راہی کون ، راہبر کون

انسان میں اتنی انسانیت اور ہمت ضرور ہونی چاہیے کہ سچ بول سکے۔ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے بہت ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دوست وہی ہوتا ہے جو اندھیری رات میں بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑے۔ زندگی میں ایسے بہت لوگ دیکھے جو دوست بن کے ملے اور وقت آنے پر انہوں نے ہی پیٹھ میں خنجر مارا۔ تکلیف اس بات کی کبھی نہیں ہوئی کہ خنجر لگا، تکلیف تو اس بات کی ہوتی ہے کہ، دوست بن کے مارا۔ انسان کو روز مرہ کے کام نہیں بلکہ لوگوں کے رویے مار دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے دن کے اجالے میں چند قدم ساتھ چلنے والے لوگ راہی تو ہوسکتے ہیں۔ لیکن کبھی راہبر نہیں ہو سکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کون راہی ہے اور کون راہبر؟ انسان نے بہت ترقی کی لیکن آج تک کوئی ایسا آلہ نہیں بنا سکا جس سے انسان کو پرکھا جا سکے۔ لیکن ایک چیز ہے جس سے انسان کی شخصیت کا اندازہ لگانا قدرے آسان ہے اور وہ ہے "خودپسندی"۔ مثال کے طور ہر، سائیکالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جولوگ موبائل فون کے زریعے ہر دوسرے موقع پر اپنی سیلفی لیتے ہیں، یا بار بار اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنا پسند کرتے ہیں، وہ لوگ دماغی طور ہر شدید خودپسندی اور احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اور خودپسندی اور احساس برتری دونوں ہی اصل میں احساسِ کمتری کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
احساس برتری، کمتری اور خودپسندی بہت وسیع موضوع ہے جس پر فی الحال بات ممکن نہیں۔ لیکن اس مثال کے زریعے ایک بات سمجھنے کی ہے اور وہ یہ کہ، جو انسان سب سے زیادہ خود سے پیار کرتا ہو، وہ دوسروں سے کم کم ہی محبت کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے سب سے زیادہ اگر کچھ اہم ہے تو وہ اس کی ذات ہے۔ ایسا انسان دوستی اور محبت جیسے رشتوں کو اپنی غرض کی حد استعمال کرتا ہے۔ اور جب غرض ختم تو رشتہ بھی ختم۔
انسان کی فطرت ہے کہ اس کو اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے۔ ہر انسان کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ بظاہر ملنے والے شخص کا باطن کیسا ہے یہ جاننے کے لیے کبھی پوری عمر ناکافی ہے اور کبھی چند لمحے بہت ہیں۔ مجھے زندگی میں کبھی ان لوگوں نے متاثر نہیں کیا جو بظاہر بہت مثبت ہوں اور سب کے دوست ہوں۔ ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ، " ایک ماں اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بولی، کہ بیٹا جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور اچھے آدمی بنو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک دوست دیں گے۔ بیٹے نے پوچھا کہ ماں، اگر میرے بہت سارے دوست ہوئے تو؟ تو ماں نے جواب دیا، کہ پھر تم اچھے آدمی نہیں ہوگے۔"
اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس کے دوست زیادہ ہیں وہ اچھا انسان نہیں۔ اس بات حاصل یہ ہے کہ جو انسان سب لوگوں کا دوست ہے وہ کسی ایک کا مخلص دوست نہیں۔ اور جو انسان مخلص ہی نہ ہو وہ کارواں میں کچھ دیر ساتھ چلنے والا راہی تو ہو سکتا ہے، مگر کبھی راہبر نہیں ہوسکتا۔

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply