب کچھ کرنا ہوتا ہے ۔مگر بہترین امتحان وہی ہوتا ہے جس میں انسان سلیقے سے سب کچھ کرنے کی ہمت رکھے ۔
آہستہ آہستہ سامان کے کاؤنٹر سے ہجوم کم ہوتا گیا دوسرے پیپر کے لیے ایسپائرینٹس امتحانی ہالز میں جانے لگے تو میں نے بھی بیگ اور باقی چیزیں جمع کرائیں ۔ضروری چیزیں لے کر امتحانی ہال میں آگئی اور صبح والی جگہ پر بیٹھ گئی ۔جوابی شیٹس پر نام اور رول نمبر لکھنے کے 5منٹس کے بعد سوالیہ شیٹ دی گئی تو اللّٰہ کا نام لے کر جس سوال کے جواب آتے تھے ان کو راؤنڈ سرکل کیا اور جوابی شیٹس پر لکھنا شروع کیا ساتھ ساتھ گھڑی پر بھی نظر تھی ۔دماغ میں تناؤ اور دل میں اضطراب بھی تھا مگر خوشی بھی تھی آخرکار یہ سفر پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے ۔ایک عرصے کی کوشش اپنے اختتام کو پہنچی ۔
اسی اثناء نگران نے بتایا صرف 15منٹس باقی ہیں ۔جلدی جلدی سب مکمل کیا اور آخری بار پورا پیپر پڑھا کہ کوئی سوال ادھورا نہ رہ جائے ۔حسب معمول نگران نے وقت ختم ہونے کے بعد نہایت ہی طریقے سے تمام ایسپائر ینٹس سے پیپرز واپس لے لئے اور دروازے بند کر دیئے تاکہ بے ہنگم صورت حال نہ پیدا ہو جائے ۔10منٹس کے بعد تمام ہالز کے دروازے کھول دیے گئے اور تمام ایسپایر نٹس خوشی اور کش مکش کی مجموعی کیفیت میں باہر نکلے ۔کچھ کے لیے یہ سفر ایک منزل تھی اور کچھ کے لیے ایک سبق ۔
میں نے اس ہجوم ،شور اور دھول مٹی سے گزر کہ کاؤنٹر سے اپنا سامان اور بیگ وصول کیا ۔ادھر سے جلدی سے نکل آئی کیونکہ شام 5بجے کے بعد اندھیرا تیزی سے چھا رہا تھا ۔مین روڈ پہ آکہ واپسی اپنے گھر کے لیے ان ڈرائیو کرائی ۔
سارا راستہ سوچتی آئی کہ اللّٰہ تعالیٰ چنے گئے لوگوں کو ہی ایسے امتحان کے لیے منتخب کر تا ہے کہ میرے بندے کامیاب ہوں یا ناکام پس مظبوط رہیں کیونکہ نتیجہ کی فکر امتحان کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی ۔
جسم و روح دونوں تھکن سے چور تھے مگر واپسی ایک اچھی امید کے ساتھ ہوئی کہ میں ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی ہوں اور اب چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو یہ دن ھمیشہ میری زندگی کی کہانی کا اہم ترین حصہ رہے گا۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں