داستانِ عشقِ بلاخیز۔ آریان ملک

وہ پہلی نظر میں مجھے بھا گئی تھی.۔ کھلے بالوں کیساتھ سر پہ موہوم سا دوپٹہ لئے وہ اکیلی چلی آتی تھی. ریشمی دوپٹہ ذرا ذرا دیر بعد سر سے سرکنے لگتا تو وہ بہت نزاکت سے، چہرے پہ ہلکے سے خفگی کے آثار لئے اسے درست کرنے لگتی۔ میں چاچے شکور حلوائی کی دوکان سے جلیبی لینے کیلئے کھڑا تھا. وہ نازنین وہاں سے کچھ دور پیکو والی دوکان سے نکل کر میری سمت چلی آتی تھی۔ میرے لئے جیسے گردوپیش تھم سے گئے تھے اور سارے منظر میں بس وہ ہی وہ دکھائی پڑتی تھی.۔ ٹریفک کا شور بیک گراؤنڈ میوزک بن گیا تھا، تپتی لَو بادِ نسیم لگنے لگی تھی اور چاچے شکور کی مٹھائیوں کی خوشبو گلزاروں کی مہک بن کر مدہوش کیے دیتی تھی۔ وہ میرے پاس سے گزر کر جا رہی تھی اور میں بت بنا اسے جاتا دیکھ رہا تھا. جسم ساکت تھا، ہوش اڑا ہوا تھا اور آنکھوں میں اس پری وش کے نقوش جھلملا رہے تھے. آن کی آن میں وہ بے ہنگم ٹریفک میں اوجھل ہو چکی تھی اور چاچا شکور صورِ اسرافیل حلق میں پھنسا کر مجھے کہہ رہا تھا: “کاکا چھیتی کر، اپنی جلیبی پھڑ.”۔

ان دنوں میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا. چڑھتی جوانی کا یہ عالم تھا کہ رات کو سوتے ہوئے اگر اپنا پاؤں دوسرے پاؤں سے ٹکرا جاتا تو رومانس کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ ایسے میں اس نازنین کا حواس پہ سوار ہو جانا عجب میٹھے سے درد کا باعث بنا ہوا تھا. وہ عمر میں مجھ سے کچھ بڑی معلوم پڑتی تھی.مگر عشق ایسی باتوں کو کہاں خاطر میں لایا کرتا ہے.؟ ۔ بلاناغہ میں چاچے شکور سے جلیبی خریدنے پہنچ جاتا کہ مبادہ قسمت کی دیوی مہربان ہو اور وہ پھر سے دِکھ جائے مگر شاید قدرت کو میرے عشق کا امتحان مقصود تھا. میٹرک کے بعد انٹر بھی پاس کر لیا مگر اس نے نہ دِکھنا تھا نہ دِکھائی دی ۔

یونیورسٹی آمد ہوئی تو پرانا عشق بھلانے کیلئے مجرب نسخہ اپنانے کے بارے میں سوچا، یعنی دوسرا عشق. تلاش ابھی جاری تھی کہ ایک روز شعبہ فزکس کی ایک لیب کے باہر سے گزرتے ہوئے یکایک سورج ہوا مدھم، چاند جلنے لگا۔ میرا پہلا اور اس وقت تک کا واحد عشق میرے سامنے تھا. وہ لیب کے سامنے لان میں اپنی کسی سہیلی کے ساتھ بیٹھی فروٹ چاٹ کھا رہی تھی۔ بس پھر کیا تھا، میں وہیں برآمدے کے ستون کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا.۔ اتنے سالوں کے بعد اسے اپنے سامنے دیکھ کر ایمان تازہ ہو گیا تھا. وہ باتوں میں مگن تھی اور میں اسے دیکھنے میں. کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر اسی لیب میں چلی گئی اور کام میں لگ گئی۔ یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ محترمہ اسی لیب میں پائی جاتی ہیں، میں شکرانے کے نوافل ادا کرنے مسجد کی جانب چل پڑا۔

میرے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ اداسی، مسرت میں بدل گئی تھی. پنچھی پھر سے گنگنانے لگے تھے۔ ہوائیں دوبارہ سے لہلہانے لگی تھیں۔ دل کچھ سنبھلا، تو آگے کی حکمتِ عملی پر غور ہونے لگا.۔اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق وہ ایم فل کے آخری سمسٹر میں تھی اور میں بی ایس سی کے دوسرے سمسٹر میں۔ وہ میری سینئیر بلکہ مہا سینئیر تھی. بات کرنے کیلئے ہمت پڑ کر نہیں دیتی تھی. بس دور سے دیکھ کر سرد آہیں بھرنے پر معاملہ رکا ہوا تھا۔

اک روز جب شام ڈھل رہی تھی اور ذیادہ تر لوگ یونیورسٹی سے جا چکے تھے، میں یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں بیٹھا کوک اور سموسے کھا کر غم غلط کر رہا تھا.کہ ایک نسوانی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی: “آپکے پاس پین ہوگا؟”
میں نے نظر اٹھا کے دیکھا تو وہ اپنے بھرپور سراپے کیساتھ میرے سامنے کھڑی مجھ سے مخاطب تھی. میں نے مسکرا کے سر جھٹکا اور دوبارہ سے سموسوں کی پلیٹ پہ توجہ مرکوز کر دی. میرا واہمہ مجھے زلیل کرانے کے چکروں میں تھا مگر ابھی مجھ میں کچھ سمجھ باقی تھی لہٰذا میں اس فریبِ نظر میں نہ آیا. مگر یہ کیا، وہی آواز پھر سے گونجی: “کمال ہے میں آپ سے بات کررہی ہوں اور آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے.”
میں نے دیکھا تو اسکے چہرے سے خفگی عیاں تھی. یہ تو حقیقت میں میرے سامنے تھی۔ میں گڑبڑا گیا اور کوک اپنے کپڑوں پہ گرا بیٹھا۔ وہ بے اختیار ہنستی ہوئی کیفے ٹیریا سے باہر نکل گئی تو میں نشان زدہ گیلی شرٹ لئے، خود کو کوستا ہوا اٹھا اور باہر نکلا مگر وہ جا چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دن یونہی گزرتے رہے اور مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہ ہو پائی۔ اسی دوران امتحانات آن پہنچے اور ہم غمِ پڑھائی میں غرق ہوگئے۔ جس روز آخری پرچہ تھا، میں نے دل کی بات کہنے کا پختہ ارادہ کیا اور آیت الکرسی پڑھتا ہوا اسکی لیب کی جانب چل پڑا.۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لیب کے دروازے پہ قفل پڑا ہوا تھا. اس ناکامی پر دکھی دل کیساتھ واپس پلٹا اور اگلے دن قسمت آزمائی کا ارادہ کیا۔
اگلے روز راستے میں آتے ہوئے میرا موٹرسائیکل ایک رکشے سے بری طرح ٹکرا گیا۔ . میں گھسٹتا ہوا سڑک پر گر پڑا. ہوش آیا تو ہسپتال میں پڑا تھا اور بائیں پاؤں پر پلستر چڑھا ہوا تھ۔ . پوچھنے پر معلوم پڑا کہ پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اسی معذوری میں تین مہینے گزر گئے۔ جب پاؤں ٹھیک ہوا اور اگلا سیمسٹر شروع ہوا تو میں بھاگا بھاگا اسکی لیب میں گیا.۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ وہ تو فارغ التحصیل ہو کر جا چکی ہے. جگ سُونا سُونا لگنے لگا. سر پہ گویا کسی نے منوں پانی انڈیل دیا ہو. بجھے دل اور لنگڑاتے پاؤں کے ساتھ میں وہاں سے نکل آیا۔ اس کے بعد بیشتر مرتبہ اسکی لیب کے سامنے گھنٹوں کھڑا ہوکر تخیلات میں اسکی موجودگی محسوس کرتا رہتا۔ کئی مرتبہ شام ڈھلے کیفے ٹیریا میں کوک اور سموسوں سے دل بہلانے کی کوشش بھی کی، دو ایک مرتبہ تو کوک بھی اپنے کپڑوں پہ گرائی مگر بے سود.۔ اب بھی اکثر میں چاچے شکور حلوائی کی دوکان سے بلاوجہ جلیبی خریدنے چلا جاتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply