تبدیلی کہاں ہے؟۔۔۔ آصف محمود

نیند نے آ ہی لیا تھا جب فون بج اٹھا۔یہ سرگودھا سے کزن کا فون تھا۔ گائوں کے روایتی لوگ فون کریں تو دس پندرہ بار ’ اور سنائیں کیا حال ہے‘ کہنے کے بعد کام کی بات کرتے ہے لیکن یہ کیا، نہ سلام نہ دعا۔ سیدھی یلغار ۔ ’’ دیکھ لیا رضوان گوندل کے ساتھ جو ہوا۔ اب بتائو ذرا کہاں ہے وہ تبدیلی جس کا تم نے بہت شور مچایا ہوا تھا‘‘۔تب تک میں پوری طرح جاگ چکا تھا ، میں نے کہا فون پر ہی رہنا میں تمہیں بتاتا ہوں تبدیلی کہاں ہے۔ تمہیں یاد ہو گا ، ایک ایس پی شارق کمال ہوتا تھا۔ یہ وہی شارق کمال ہے جسے رضوان گوندل کے ساتھ وزیراعلیٰ ہائوس طلب کیا گیا۔اسے بھی یہی حکم ملا تھا کہ ایک حکومتی ایم این اے کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگو۔ اس نے بھی رضوان گوندل کی طرح معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا۔ رضوان گوندل تو ابھی اپنے صوبے میں ہے اور معاملہ بھی دھیرے دھیرے کھل رہا ہے کہ بات اتنی سادہ نہ تھی لیکن شارق کمال کو تو صوبہ بدر کر دیا گیا تھا۔اس وقت تم نہیں بولے ۔ محمد علی نیکوکار کی مرتبہ بھی تم دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے تھے۔لیکن آج تم احتجاج کر رہے ہو۔ آج تمہارے جیسے آدمی کو بھی یہ شعور آ گیا ہے کہ سرکاری افسر کسی وڈیرے کے راجواڑے کا جانور نہیں ہوتا ،وہ ریاست کا ملازم ہوتا ہے۔ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ تمہیں معلوم ہے میں تمہیں پیار سے نون غنہ کہتا ہوں۔ اب تو یہ اصطلاح کافی مشہور ہو چکی ہے لیکن یہ تم ہی تھے جو اس اصطلاح کی شان نزول بنے۔ نواز حکومت میں ملک کا ستیا ناس ہو گیا۔ ماڈل ٹائون کے لاشوں پر دنیا روئی لیکن تم بتائو کیا کسی ایک نون غنے کو بھی توفیق ہوئی اس پر مذمت کے دو لفظ بول دئے۔ کیا شرافت کی صحافت نے ایک فقرہ بھی تنقید کا لکھا۔ تم سب گونگے شیطان بن گئے ۔اب یہ حال ہے کہ عمران خان کی حکومت ادھر غلطی کرتی ہے اور کسی اور سے پہلے خود تحریک انصاف کا کارکن لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔معمولی سی غلطی ہوتی ہے اور محسن حدید سے عماد بزدار تک وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر عمران کا مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں اپنی توپوں کا رخ بنی گالہ کی طرف کر لیتے ہیں۔جس گستاخی کا تم نون غنے خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے یہ لوگ ہر روز وہ گستاخی کرتے ہیں اور ٹھونک بجا کر کرتے ہیں۔کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ یہاں پورے کے پورے ٹبر چراگاہ سمجھ کر ملک کو کھا گئے۔ یہاںبیرون ملک دوروں پر زرداری صاحب بھنڈی کی فرائش کر دیتے تو سفیر محترم فرانس سے بھنڈی منگوا کر حاضر کر دیتے۔ یہاں تخت لاہور کے شہنشاہ کی نواسی کی رسم نکاح کے لیے سعودی عرب جانا ہوتا تو پی آئی اے کی شیڈولڈ فلائٹ منسوخ کر کے طیارے کا رخ بدل دیا جاتا۔یہاں تین تین گھروں کو وزیراعلیٰ کے کیمپ آفس بنا دیا جاتا ، ان کی سیکیورٹی پر اربوں برباد کر دیے گئے۔ صوابدیدی فنڈز کی مد میں اربوں لٹا دیے گئے۔لیکن نہ تم جیسا کوئی نون غنہ کبھی بولا نہ شرافت کی صحافت نے منہ سے کوئی لفظ نکالا۔اب عمران خان ہیلی کاپٹر پر چند کلومیٹر کا فاصلہ کرتا ہے تو قوم اس کا ناطقہ بند کر دیتی ہے ۔ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ عمران خان پر جب تنقید ہوتی ہے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی یہی ہے کہ اس پر شدید تنقید کی جائے۔یہ تنقید اسے لمحہ لمحہ محاسبے کا موقع دے گی، یہ محاسبہ اسے سیدھی راہ پر رکھے گا۔عمران خان قرون اولی کا کوئی حکمران نہیں جو عمر بن عبد العزیز ؒ کی طرح ماحول کو بدل دے گا۔ وہ طیب اردوان بھی نہیں ہے۔ اس کے پاس تربیت یافتہ افراد بھی نہیں ہیں۔وہ کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ وہ طرز حکومت میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کر گیا تو یہی اس کی کامیابی ہو گی۔کچھ غلطیاں وہ کر چکا کچھ آئندہ بھی کرے گا۔اس کے وزراء کی ٹیم کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے اور اس کا وزیراعلیٰ پنجاب بھی اثاثہ نہیں ایک بوجھ ہے۔کسی ندیدے کو جیسے کوئی میلے میں چھوڑ آئے اس طرح وہ حکومت فرما رہا ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اٹھنے والی سرگوشیاں اب آہستہ آہستہ بلند ہو رہی ہیں۔جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے 29 ایم این اے ہیں لیکن جنوبی پنجاب کو ایک بھی مخصوص نشست نہیں ملی۔پارٹی کے عہدیدار بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ وہ میرٹ کیا ہے جس کی بنیاد پر کسی کو مخصوص نشست ملتی ہے؟آپ غور فرما سکیں تو آپ کو معلوم ہو یہ معمولی سوال نہیں ہے۔اس میں معنویت کا ایک جہان معنی آباد ہے۔ اہلیت کا عالم کیا ہے؟ ایک زمانہ دیکھ رہا ہے۔ ہیلی کاپٹر ہی کے معاملے کو دیکھ لیجیے۔ جس طرح سے فواد چودھری نے اس مسئلے کو تفنن طبع کا عنوان بنا دیا مجھے حیرت ہے۔اتنا بے زار اور اتنا سرسری لہجہ، کیا حکومت کی ترجمانی اس انداز سے ہو سکتی ہے؟ہیلی کاپٹر کے استعمال کا فیصلہ بالکل درست ہے افسوس عمران کے وزیر اطلاعات نے اس کا تماشا بنا دیا۔مری روڈ سیاحوں کی آمدورفت کا واحد راستہ ہے۔ یہاں عام حالات میں اتنا رش ہوتا ہے کہ بارہ کہو میں آپ کے اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہاں آپ دو کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔اب وزیر اعظم جسے لائف تھریٹ بھی ہو اگر اس طرف کا رخ کرے اور زیادہ نہیں صرف پانچ سات منٹ کے لیے روٹ لگا کر ٹریفک بند کر دی جائے تو آپ تصور نہیں کر سکتے ہزاروں لوگ کس اذیت سے گزریں گے۔پھر کورنگ نالے کا پل پورا سکیورٹی رسک ہے۔آگے بنی گالہ کی بستی ہے اس کی سڑک کا یہ عالم ہے کہ درمیان میں ایک گاڑی کھڑی کردو تو سڑک بلاک ہو جائے۔اس کے بعد جنگل ہے۔ یہاں سیکیورٹی کے لیے آپ کو کم از کم دو سو لوگ چاہئیں تب جا کر راستہ کلیئر ہو سکتا ہے۔اس ساری اذیت سے بچنے کے لیے ہیلی کاپٹر ایک بہترین آپشن ہے۔ہیلی کاپٹرموجود ہے ، سٹاف موجود ہے ، پائلٹ موجود ہے۔یہ خرچے تو ریاست کر ہی رہی ہے اگر اس کا بہتر استعمال ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟اسد عمر مبینہ طور پر پارٹی کے افلاطون ہیں۔ ان کی اہلیت پہلے ہی روز کھل کر سامنے آ گئی جب کہا گیا ہم نے صوابدیدی فنڈ ختم کر دیا۔ بعد میں پتا چلا اس فنڈ کو انتظامی حکم کے ذریعے ختم کرنا ممکن ہی نہیں۔کیا اسد عمر کو چاہیے نہیں تھا وہ وزیر خزانہ ہیں تو اس معاملے کی پوری تفصیل لے کر وزیر اعظم کو بریف کرتے؟ یوں محسوس ہو رہا ہے عمران کی ٹیم کی کوئی اچھی تیاری نہیں ہے۔صرف واہ واہ کروانے کی خاطر عجیب سے فیصلے کر دیے۔ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہنا ، لیکن اسی احاطے میں تین بیڈ روم کے گھر میں رہنا ہے۔ تو وزیر اعظم ہائوس میں آپ کی رہائش گاہ کیا ایک ہزار بیڈ روم پر مشتمل تھی؟وہاں یونیورسٹی کیسے بنائیں گے؟ ساتھ ہی تو آپ کی رہائش ہے کیا یہ سیکیورٹی تھریٹ نہیں ہو گا؟کیا ریڈ زون میں یونیورسٹی بن بھی سکتی ہے؟ ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہے اور بیوروکریسی میں نواز شریف کے عشروں کے وفادار ہیں۔ آپ شریف خاندان کی گہری جڑوں کا اندازہ اس خبر سے لگائیے کہ اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز ہی کو نہیں جیل کے عملے کو بھی کھانا پنجاب ہائوس سے جا رہا ہے۔تخت لاہور کی یہ وفادار بیوروکریسی عمران کو کیسے کامیاب ہونے دے گی۔محکمہ تعلیم نے شنید ہے کہ پوچھ لیا ہے کہ دو سال سے زیادہ ایک سٹیشن پر تعینات اساتذہ کی فہرستیں بھیجی جائیں۔ایک بے چینی پیدا کر دی گئی ہے اساتذہ پریشان ہیں کیا ان کے تبادلے ہوں گے۔ ابھی ایف بی آر بڑے مگر مچھوں کی بجائے جب عام لوگوں کو نوٹس بھیجے گا تو دیکھیے گا کیا تماشا لگتا ہے۔حکومت کے خلاف وہ نفرت پیدا ہو سکتی جو اس کی چولیں ہلا دے گی۔ میڈیا کا ایک غالب حصہ پہلے ہی غصے میں ہے۔ صوابدیدی فنڈ بند ہو چکا۔ مفت کے دورے ختم ہو گئے۔یہ جھوٹی خبریں بلا وجہ نہیں چل جاتیں کہ وزیراعلیٰ کے دورے کے موقع پر ایک بچی ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے مر گئی۔وہ تو اچھا ہوا وزیراعلیٰ کی اسی بچی کی عیادت کرتے وقت کی تصویر سامنے آ گئی ورنہ شرافت کی صحافت تو کام دکھا چکی تھی۔ شریف سول سروس اور شرافت کی صحافت مل کر ابھی وہ دھول اڑائیں گی کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ اس سے نبٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اپنا طرز حکومت بہتر کیجیے۔ لیکن کیا اس ٹیم کے ساتھ عمران یہ بھاری پتھر اٹھا پائیں گے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply