افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟۔۔۔۔عارف خٹک

افغانستان کا نام سُنتے ہی آپ کے ذہن میں ایک ان پڑھ اور وحشی قبائل والے ملک کا تصور اُبھرتا ہوگا۔جہاں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ جہاں برداشت کی کمی ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں۔میں افغانستان میں پچھلے  14  سال سے رہ رہا ہوں۔ افغانیوں کو جتنا نرم دل، نرم خُو، مہمان نواز اور نرم زبان میں نے پایا ہے۔ شاید ہی ان جیسا کوئی اور روئے زمین پہ کہیں ہو۔جو ہنستے ہنستےمُسلسل مر رہے ہیں۔مگر اپنی بدقسمتی سے بے خبر پھر بھی مُسلسل جینے کی ناکام کوشش کئے جارہےہیں۔

افغانستان استعماری قوتوں کی  مزاحمت کی ایک طویل تاریخ رکھنے والا ملک ہے۔ تاِج برطانیہ جب برصغیر پر قابض ہوا۔تو اُس کی نظریں افغانستان پر جمی ہوئی تھیں ۔ کیوں کہ افغانستان وسطِ ایشیاء،روس اور یورپ کا وہ دروازہ ہے جس کی چابی کا حقدار دُنیا کا ہر طاقتور ملک بننا چاہتا ہے۔ برطانیہ، روس، امریکہ، ایران، بھارت، عرب امارات، اور پاکستان،الغرض ہر وہ ملک جو مقدوربھر طاقت کا حامل ہے۔وہ افغانستان میں کسی نہ کسی طور دخل دراندازی کا مُرتکب ہورہا ہے۔ جس کی قیمت ایک عام افغانی ادا کررہا ہے۔

امریکہ کے آنے کے بعد جہاں طالبان نے مزاحمت شروع کی۔ وہاں طالبان مخالف قوت حزب اسلامی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف میدان میں آگئے۔ حیرت کی بات ہے،کہ حزبِ اسلامی نے پھر بھی طالبان کےساتھ اتحاد نہیں کیا۔ طالبان کا پہلے دن سے ہی ایک واضح موقف ہے کہ ان کی لڑائی فقط قابض قوتوں اور ان کے افغان اتحادیوں کے ساتھ ہے۔

پچھلے اٹھارہ سالوں میں طالبان اور امریکہ کے کئی مذاکراتی دور چلے مگر امریکی وعدہ خلافیوں نے ان مذاکرات کو شدید نقصان پہنچایا۔حزبِ اسلامی واضح طور پر کابل کی سیاست میں سرگرم تو دکھائی دے  رہی ہے۔ مگر ان کا آئندہ کا لائحہ عمل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ حکومتی حلیف درپردہ ایک دوسرے کے حریف ہو چکے ہیں اور امریکی فوجیوں کا عمل و دخل صرف اور صرف اپنے بیسزز تک محدود ہے۔

2012ء کے اواخر تک جب پاکستان تحریک طالبان کا کنٹرول پاکستان کے ٹارگٹڈ علاقوں سے کمزور ہونا شروع ہوا۔ تو انہی طالبان کو طورخم سے ملحقہ افغان علاقہ مومند درہ میں بسایا گیا۔ جن میں واضح تعداد  میں سوات، باجوڑ اور وزیرستان کے وہ طالبان تھے جو اپنے اہل و عیال کےساتھ یہاں بس بسا گئے۔ خیبر ایجنسی اور تیراہ کے طالبان کا ٹھکانہ مغرب میں واقع نیازیان شینواری اور دیہہ بالا کے وہ بلند و بالا پہاڑ ٹھہرے جو پاڑہ چنار کے قریب واقع ہیں۔

پاکستانی طالبان جو نیازیان اور دیہہ بالا کے علاقوں میں تھے۔اُنھوں نے مقامی آبادیوں کو یرغمال بنانا شروع کیا۔ اور اغوا برائے تاوان کے جرائم میں ملوث ہو گئے۔ یاد رہے کہ یہاں افغانستان کے اپنے طالبان اقلیت میں تھے اور حیرت کی بات یہ تھی،کہ ننگرہار اور کابل کی حکومتیں بالکل خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہی تھیں۔

نومبر 2013ء میں حکیم اللہ محسود کی پاکستان کے ہاتھوں موت نے جہاں تحریک طالبان کو دھڑے بندیوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔وہاں ملا فضل اللہ کی ننگرہار میں موجود قوتوں کےساتھ مضبوط روابط نے ان کو تحریک کا امیر بنانے میں مدد کی۔ دیہہ بالا اور شینوار میں موجود پاکستانی طالبان نے ابو بکر بغدادی کی بیعت کی۔اور اپنی کاروائیاں بجائے افغان حکومت یا امریکیوں پہ کرنے کے،انھوں نے اپنی پوری توجہ افغانستان کے طالبان پر مرکوز کی۔ طالبان کو بھاری جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔
طالبان جہاں ہلمند، قندہار، فراہ، پکتیا، غزنی، کابل اور شمال میں اپنی قوت کو جمع کرنے میں مصروف تھے۔ وہاں ننگرہار، اچین، شینوار اور جلال آباد کا میدان پاکستانی طالبان کے کنٹرول میں ہی رہا۔

2013ء میں علاقہ نیازیان کے کچھ معززین علاقہ اس وقت کے وزیرداخلہ کے پاس جرگے کی شکل میں گئے۔یہ کہنے کہ داعش کا ظہور ہوچکا ہے،لہٰذا اُن کے جان و مال کے ساتھ ساتھ افغانستان کےلئے بھی شدید خطرات درپیش ہیں۔ مگر وزیرداخلہ نے ہنس کر ان کے اس دعوے کو مُسترد کردیا کہ داعش کا کوئی وجُود افغانستان کی سرزمین پر موجود ہی نہیں ہے۔ حالانکہ داعش کی حرارت نے ماسکو اور ایران کو بھی گرمانا شروع کردیا تھا۔

داعش سے جہاں افغان حکومت نے  اپنی آنکھیں بند کیں۔وہاں جلال آباد میں موجود  امریکی بیس پر بھی سب اوکے ہے کی رپورٹ چل رہی تھی۔
2014ء میں ماسکو نے واضح الفاظ کے ساتھ امریکہ کو خبردار کرنا شروع کیا کہ داعش ان کےلئے قطعی طور ناقابل قبول ہے۔مگر امریکی حکومت کا مُسلسل انکار جہاں روس، ایران، پاکستان اور چائینہ کو آپس میں قریب کرنے کا جواز بناتا رہا۔ کیونکہ چین، ایران اور امریکہ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے،جو داعش کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے  مگر پاکستان نے اپنی توجہ 2،400 کلومیٹر طویل سرحد پر  باڑ لگانے پر مرکوز کی۔

اب یہاں سے ایک نئی پراکسی وار کا آغاز ہوا۔ جس میں ہر ایک کو اپنا دشمن واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ امریکہ اور بھارت ایک طرف ہوگئے اور پاکستان، چین، روس اور ایران دوسری طرف ہوگئے۔ طالبان روس اور چین کی مدد سے دوبارہ قدم جمانے لگ گئے۔ اچانک کابل میں پبلک مقامات پر دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کی مذمت طالبان کے ترجمان نے بھی کی ۔اور واضح طور پر  کہنا شروع کیا کہ طالبان نے پچھلے اَٹھارہ  سالوں میں کسی سویلین آبادی یا پبلک مقام پر دھماکہ نہیں کیا۔اور ان کا ٹارگٹ ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادی رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دوران داعش ننگرہار سے نکل کر کابل اور پکتیا میں خود کو مضبوط کرتے چلے گئے۔ حتٰی کہ روس نے واضح طور پر امریکہ کو دھمکی دی ۔کہ اگر داعش کو کنٹرول نہیں کیا گیا،تو روس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف زمینی اور فضائی یکطرفہ کارروائی کرے۔ بالآخر امریکہ کو  چین میں MOB مدر اف بم کی کارروائی کرنی پڑی۔اور اس کی بھرپور تشہیر بھی کی گئی،کہ امریکہ نے داعش کے خلاف بھرپور کارورائی کر ڈالی ہے۔ مگر زمینی شواہد یہ بتا رہے تھے،کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جہاں یہ بم گرایا گیا تھا وہاں دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply