جیل اصلاحات اور نئی حکومت ۔۔۔۔۔محمد اشفاق

پرندوں کو قفس سے رہائی دلانا بہت پیاری نیکی ہے۔ بدقسمتی سے اس نیکی کو چند لوگوں نے کاروبار کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ بہت سے لوگ کسی خوشی کی آس میں یا کوئی خوشی پا کر پرندوں کو رہائی دلوانا نیکی یا شگون سمجھتے تھے۔ جب بھی یہ منظر دیکھا، عجیب سا اطمینان اور خوشی محسوس کی۔ مگر آخری مرتبہ مون مارکیٹ کے پارکنگ پلازہ کے ساتھ بیٹھے ایسے ہی ایک صیاد کو آزاد کردہ پرندے دوبارہ پکڑ کر پنجروں میں ڈالتے دیکھا تو بے حد کوفت ہوئی، جس کا اظہار بھی کیا۔

قیدیوں کو رہائی دلانا تو اس سے بھی بڑی اور پیاری نیکی ہے۔ میاں نواز شریف جب جیل گئے تو چند روز بعد خبر آئی کہ انہوں نے قیدیوں کے جرمانہ وغیرہ ادا کر کے انہیں رہائی دلانے کا نیک ارادہ کیا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ میرے دل میں کسی معاملے سے متعلق پہلا خیال اکثر نیک آتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہوا مگر اگلا خیال یہ آیا کہ ہماری کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے تین مرتبہ کے وزیراعظم کو قیدیوں کی حالت زار کا تب خیال آیا جب وہ خود جیل گیا۔ وہ “خیرات لگی بٹنے” والا محاورہ بھی یاد آیا۔ چلیں دیر ہی سے سہی، خیال آ تو گیا-

کیا ہی اچھا ہو کہ موجودہ وزیراعظم اپنے نئے پاکستان میں جو پہلے چند قدم رکھیں ان میں ہماری جیلوں میں قید ہزاروں پاکستانیوں کی رہائی جیسی نیکی بھی شامل ہو۔

ورلڈ پرزن بریف کے مطابق پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی کل تعداد 83,718 ہے- اس کا 1.8 فیصد یعنی پندرہ سو کے لگ بھگ خواتین قیدی ہیں جبکہ تقریباً اتنی ہی یعنی 1.7 فیصد تعداد کم عمر، نابالغ قیدیوں کی ہے- سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ 69.1 فیصد یعنی 57,849 قیدی ایسے ہیں، جن کے ابھی مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا، اور جو زیرحراست ہیں یعنی جن پہ ابھی مقدمے بنے ہی نہیں۔

ہماری جیلوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گنجائش صرف پچاس ہزار قیدیوں کی ہے جبکہ تراسی ہزار افراد جیلوں میں ٹھنسے پڑے ہیں۔ اس ایک مسئلے سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ کرپشن ہے- اڈیالہ جیل میں سنا ہے کہ صرف مار یا مشقت سے بچنے کی فیس پانچ ہزار ماہانہ ہے- اس سے اوپر سہولیات درکار ہوں تو ان کے بھی ریٹ طے ہیں جو کہ سہولت کی نوعیت کے حساب سے چند ہزار سے چند لاکھ تک ہو سکتے ہیں۔ دو تین سال قبل مجھے قتل کے مقدمے میں جیل کاٹتے ایک قیدی سے سکائپ پر ہمکلام ہونے کا اتفاق ہوا تھا۔ جو سہولیات جیل میں نواز شریف کو تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد مل رہی ہیں، وہی سب اور ان سے زیادہ ماہانہ پچیس تیس لاکھ پر کئی اور قیدی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو قیدی دس ہزار کی چوری کر کے جیل جاتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ باہر نکل کر اگر پھر چوری ہی کرنی ہے تو لاکھوں کی کرے تاکہ پھر جیل کاٹنی بھی پڑے تو قدرے آسانی ہو۔ جیل کے اندر سے گینگز بھی چل رہے اور لاکھوں کے کاروبار بھی۔ بعض بااثر افراد نے حفاظت کیلئے جیل سے قتل کے قیدی کرائے پہ حاصل کر رکھے۔ بعض باہر جان کو خطرہ ہونے پر خود قید میں چلے جاتے ہیں اور فور سٹار سہولیات کے مزے اڑاتے ہیں۔ یوں جیلیں جرائم کے سدباب کے ادارہ کی بجائے جرائم کی یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

یہ سب چند دنوں میں ٹھیک ہونے والا نہیں۔ جیلیں ویسے بھی صوبائی معاملہ ہیں اور وفاقی حکومت پر ان کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ تاہم صدرمملکت کو قیدیوں کی سزائیں اور جرمانے معاف کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے- اس اختیار کا مثبت استعمال کرنے کی چند سادہ اور آسان تجاویز پیش کر رہا ہوں، جو صرف ایک انتظامی حکمنامے کی محتاج ہیں اور بیشتر پر کچھ خرچ بھی نہیں آتا۔

1- یہ جو تین ہزار کے لگ بھگ بچے اور خواتین ہیں، سنگین جرائم میں سزایافتہ کو چھوڑ کر باقی سب کو فی الفور رہا کر دیا جائے۔

2- ان ستاون ہزار انڈر ٹرائل قیدیوں میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو بیس پچیس ہزار روپے ضمانت جمع نہ کروا سکنے کی وجہ سے قید ہیں۔ ایک لاکھ تک زرضمانت کو شخصی ضمانت میں بدل کر ان سب کو آزاد کر دیا جائے۔

3- قیدیوں کی سزا میں اچھے چال چلن، تعلیم یا پیداواری سرگرمیوں میں شرکت اور وقتاً فوقتاً صدرمملکت کی جانب سے سزاؤں میں تخفیف کی وجہ سے اچھی خاصی کمی ہو جاتی ہے- بالعموم سات سال قید والا ساڑھے تین چار سال میں بھی چھوٹ سکتا ہے۔ یہی فارمولا انڈر ٹرائل قیدیوں پر یوں لاگو کیا جائے کہ جس کے جرم کی ممکنہ سزا بالفرض سات سال ہے، اگر اس کا مقدمہ تین سال سے چل رہا ہے تو اسے باعزت بری کر دیا جائے۔

4- جو قیدی ایسے جرائم کے مقدموں میں انڈرٹرائل ہیں، جن کی سزا پانچ سال سے کم ہے اور یہ ان کا پہلا جرم ہے، ان کے خلاف بھی مقدمات خارج کر کے انہیں باعزت زندگی گزارنے کا ایک اور موقع دیا جائے۔

5- اب آتے ہیں سزایافتہ قیدیوں کی طرف۔ ساٹھ سال ہمارے ہاں ریٹائرمنٹ اور اللہ اللہ کرنے کی عمر ہوتی ہے- جرم خواہ کچھ بھی رہا ہو، جو قیدی ساٹھ سال یا اوپر کے ہیں ان سب کو فوری معاف کر دیا جائے۔ ایک ساٹھ سالہ شخص معاشرے کا آخر کیا بگاڑ لے گا؟ اس کی جو باقی ماندہ سانسیں ہیں، وہ اسے آزاد فضاؤں میں جی لینے دیں۔ اسی طرح جسمانی معذوری کا شکار یا کسی لمبی بیماری میں مبتلا افراد کو بھی معاف کر دیا جائے۔

6- جو قیدی سزا کا پچاس فیصد مکمل کر چکے اور یہ ان کا پہلا جرم تھا، انہیں بھی معاف کر دیا جائے۔

7- جس طرح بہت سے افراد ضمانت کے چند ہزار نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں، ویسے ہی ہزاروں جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے قید کاٹنے پر مجبور ہیں۔ صرف ایک مرتبہ کیلئے پانچ لاکھ تک جرمانہ معاف کر دیا جائے اور آئندہ کیلئے بعد میں کوئی میکانزم ایسا بنا دیا جائے جو نادار قیدیوں کے جرمانے ریاست پہ بوجھ ڈالے بغیر ادا کر سکے۔
8- جن سزایافتہ قیدیوں کی سزا پانچ سال سے کم ہے، قطع نظر کہ اس میں سے کتنی ابھی باقی ہے، ان سب کو معاف کر دیا جائے۔

یہ آٹھوں نکات ایسے ہیں جن پر فوری عملدرامد ممکن ہے، خرچہ کوئی خاص نہیں اور شاید ہی کسی کو کوئی اعتراض ہو۔ اور ان سے میرا اندازہ ہے کہ پچاس ہزار تک قیدی رہا ہو سکتے ہیں۔ پچاس ہزار قید پنچھیوں کی رہائی سے حکومت پچاس ہزار خاندانوں کی زندگی میں خوشیاں لوٹا سکتی ہے- باقیماندہ تیس پینتیس ہزار قیدیوں کیلئے بہتر اور مساوی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنا سکتی ہے۔ اور جیل مافیا کی کرپشن اور لوٹ مار بہت حد تک کم کر سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش خان صاحب یہ کر گزریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply