واپسی۔ فرنینڈو سیریٹینو / ہسپانوی ادب

1965 ء میں، میں تئیس سال کا تھا اور ہائی سکول میں زبان اور ادب کا استاد بننے کے لئے پڑھ رہا تھا۔
ستمبر کی ہوا میں موسمِ بہار کی خوشبو آنے لگی تھی۔ ایک صبح میں اپنے کمرے میں پڑھ رہا تھا۔ اس بلاک میں صرف ہمارا گھر اپارٹمنٹ بلڈنگ تھا اور ہم چھٹی منزل پر رہتے تھے۔مجھے بہت سستی محسوس ہورہی تھی اور بار بار میری نگاہ کتاب سے ہٹ کر کھڑکی کے باہر جا رہی تھی۔ وہاں سے میں سڑک دیکھ سکتا تھا۔
سڑک کے پار کونے والے گھر کا سجاسنورا، بوڑھے ڈان سساریو Don Cesareo کا باغیچہ بھی۔ اس کے گھر کا نقشہ قریب قریب پینٹاگون کی طرح پانچ کونی تھا۔
ڈان سسوریو کے بعدوالا بیرناسکونی Bernasconiگھرانے کے بھلے مانس لوگوں کا خوبصورت سا گھر تھا۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں اور سب سے بڑی بیٹی ایڈریانا Adrianaکی محبت میں، میں مبتلا تھا ۔ چنانچہ دل کے ہاتھوں مجبور ہر تھوڑی دیر میں اس کی جھلک پانے کی اُمید میں فٹ پاتھ کی طرف نظر ڈال لیتا۔ اپنے معمول کے مطابق بوڑھا ڈان سساریو اپنے محبوب باغیچے میں پانی دے رہا تھا۔ باغیچہ سڑک کی سطح سے قدرے اوپر تھا۔ پتھر کی تین سیڑھیاں چڑھ کر اس میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ باغیچہ ارد گرد سے لوہے کی نیچی باڑ سےگھرا ہوا۔سڑک ویران تھی، اس لیے جب اگلے بلاک پر ایک آدمی نمودار ہوا تو میری توجہ اس کی طرف گئی ۔ وہ ڈان کے گھر کی طرف والی سڑک سے ہماری طرف ہی آرہا تھا۔

وہ کچرا چُننے والا بھکاری Rag picker تھا۔ گہرے رنگوں کے ست رنگی iridescent چتھڑوں والا۔ دبلا پتلا۔ اس کا سر پیلے رنگ کے تنکوں والے ہیٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔ گرمی کے باوجود وہ ایک پھٹے پرانے بھورے اوورکوٹ میں لپٹا ہوا تھا۔ ساتھ وہ ایک بڑا سا گندا بورا لٹکائے ہوئے تھا۔ میرے خیال سے وہ اس میں اپنی مانگی ہوئی بھیک اور بچا کھچا کھانارکھتا تھا۔
میں دیکھتا رہا۔ وہ ڈان کے گھر کے سامنے رُک گیا اور اس نے لوہے کی سلاخوں والی باڑ کے پاس سے اندر کچھ کہا، شاید بھیک مانگی۔
ڈان کنجوس اور چڑچڑے مزج کا آدمی تھا۔ بنا کچھ جانے سمجھے اس نے اسے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ لیکن بھک منگا دھیمی آواز میں زور دیتا رہا اور پھر میں نے بوڑھے ڈان سساریو کو زور سے چلاتے ہوئے صاف صاف سنا :
‘‘چلو بھاگو، بھاگو یہاں سے تنگ مت کرو۔’’
بہر حال بھکاری پھر بھی اپنی جگہ پر جمارہا اور تو اور، اب وہ پتھر کی تین سیڑھیاں چڑھ کر لوہے کا گیٹ کھولنے لگا۔ تب ڈان کا رہا سہاصبر بھی جاتا رہا۔ اس نے اسے دھکیل دیا۔
بھکاری گیلے پتھر پر سے پھسل پڑا۔ اس نے لوہے کی سلاخ پکڑنے کی کوشش کی، پر ناکام رہا۔ زمین پر دھڑام سے گر پڑا۔

اسی، پلک چھپکتے لمحہ میں ہی، میں نے دیکھا اس کے پیر آسمان کی طرف اُٹھے اور جب تک نیچے آئے ، میں نے اس کی کھوپڑی زمین سے ٹکرانے کی تیزآوازسنی۔
بوڑھا ڈان گھبرایا ہوا تیزی سے نیچے سڑک کی طرف دوڑا۔ وہ بھکاری پر جھکا، اس کی نبض اور سانس کا معائنہ کیا۔
ڈرے ہوئے بوڑھے ڈان سساریو نے فوراً اسے پیر سے پکڑا اور گھسیٹ کر موڑ تک لے گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ اس یقین کے ساتھ کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ اس کے اس غیر ارادتاً گناہ کا کوئی گواہ نہیں ہے۔ لیکن میں واحد گواہ تھا۔
جلد ہی ایک آدمی وہاں سے گذرا۔ وہ مرے بھکاری کے پاس رکا۔ پھر ایک ایک کرکے اور لوگ جمع ہوئے۔ پھر پولیس آئی۔ اسے ایمبولینس میں ڈال کر لے جایا گیا۔ بس اتنا ہی ہوا اور پھر اس معاملے کا کسی نے دوبارہ ذکر نہیں کیا۔
اپنی طرف سے اپنا منہ نہ کھولنے کے لیے میں نے بھی احتیاط کی۔ شاید میں نے غلط کیا۔
جس بوڑھے نے مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، اسے الزام لگا کر مجھے کیا ملتا۔ دوسرا یہ کہ ، اس نے بھکاری کا قتل جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ مناسب نہیں لگا کہ میں اس کے بڑھاپے کے آخری دنوں کو قانونی چکروں سے بگاڑوں۔
میں نے سوچا کہ سب سے بہتر یہی ہے کہ اسے اس کے ضمیر کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔

آہستہ آہستہ میں یہ ساری بات بھول گیا۔ لیکن ہر بار جب میں بوڑھے ڈان سساریو کو دیکھتا ایک عجیب سنسنی کا احساس میرے اندر دوڑ جاتا تھا کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ پوری دنیا میں صرف میں ہی واحد شخص تھا جو اس کے خوفناک راز سے آگاہ تھا ۔
پتہ نہیں کیوں اس کے بعد سے ہی میں اس سے کنی کاٹنے لگا اور میں نے کبھی اس سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیں کی ۔
1969 میں، میں چھبیس سال کا تھا اور ہسپانوی زبان و ادب کی تعلیم کی ڈگری لے چکا تھا۔
ایڈریانا نے مجھ سے نہیں، کسی اور سے شادی کر لی تھی ۔
اس وقت ایڈریانا اپنے حمل کے پورے دنوں سے تھی اور اسے اولاد کبھی بھی ہو سکتی تھی۔ وہ ابھی بھی اسی خوبصورت گھر میں رہتی تھی اور دن بہ دن اور خوبصورت ہوتی جا رہی تھی۔
اس حبس بھری گرمی کی صبح میں امتحان کی تیاری کرنے والے کچھ لڑکوں کو ٹیوشن دے رہا تھا اور ہمیشہ کی عادت کے مطابق کبھی کبھی ایک اُداس نظر سڑک کے کنارے پر ڈال لیتا۔
اچانک میرے دل کی دھڑکن رک گئی، مجھے لگا کہ میں کسی ہذیان (ہیلو سی نیشن) کا شکار ہو گیا ہوں۔

چار سال پہلے جس راستے پر ڈان سسیریو نے اس بھکاری کو مارا تھا، ٹھیک اسی راستے پر وہ بھکاری چلا آ رہا تھا…. وہی چیتھڑے کپڑے، بھورا اوورکوٹ، بےڈھنگا تنکوں والا ہیٹ اور وہی پھٹا پرانا بورا۔
اپنے طالب علموں کو بھول کر میں کھڑکی کی جانب متوجہ ہوگیا ۔ بھکاری دھیمے قدموں سے چلا آرہا تھا ، مانو اپنی قسمت کے قریب آ رہا ہو۔
‘‘وہ زندہ ہو گیا ہے….’’ میں نے سوچا، ‘‘اور شاید ڈان سسیریو سے بدلہ لینے آیا ہے۔’’
خیر، اب وہ کنارے سے ہوتا ہوا ڈان سساریو کے گھر اور لوہے کی باڑ سے آگے بڑھتا رہا۔ اور تب وہ ایڈرئینا کے گھر کے سامنے رکا، اس نے کنڈی سرکائی اور گھر کے اندر چلاگیا۔
‘‘میں ابھی آیا !’’ میں نے طالب علموں سے کہا اور پاگلوں کی طرح لفٹ کی طرف بھاگا۔ سڑک پر نکلا اور دوڑتے ہوئے ایڈرئینا کے گھر میں جا گھسا۔
ایڈرئینا کی ماں دروازے پر کھڑی تھی گویا کہ کہیں جانے والی ہو۔ اس نے مجھ سے کہا: ‘‘واہ! ارے! تم! یہاں؟ آج تو کوئی معجزہ ہوگیا ہے کیا؟!’’
ایڈرئینا کی والدہ ہمیشہ سے مجھے پسند کرتی تھی۔ میری اچانک آمد سے انہیں حیران ہونا چاہیے تھامگر انہوں نے خوشی سے مجھے گلے لگا لیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ ایڈرئینا اسی پل ماں بنی ہے اور وہ لوگ بہت خوش اور پُر جوش تھے۔ اب میں اپنے فاتح حریف یعنی ایڈرئینا کے شوہر سے ہاتھ ملانے کے سوا کیا کر سکتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح پوچھوں اور دماغ میں چل رہا تھا کہ آیا چپ رہنا بہتر ہے یا نہیں۔ اور تب میں نے ایک بیچ کا راستہ نکالا۔ بے دھیانی سے میں نے کہا : ‘‘اصل میں مجھے لگا کہ ایک گندے بڑے بورے کے ساتھ کوئی بھکاری آپ کے گھر میں چپ چاپ گھس آیا ہے۔ اسی لئے بنا گھنٹی بجائے میں آگیا۔ مجھے لگا کہ وہ کچھ چرا نہ لے جائے۔’’
وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے:
بھکاری….؟ بورا….؟ چوری….؟
وہ سب لوگ سارے وقت سامنے کے کمرے میں تھے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہہ رہاتھا۔
‘‘تب مجھ سے ضرور کوئی بھول ہوئی ہے….’’ میں نے بات کو گھماتے ہوئے کہا۔
پھر وہ لوگ مجھے وہاں لے گئے جہاں ایڈرئینا اور اس کا بچہ تھا۔ ایسی صورت میں کیا کہنا چاہیے، مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ میں نے اسے مبارک باد دی، بچے کو دیکھا ، اسے چوما اور پوچھا کہ وہ لوگ بچے کو کیا نام دیں گے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ اس کے والد کی طرح اسے گستاو Gustavo نام دیں گے؛ مجھے فرنانڈو Fernando نام دینا اچھا لگتا، پر میں نے کچھ نہیں کہا۔
گھر لوٹ کر میں یہی سوچتا رہا ‘‘آیا وہ بھکاری ہی تھا جسے ڈان سسیریو نے مارا تھا، یا میرا کوئی وہم….، کیا واقعی وہ زندہ ہوگیا ہے، کہا وہ بدلہ لینے ہی واپس آیا ہے….، لیکن وہ گیا کہاں؟….کیا ایڈرئینا کے بچے کے روپ میں دوبارہ آیا ہے۔’’
اور پھر، دو تین دن کے بعد مجھے اپنے یہ خیالات اور مفروضات مضحکہ خیز لگنے لگے اور آہستہ آہستہ میں اسے بھول گیا۔
میں یہ واقعہ ہمیشہ کے لئے بھول گیا ہوتا …. اگر 1979 کے ایک واقعہ نے اسے مجھے پھر سے یاد نہ کروا دیا ہوتا۔

میری عمر بڑھ رہی تھی اور اب میں خود کو پہلے سے کم قابل سمجھتا تھا۔ معمول کے مطابق کھڑکی کے بغل میں بیٹھ کر میں ایک کتاب پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر میرا دھیان پھر ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔
ایڈرئینا کا بیٹا گستاو اپنے گھر کی چھت پر کھیل رہا تھا۔ یہ ایک بچکانا ساکھیل تھا۔ میں نے سوچا بچے کو ضرور ہی اس کے باپ کا بھونڈا دماغ ملا ہوگا۔ اگر میرا بچہ ہوتا تو میں تفریح کے لئے اسے اتنا بیکار کھیلنےنہ دیتا۔
اس نے چھت کو بانٹنے والے حصے پر خالی ڈبوں کی قطار رکھی ہوئی تھی اور تین چار فٹ دور کھڑا ہوکر پتھر سے انہیں گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ قدرتی تھا کہ بہت سے پتھر پڑوسی ڈان سسیریو کے باغیچے میں گر رہے تھے۔
مجھے لگا کہ بوڑھا یہ دیکھ کر ضرور پگلا جائے گا کہ اسکے تمام پھول تباہ ہو گئے ہیں۔
ٹھیک اسی وقت ڈان سسیریو گھر سے باہر باغیچے میں آیا۔ اب وہ سچ میں بوڑھا ہو چکا تھا۔ مشکل سے ڈگمگاتا ہوا، ایک ایک قدم رکھ کر چلتا ہوا، دھیرے دھیرے وہ باغیچے کے گیٹ تک آیا اور نیچے جانے کے لئے تین سیڑھیاں اُترنے کی تیاری کرنے لگا۔
ٹھیک اسی وقت گستاو نے جس نے بوڑھے کو نہیں دیکھا تھا ۔ ایک ڈبے کو مار گرایا۔ ڈبہ دو تین قلابازیاں کھاکر تیر کی طرح زور سے ڈان سسیریو کے باغیچے میں گرا۔
سیڑھیوں کی جانب جاتا بوڑھا آواز سن کر اچانک گھوما اور اپنا توازن کھو بیٹھا…. اور پہلی سیڑھی پر اسکی کھوپڑی ٹکرا گئی۔
میں نے یہ سب دیکھا…. لیکن نہ تو بچے نے بوڑھے ڈان کو دیکھا، نہ ہی بوڑھے ڈان نے بچے کو۔ ایک بار پھر اس صورتحال کا واحد گواہ میں ہی تھا۔
پھر کسی وجہ سے گستاو چھت سے چلا گیا۔ چند لمحوں میں ڈان سسوریو کے مردہ جسم کے پاس بہت سے لوگ جمع گئے۔ ظاہر سی بات تھی، حادثاتی طور پر پھسل کر گرنا موت کی وجہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے دن میں بہت جلد بیدار ہوگیااور پھر خود کو کھڑکی کے قریب کیا۔ میں نے دیکھا سڑک پر بہت سے لوگ سگریٹ پی رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ شاید بوڑھے ڈان کی حادثاتی موت پر چہ مگوئیاں جاری تھیں۔
اچانک دیکھا کہ وہ لوگ کچھ نفرت اور بےچینی سے کنارے ہٹ گئے ، جب ایڈرئینا کے گھر سے ایک بھکاری نکلا۔ وہی بھکاری ….
ایک بار پھر اپنے چتھڑوں، اپنے اوورکوٹ، اپنے چٹائی والے ہیٹ اور اپنے بورے کے ساتھ۔ وہ آدمی عورتوں کے بیچ سے ہوتا ہوا …. دھیرے دھیرے دور جاتا ہوا ….غائب ہو گیا۔ اسی سمت میں، جس سے وہ پہلے دو بار آچکا تھا۔
دکھ ہوا مگر حیرت نہیں،
جب اسی دوپہر کو مجھے خبر ملی کہ ایڈرئینا کا بیٹا گستاو اس صبح سے اپنے بستر پر نہیں تھا۔
بیرناسکونی خاندان نے اس بچے کو بہت تلاش کیا۔ بناکسی نتیجے کے تلاش آج بھی جاری ہے۔
میری ہمت نہیں پڑتی ہے کہ انہیں تلاش بند کرنے کے لئے کہوں….
اور کہتا بھی کیا….؟
کون یقین کرتا….؟ سوائے میرے ،
کیونکہ صرف میں ہی اس عجیب اور ماورائے عقل واقعہ کا اکلوتا چشم دید گواہ تھا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply