کس کس کا پلاٹ دوستووسکی نے لکھا ہے؟

جب کبھی دنیا کے بہترین ناولوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے، تب سب سے زیادہ امکانات، جو ایک عام قاری اس فہرست کو پڑھنے سے قبل سوچتا ہے، ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول” وار اینڈ پیس”یا” اینا کرنینا”کے ہوتے ہیں۔سیاست میں Famous or Popular دو اصطلاحات کو سمجھ لیا جائے تو ایک رائے یا کم از کم ایک مضبوط رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ادب میں ایسی اصطلاحات بہت ہی کم استعمال ہوتی ہیں ۔ جیسے وار اینڈ پیس Popular تو ہے لیکن Famous نہیں۔ یہاں اس اصطلاح سے غیر متفق ہوا جا سکتا ہے۔لیکن کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے نام سن رکھے ہیں، اور ان میں سے اوسطً کتنے لوگوں نے اسے پڑھ رکھا ہے۔

جب ایسی فہرست وجود میں آتی ہے، تب ایک عام شخص اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو سکتا ہے کہ بلاشبہ ٹالسٹائی سب سے بڑا ناول نگار ہے یا اس کے ناول عالمی ادب کے سب سے بہترین ناول ہیں۔اس کے دوسری طرف یعنی فہرست میں تیسرے یا چوتھے نمبر پر جرم اور سزا یا کرامازوف برادران کا نام ہوتا ہے۔ تب ایک عام قاری کا ذہن اس بات پہ پختہ ہو جاتا ہے کہ دوستووسکی اگرچہ سب سے بڑا ناول نگار ہے، چارلس ڈکنز یا وکٹر ہیوگو یا جیمز جوائس سے بھی بڑا، لیکن وہ ٹالسٹائی سے چھوٹا ادیب ہے۔ٹالسٹائی کے بارے میں عمومً احترام کا رویہ تمام لکھاریوں سے بڑا ہے، لیکن کیا محض اسی بدولت آپ دوستووسکی کو اس سے نیچے جگہ دیں گے۔

جرم اور سزا ایک غریب بدحال لڑکے کی کہانی ہے جو ایک دن اپنی مکان مالکن کو قتل کر دیتا ہے۔ کرائے کی عدم ادائیگی، قرض کی عدم چکتائی اور نفرت کی بدولت کہ اس بڑھیا نے اس عمر میں اتنے پیسوں کا کیا کرنا ہے۔اس کے خاندان میں ایک بیوہ ماں اور ایک بہن ہے، جس پر دفتر میں جنسی ہراسمنٹ کے حملے ہوئے ہیں۔ ماں اسے سینٹ پیٹرزبرگ میں آنے کی اطلاع دیتی ہے اور یہ بھی کہ اس کی بہن کیلئے ایک رشتہ تلاش کر لیا گیا ہے۔ شہر آنے پر وہ اس کی بہن کے منگیتر سے ملتے ہیں اور راسکولنیکوف دباؤ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ایک احساس جرم کا شکار۔ اس کا بہنوئی اسے ٹٹولنے لگتا ہے اور آخر آنے والے صفحات میں وہ اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا ہے، جس کے بعد اسے قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ اس کی محبوبہ اور ایک دوست ان تمام واقعات میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمومی تاثر جو اس ناول کے بارے میں قائم ہے وہ جرم اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی کشمکش اور ضمیر کی آواز ہے، لیکن بطور ایک قاری میری نظر میں ایسا نہیں ہے۔اس کی بنیاد وہ مضمون ہے جو راسکولنیکوف نے ایک اخبار میں لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا تین قسم کے افراد پر مشتمل ہے۔
اول : برے لوگ
دوئم : اچھے لوگ
سوئم : مسیحا، جن کا کام برے لوگوں کو ختم کر کے دنیا کو اچھے لوگوں کیلئے مزید خوبصورت بنانا ہوتا ہے۔
راسکولنیکوف خود کو تیسری قسم میں شمار کرتا رہا ہے اور آخری صفحات میں اس پر وا ہوتا ہے کہ تیسری قسم کا کوئی وجود نہیں۔ ہر اچھے انسان میں کہیں نہ کہیں ایک بد خصلت ہے اور ہر بد خصلت کے اندر ایک مسیحا چھپا بیٹھا ہے۔
جب کوئی شخص غلط ثابت ہونے پر اپنا نظریہ تبدیل نہیں کرتا، مجھے لگتا ہے اس کا پلاٹ دوستووسکی نے نہیں لکھا۔کیا” اینا کارنینا” کا مجموعی کینوس اس سے زیادہ وسیع ہے ؟

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply