• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ غلام فریدؒ اور عظمتِ انسان(دوسرا،آخری حصہ )۔۔۔ محمد دین جوہر

خواجہ غلام فریدؒ اور عظمتِ انسان(دوسرا،آخری حصہ )۔۔۔ محمد دین جوہر

یہاں اس امر کا اعادہ کرنا شاید ضروری نہیں کہ مغرب میں عظمتِ انسانی کا ہر تصور خدا کی بالفعل نفی پر کھڑا ہے۔ شاید ہمیں یہ بھی یاد رہ گیا ہو کہ انیسویں صدی میں نطشے نے خدا کی موت کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ ہم ابھی تک اس کی معنویت سے باخبر نہ ہو سکے ہوں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ نطشے اپنے اعلامیے کی معنویت سے واقف نہ ہو۔ یونانی ہیرو تو کوئی مذہبی پس منظر نہیں رکھتا تھا، لیکن نطشے کی تہذیب عیسائیت کی وجہ سے خدا شناس تو تھی۔ نطشے اس حقیقت کا درست ادراک رکھتا تھا کہ مذہبی تصورِ خدا کے ہوتے ہوئے سپرمین کا تصور کوئی معنویت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ نطشے کا سپرمین یا فوق البشر یونانی ہیرو کا جڑواں بھائی ہے۔ دونوں عظمتِ انسان کے حامل ہیں اور ان کے نزدیک عظمتِ انسان خدا کے ملبے پر استوار ہوتی ہے۔

خواجہ صاحب کی شاعری میں عظمتِ انسان سے مراد یونانی ہیرو یا مغربی سپرمین کی طرح خدا بننا نہیں ہے، بلکہ ”آپنا آپ سنجان“ کے تحت اپنے جوہرِ انسانیت کو پا لینا اور اسے اپنی ذات میں actualize کر لینا ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں یہ جوہرِ انسانیت بندگی ہے۔ جیسا کہ شیخِ ربانی مجدد الف ثانی نے فرمایا تھا کہ ”انسان خلاصۂِ موجودات ہے“۔ یہ انسان کی کلی اور وجودی شناخت کا عرفانی ادراک ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خلقت میں ایک ایسی مخلوق ہے جو نہ صرف تمام مدارجِ وجود کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے بلکہ ان کا نمائندہ بھی ہے۔ بندگی اس ادراک کو حال بنا لینا ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار ان سارے دکھوں کا ذائقہ چکھتا ہے جو حیاتِ ارضی کا لازمہ ہیں۔ وہ انسانی رشتوں کی آبیاری سے پہلو تہی نہیں کرتا اور خوب جانتا ہے کہ ان رشتوں کی اساس تسلیم و رضا اور ایثار ہے۔ وہ اپنی ذات سے ہم آہنگ ہے، اپنے معاشرتی ماحول میں دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا اور ہم آہنگ ہے۔ وہ کائنات سے ہم آہنگ ہے، اور وہ خالق کائنات سے اصول بندگی پر جڑا ہوا اور ہم آہنگ ہے۔ اخلاقی سطح پر جو چیز ایثار ہے وہ روحانی سطح پر فنائے ذات اور بندگی ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار human condition میں رہتے ہوئے تاریخی اور وجودی جبر کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔ تاریخی اور وجودی جبر ہی کا دوسرا نام تقدیر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہیرو کے برعکس خواجہ صاحب کا انسان اس تقدیر سے تعرض کرنے اور اس سے نبھاہ کے پورے وسائل بھی فراہم رکھتا ہے۔

یورپی استعمار کے سیاسی جبر کی کوکھ سے پیدا ہونے والے استشراقی علم میں ایک بات خاص تھی کہ محکوم انسان اظہارِ ذات کی بنیادی لیاقت سے عاری ہے کیونکہ اس کے پاس اظہار کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ ذات، نہ مقام، نہ تاریخ۔ پورا استشراقی علم، استعماری حاکم کی شرائط پر محکوم انسان کے لیے بنایا جانے والا علم ہے، جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ:

The colonized man is unable to re-present himself because he has nothing to represent.

یہ علم کیا تھا، راتب ہی تھا اور استعماری جبر سے مل کر اس نے مقامی اور محکوم انسان کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا، نہ ذات، نہ مقامیت، نہ کلچر، نہ تہذیب۔ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں کہ استشراقی علم کی بنیادی منہج appropriation یعنی کھسوٹ ہے۔ اس میں محکوم انسان نہ صرف اپنی تمام چیزوں کی معنویت کے لیے استشراق کا دریوزہ گر ہے، بلکہ وہ اپنی سیلف سے آگہی کے لیے بھی استشراق پر متوسل ہے۔ جب تک استعمار کے جبڑے کچھ ڈھیلے پڑے تب تک ہماری تہذیب کے ساتھ ساتھ اس کے سارے فکری اور جمالیاتی تناظر بھی گم ہو چکے تھے۔ مغرب نے اپنی تہذیب کی آفاقیت کے جو راگ الاپے ان کا ایک مقصد ہماری تہذیبی آفاقیت کی نفی تو یقیناً تھا ہی، لیکن دوسرا اہم مقصد ہماری تہذیب کی بوقلموں مقامیت کی تحقیر اور اسے لایعنی قرار دینا بھی تھا۔ مقامیت کے جدید سیاسی اور ثقافتی تصورات جغرافیے اور کلچر کے اقتصاری تصورات پر اساس رکھتے ہیں، اور مقامی ثقافتی تجربے کو تہذیبی شعور پر غلبہ دینے کی مہلک تزویرات سے عبارت ہیں۔ ہر جغرافیہ محض ایک کشکول ہے جو تاریخ سے عدل کی، فطرت سے فراوانی کی اور نظام افکار سے اپنی شناخت کی بھیک مانگتا ہے۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے شاعر کی تحسین کا پیمانہ علاقائی یا عالمی نہیں ہوتا۔ ہر بڑے شاعر کی سیر انفس و آفاق تہذیب کی کائنات کے اندر رہتے ہوئے سرانجام پاتی ہے اور اس سیر کے مقامات اور سنگ ہائے میل اسی تہذیب سے فراہم ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری اپنے آپ میں اتنی ہی آفاقی ہے جتنی کہ رومیؒ کی شاعری ہے، اور اتنی ہی مقامی ہے جتنی نظیر اکبر آبادی کی ہے۔ اس شاعری کی کل معنویت اسی تہذیب اور اس کی شعریات سے متعین ہو گی جس کی یہ خبر لاتی ہے۔

خواجہ صاحب کی شاعری میں حسنِ فطرت اور محبوب کے پیکرات کی فراوانی ہے۔ اسی طرح برہوں کے رنج و محن اور تھل بیلے، دشت اور سنگلاخ پہاڑوں کی سفاکی بھی ہمقدم ہے۔ محبوب کی مشاطگی، حلیہ آرائی اور بدن کی نازکی اس کے حسن کی کاٹ کو دوچند کر دیتی ہے۔ جمال یار ہر گھڑی نظر میں ہے۔ اس کے ساتھ ان کی شاعری میں زہد یعنی دنیا سے لاتعلقی اور اللہ سے لو لگانے کا مضمون بھی طاقتور اظہارات رکھتا ہے۔ ہجر کی ناصبوری و خوں افشانی میں محبوب کے وصل کا شدید داعیہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اور خواجہ صاحب کی شاعری میں وحدت الوجود کی گونج صور اسرافیل کی ہم زباں اور ہم آواز ہو کر ’’کل شیء ھالک‘‘ کا اعلان کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں بدن سے زہد کی نفی ہوتی ہو، اور محبوب سے ملنے کی تڑپ اللہ سے تعلق کو کمزور کر دیتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی نادان یہ اعتراض بھی کر بیٹھے کہ میہندی، مساگ اور بدن کی خوشبوؤں میں وحدت الوجود محض زیبِ داستان کے لیے ہے۔ بینائی کی کمزوری، اظہار کی منہ زوری اور نظریے کی سینہ زوری خواجہ صاحب کی شاعری کے ایسے ہی پہلوؤں کو اپنا ایندھن بنا سکتی ہے۔ لیکن ان سب اور بظاہر ان مل بے جوڑ پہلوؤں کو یہاں مذکور کرنے کا مقصد خواجہ صاحب کی شعری عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ بڑے شاعر کی طرح، خواجہ صاحب بھی ہر درجہ وجود کے تجربے کو اپنی شاعری میں سمو دیتے ہیں۔ ان کا تخیل مساگ، بولے، بینسر سے وحدت الوجود تک کو سمیٹے ہوئے ہے، اور اس کی پہنائی تحت الثرا سے سدرۃ المنتہی تک ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری پورے انسان کی شاعری ہے، ایسے انسان کی جو خلاصہ موجودات ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری میں جسم بھی ہے، جند جان بھی ہے، جی بھی ہے، جہان بھی ہے، اور جہان والا بھی ہے۔ جسم انسان کی ہستی کا تہہ خانہ ہے۔ بڑا شاعر وہی ہے جو سیر انفس اور سیر آفاق میں اپنے خاکی الاصل ہونے کو فراموش نہ کر دے۔ خواجہ صاحب کا بیکراں تخیل اور زندہ تجربہ انسان کی ہستی اور حیات کے ہر گوشے کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

اب آخر میں خواجہ صاحب کے اپنے الفاظ میں ان کے تصور انسان سے آگہی حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ کافی نمبر 76 کے تیسرے شعر میں فرماتے ہیں۔

عرش وی تیرا فرش وی تیرا

توں عالی اَن مُل

اس شعر میں ’’عالی‘‘ کے لفظ سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ خواجہ صاحب بھی عظمت انسان کی بات کر رہے ہیں۔ عظمت انسان تاریخ میں ظاہر ہوتی ہے جبکہ خواجہ صاحب جس علویت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں وہ مراتب وجود کا خاصہ ہے۔ عرش و فرش کے سنگ میل ’’احسن تقویم‘‘ کی شاہراہ پر آتے ہیں جہاں خواجہ صاحب محو سفر ہیں۔ جب انسان بندگی میں آئینۂ وجود بن جائے، تو وہ عالی بھی ہے اور ان مُل بھی ہے۔ اس کو ایک اور زاویے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ مومن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ اس حدیث مبارکہ سے استنباط اور علمی مفاد یہ ہے کہ مومن ایک ایسے انسان کا نام ہے جو اپنی ذات میں علامت بن جائے۔ اور علامت اس لفط یا چیز کو کہتے ہیں جس کا ہونا اپنے لیے نہ ہو بلکہ کسی اور کے لیے ہو کیونکہ علامت کسی دوسرے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس شخص کو دیکھ کر اللہ یاد آ جائے، وہ اللہ کے ہونے کی گواہی اور علامت بن گیا۔ یہی شرفِ انسان ہے اور یہی انسان کی علویت ہے۔ یعنی جب تو اس کا ہو گیا جس کے لیے تجھے خلق کیا گیا ہے، تو یہ کون و مکاں سب تیرے ہو گئے۔

خواجہ صاحب اسی کافی کے پہلے شعر میں فرماتے ہیں۔

کیوں توں فرد تے جزو سڈاویں

توں کلی توں کل

اس شعر میں خواجہ صاحب کا ارشاد ہے کہ انسان کو منطق کی اصطلاحوں میں ’’فرد‘‘ اور ’’جزو‘‘ قرار دے کر نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ وہ ایک ایسا ’’کلی‘‘ ہے جو جزو کی پوری معنویت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ خواجہ صاحب نے انسان کو کلی فرمایا ہے، اور اس تصور کو واجب الوجود کے عقلی اور نظری تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی خواجہ صاحب انسان کو ’’کل‘‘ بھی فرما رہے ہیں اور یہ وحدت الوجود کا تناظر ہے۔ اس شعر میں خواجہ صاحب نے اپنے روایتی عقلی اور عرفانی تناظر میں رہتے ہوئے انسان کی تعیین کی ہے۔ ”کلی“ ان کے تصور انسان کی آفاقیت کی طرف اشارہ ہے جبکہ ”کل“ یعنی انسان کا microcosm ہونا ان کے عرفانی تناظر کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ شعر ایک طرف سہل ممتنع اور قادر الکلامی کی اعلیٰ مثال ہے اور دوسری طرف ان کے تعقلاتی اور عرفانی تخیل کی قوت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ انسان نہیں جو تاریخی عظمت کی تلاش میں سرگرداں ہو، بلکہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو پوری کائنات کا معنی ہے۔ اور اس کے بغیر کائنات کی معنویت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

اسی کافی میں خواجہ صاحب فرماتے ہیں:

روح، مثال، شہادت توں ہیں

سمجھ، سنجان نہ بھُل

اس شعر میں خواجہ صاحب اپنے مخاطب کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو، کائنات کو اور دنیا کو دیکھنے کا ایک جامع تناظر رکھتا ہے، اور اس کے ہر تصور اور عمل کی معنویت اسی سے کشید ہوتی ہے۔ اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تناظر اصلاً مذہبی اور بعدہ تہذیبی ہے۔ خواجہ صاحب اس امر کی تاکیدِ اکید فرماتے ہیں کہ باطن اور ظاہر کو دیکھنے کا یہ تناظر ہر لمحہ مستحضر رہنا چاہیے۔ ”سمجھ“ انسانی شعور کی ایک داخلی سرگرمی ہے۔ فلسفیانہ مباحث میں جس چیز کو understanding کہتے وہ اس سے قطعی مختلف چیز ہے۔ جدید فلسفیانہ مباحث میں understanding کلام کے ایسے محاصر کا نام ہے جس میں وہ اپنے ہر الوہی معنی سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں سمجھ، انسانی شعور کا عرفانی تناظر ہے، جبکہ ”سنجان“ ہستی اور کائنات کو دیکھنے کا وجودی تناظر ہے۔ سمجھ شعور کی داخلی حرکت ہے اور سنجان اسی شعور کی خارجی حرکت ہے۔ خواجہ صاحب نے اس شعر میں شعور اور وجود کو جمع کر کے عرفانی تناظر کو مکمل کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ انسان، کائنات اور خالق کائنات میں قائم مراتب وجود میں خلط مبحث اپنے آپ سے دست برداری ہے۔ عالم جبروت، عالم مثال اور عالم شہود، سب انسان میں جمع ہیں۔ ”نفخت فیہ من روحی“ سے معلوم ہوا کہ نور خداوندی اور حیات ابدی انسان کی خلقت میں گندھی ہوئی ہے۔ ”مثال“ سے مراد وہ عالم ہے جو تنزلات اور تعینات وجود کا مرحلہ ہے۔ شہادت وہ عالم ہے جس میں رہتے ہوئے انسان نے ’’حبل متین‘‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے اور آئینہ وجود بن جانے میں بامراد ہونا ہے۔ خواجہ صاحب کی تاکید یہ ہے کہ انسان کہیں ’’بھل‘‘ کا مرتکب نہ ہو جائے کیونکہ یہ بھولنا اپنے آپ کو بھولنا ہے، اور اپنے آپ کو بھولنا اپنے خدا کو بھولنا ہے اور یہی انسان ہونے سے دست برداری ہے۔ اگر خالقِ کل انسان کی نگاہ میں رہے، تو انسان آئینہ وجود بن کر ہر گھڑی خالق کی نگاہ میں رہتا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply