میں مکالمہ سے, مکالمہ مجھ سے ہے۔۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

لکھنے لکھانے سے تعلق کو ایک عرصہ بیت گیا ہے ۔ اب تو یہ بھی بھول گئے ہیں کہ پہلے ہم نے کیا لکھا تھا ۔ کیونکہ یہ کوئی 1992کی بات تھی جب چلڈرن پیجز کے لئے لکھنا شروع کیا ۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو ماہنامہ پھول اور تعلیم وتربیت سمیت نونہال اور انوکھی کہانیاں میں بچوں کے لیئے لکھا۔ میرے ساتھ بچوں کے لئے لکھنے والوں نے کمال کی مہارت حاصل کی ۔ عبدالرشید فاروقی، کاشف بشیر کاشف، ابن آس، نذیر انبالوی ، گل نوخیز اختر ، نوشاد عادل سمیت بہت سے دوستوں نے لکھنے کو وطیرہ بنالیا۔ اورہم صحافت میں داخل ہوگئے تو بچوں کے لئے لکھنا بند ہوگیا ۔ تجزیات اور کالم نگاری کے ساتھ فیچر ناگری شروع ہوئی تو بچوں کے لئے لکھنا بھول گئے۔ بہت سے لوگ اب بھی بچوں کے لکھاری کے طور پر مجھے جانتے ہیں ۔ اخبارات میں لکھنے کے ساتھ جب دنیا ورچوئل ورلڈ میں داخل ہوئی تو بہت سی  ویب سائیٹس کے لئے لکھنا شروع ہوا۔ جس میں اپنی  ایک ویب سائیٹ بھی شامل تھی ۔ فیس بک وال پر بہت کچھ شئیر ہوتا گیا جس سے فین فالورز میں اضافہ  ہوا۔ اب جب مکالمہ کو دوسال ہوگئے ہیں تو دیکھتا ہوں تو میرے تعلق کو سال سے بھی کم ہوا ہے مگر لگتا ہے کہ برسوں سے شناسائی ہے۔ مکالمہ میں مجھے لانے کا سہرا لالہ عارف خٹک کو جاتا ہے جس نے مجھے کہا تھا کہ مکالمہ کے لئے لکھنا شروع کردو ۔ ہر جگہ لکھنے سے بندہ اپنی وقعت کھو دیتا ہے اور یہ بات ٹھیک بھی تھی کیونکہ مجھے بس آرٹیکل چھاپنا تھا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کہاں چھپے ۔ وہ الگ بات کہ جہاں  آرٹیکل بھیجتے وہاں چھپ جاتا ۔ اورجب گوگل میں سرچ کرتے تو  آرٹیکل دوسری ویب سائٹس پر بھی چھپ چکا ہوتا ۔ ایک دوسری  ویب سائیٹ پر لکھا کرتے تھے ۔ جن کے نخرے بہت زیادہ تھے۔ کیونکہ وہ ایک کہاوت ہے نا کہ بہت سے قصابوں میں گائے حرام ہوتی ہے ۔ تو اُس ویب سائیٹ میں ہر کوئی ایڈیٹر تھا ۔ ایک بندہ غلطیاں نکال دیتا اور اگر وہی  آرٹیکل دوسرے کو دیا جاتا تو وہ اُس میں بھی غلطیاں نکال دیتا ۔ کبھی کبھار تو رائٹر اپنی تحریر کو بھی پہچاننے سے انکار کردیتا ۔ میرے ساتھ بارہا ایسا ہوا۔ جب تحریر کا ستیاناس کیا گیا ۔ اور اگر خاتون کوئی آرٹیکل لکھتی تو اس کو بوسٹ اپ کیا جاتا ۔ روز کی ٹینشن سے چھٹکارا پانے سے بہتر لگا کہ لالاعارف کی بات مان لی جائے اور مکالمہ کو سب کچھ بھیجا جائے۔ جس کے بعد انعام رانا سے روابط ہوئے اور پہلے سے زیادہ گرم جوشی سے میری تحریروں کو جگہ ملنی لگی ۔ حالانکہ اُس ویب سائیٹ کا ایک بڑا سکینڈل بے نقاب کیا تھا۔ جس میں ایک خاتون کو ضیا ء شاہد تک پہنچایا گیا تھا۔ اور ضیاء شاہد کا سکینڈل میں نے جب افشا کیا تو مجھ پر الزامات لگنے شروع ہوئے۔ اور بڑے بڑے نام نہاد لکھاریوں نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ مگر بات چونکہ سچ تھی اور سچ پاکستان میں کب پروان چڑھتیا ہے ۔ یوں وہ سکینڈل بھی دب گیا ۔ حالانکہ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سچائی پر مبنی تھا۔ پھر ایک وقت پر مکالمہ نے بھی مجھے چھاپنے سے معذرت کی۔ جس کی وجہ سے میرے بہت سے آرٹیکل میری  وال پر لگے۔ لیکن پھر تعلقات میں بہتری آتی گئی،میں جس وقت بھی  مکالمہ ایڈیٹر کو  ای میل سینڈ کرتا   کچھ لمحوں کے بعد وہ مکالمہ کی زینت بن جاتی۔۔ ا ب ماشاء اللہ سے میں خود کو مکالمہ کا حصہ سمجھتا ہوں ۔ اگر یہ کہوں کہ لکھائی میں مکالمہ میرا گھر ہے تو یہ بے جا نہیں ہوگا ۔ کیونکہ صبح شام محبوبہ کی طرح مکالمہ سائیٹ نظر کے سامنے ہوتی ہے۔ جس طرح بندے کی نظر اپنے محبوب پر ہوتی ہے ۔ اور سوچتا ہے کہ کاش وہ اس رنگ کا لباس پہنتی ۔ یا بچوں کے حوالے سے ماں باپ پریشان ہوتے ہیں کہ میرا بچہ یہ پہنے یہ کھائے یہ اوڑھے جس سے بچہ سکون محسوس کرے ۔ بالکل اسی طرح مکالمہ کے بارے میں سوچتا ہوں   کہ کاش مکالمہ میں یہ ہو ۔ کاش مکالمہ میں اس قسم کے آرٹیکلز، خبریں ، ویڈیو ز اور تجزئیے ہوں ۔ تو مزا آجائے ، میری نظر میں تو مکالمہ کے سب رائیٹر کمال کے ہیں میں کسی کا بھی نام نہیں لوں گا۔ بلکہ یہی کہوں گا کہ مکالمہ ایک گلدستہ  ہے اور اس میں لکھنے اور پڑھنے والے اس کے مختلف انواع و اقسام کے پھول  ہیں۔ اور میں تو اب مکالمہ سے ہوں اور مکالمہ مجھ سے ہے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply