سیاسی بحث اور ہمارا مجموعی رویہ۔۔۔۔محمد منیب خان

ہم کہاں سے چلے تھے اور ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ میں روشنی میں، شدید روشنی میں چندھائی آنکھوں سے اپنے وجود کو ٹٹول رہا ہوں۔میرا یقین کبھی گمان بنتا ہے اور کبھی میرا وہم تیقن کے ساتھ میری سوچ کو ڈھانپ لیتا ہے۔ پھرمیں بحث کرتا ہوں اور بحث جیت جاتا ہوں۔ میری زندگی بحث بن چکی ہیں۔ بحیثیت قوم ہماری زندگیاں بحث بن چکی ہیں۔ بحث، اپنے دائرے سے باہر کی بحث۔ بحث اپنی دسترس سے باہر کی بحث۔ بحث شدت اختیار کرتی ہے تو لوگ روٹھ جاتے ہیں دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ کوئی بھی بحث ہارنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ کے بحث میں ہار جیت نہیں ہوتی۔ بحث میں دلیل ہے۔ دلیل سوچ کو کھولتی ہے۔ فکر کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ لیکن ہم کس بحث میں مبتلا ہیں؟ ہم کج بحثی میں مبتلا ہیں۔ ہم ان دائروں کی بحث میں مبتلا ہیں جن کے مدار کو چھونے تک کی آزادی نہیں۔ ہاں ہم سیاسی بحث کرتے ہیں۔ حالانکہ سیاست کوئی علم نہیں۔ کیا کسی نے ادب، فلسفہ، منطق یا علم کلام پہ کوئی بحث کی؟ لیکن یہ بحث ہی کیوں آخر؟ آخر مکالمہ کیوں نہیں۔ بائیس کڑوڑ آبادی کے سوشل میڈیا پہ صرف سیاست سیاست اور سیاست؟ کیا ہم کسی اور موضوع بارے بات کرنے کے لیے بانجھ ہو چکے ہیں؟ نہیں ہم بانجھ نہیں ہیں لیکن بنیادی طور پہ ہم حظ اٹھانے والے لوگ ہیں سو زیادہ مزا سیاسی کلام میں ہے بلکہ بد کلامی میں ہے۔ اس مزے سے ایسی بدمزگی جنم لے رہی ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ سنجیدہ لوگوں کو انتہائی غیر سنجیدہ انداز اپناتے دیکھا  جا سکتا ہے۔ اور سب کے پاس اپنے لیے جواز موجود تھا۔

ہم جواز تراش رہے ہیں۔ حالانکہ اس بات کا بھی جواز تراشا جا رہا ہے جو قابل جواز نہیں۔ جب شیطان اپنے خالق سے منہ پھیرنے کا جواز تراش سکتا ہے تو وہ قابلیت ہمیں بھی ودیعت ہو چکی ہے۔ اس لیے ہم بھی اس دوڑ میں آگے سے آگے نکل رہے ہیں۔ غیر سنجیدہ انداز سنجیدہ نتائج کیسے دے سکتا ہے؟ سنجیدگی بھی سب کی مختلف ہے۔ حیرت ہے لوگ جو خود پانچ سال کرتے رہے اب دوسرے وہی بات کرتے ہیں تو غیر سنجیدگی کا، غیر ذمہ داری کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اپنی ماضی کی اداؤں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کیا صرف محبوب کی ادا ہی اداء دلبری ہوتی ہے باقی سب کی وہی ادا بری لگتی ہے؟ ہمارا واحد کام دوسرے کو جھٹلانا ہے۔ اور ہم اس کام میں بہت مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور اسی میں ہی ترقی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا ہم یہ ارادہ ترک کر سکتے ہیں؟ ہم دوسرے کو چاروں شانےچت کرنے کے، اس کو جھٹلانے کے سوا اس کو تسلیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکال سکتے؟ ہم متششد فکر پہ رواں دواں ہیں ۔ ہمارے بڑے اس فکر کی آبیاری بڑی خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ کون سے بڑے؟ وہی بڑے جو ہر وقت بڑی سکرینوں پہ براجمان رہتے ہیں۔ پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا تھا یقیناً ہوتا تھا لیکن میڈیا اور کیمرہ غیر حاضر تھے لہذا نفرت کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچنے کے لیے بہت سے وسائل اور ذریعے چاہیے ہوتے تھے پھر کہیں جا کر کچھ ٹوٹی پھوٹی نفرت دوسرے تک پہنچتی تھی۔ اب ہر ایک کے ہاتھ میں نفرت ٹرانسفر کرنے کا آلہ موجود ہے۔ آن کی آن میں کسی کو دھتکار دو گالی دے دو کسی سے نفرت کا اظہار کر دو۔

المیہ یہ ہے کہ صاحب رائے لوگ بھی اس سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ بدگمانی اس قدر پیدا کر دی گئی کہ کوئی کسی کی کسی بات کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ بد گمانی، وہم اور شک شخصیت کے لیے کسی مرض سے کم نہیں۔ اور اب ہم بحیثیت مجموعی ان امراض کا شکار ہو چکے ہیں اور مرض اس شدت کا ہے کہ خادم بدہن ہم اس سے آسانی سے شفایاب نہیں ہوں گے۔ ہمیں مرض کا بھرپور ادارک بھی نہیں ہے۔ ہمارا ادارک واحد ہماری سیاسی بصیرت بن چکا ہے اور اس بصیرت پہ ہم ہر کسی کو جھٹلانے کو تیار ہیں۔  شاید ہم خود سے بھی بدگمان ہو چکے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

کون سنجیدگی سے ان امراض سے چھٹکارا پانا چاہے گا۔ نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ ہمزاد۔۔۔۔ہاں شاید میں خود ہی اس بدگمانی سے چھٹکارا پانا نہیں چاہتا تو کوئی دوسرا کیوں چاہے گا۔ یہ شک اور بدگمانی اب ہماری شخصیات کا حصہ بن چکا ہے اور ان امراض کے نتائج کے طور پہ اب ہم سب یہی سمجھتے ہیں کہ آنے والے حاکم کی ہر بات سچی اور پچھلوں حاکموں کی نمازیں اور حج بھی جھوٹے۔ لیکن یہ کہتے ہوئے ہم خود سچے ہو جاتے ہیں۔کیا کسی دوسرے کا جھوٹ ہمارا سچ بن سکتا ہے یا کسی دوسرے کا سچ ہمارا جھوٹ بن سکتا ہے؟ 

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply