چشمہ۔۔سلیم مرزا

جب آنکھیں جلنے لگیں تب ڈھونڈنا شروع کیا ۔آخر وہ پٹھان نظر آ ہی گیا جو لکڑی کے فریم پہ دھوپ کے چشمے سکھا رہا تھا ۔
ایک شیشے جیسی چمکتی عینک کا پوچھا “کتنے کی ہے “؟
“دوسو کی “پٹھان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ اسے میرے دل سے بھی سستا بیچ دے گا
میرا بھاؤ تاؤ کرنے کا موڈ تھا مگر سورج جلتی ہوئی پیشانی پہ ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔
“یہ کتنے کا ہے “میں نے “رے بین “کی طرف اشارہ کیا جو مجھے کالی کالی آنکھوں دیکھ رہا تھا
“یہ پرانا ہے، بیچنے کیلئے نہیں ہے ”
“کیوں ” میں نے پسینے ملی حیرت سے پوچھا
“دودن پہلے کوئی جلدی میں نیا لے گیا، اسے بھول گیا “پٹھان نے وضاحت کی تو مجھے بچت سوجھی ۔
“چلو کوئی بات نہیں، میں کہیں اور سے دیکھ لیتا ہوں ۔مجھے یہی اچھا لگا تھا “اتنا کہہ کر میں چلنے لگا تو پٹھان کی دکانداری جاگ اٹھی ۔
“چلو دوسو روپیہ دو، لے جاؤ ”
“دو سو بہت زیادہ ہیں ، سو روپیہ ،ویسے بھی یہ پرانا ہے “میں نے جانے والی پوزیشن برقرار رکھی ۔
آخرکار بنا کسی مزید بحث کے سرکاری اثاثوں کی طرح “رے بین “میرا ہوگیا ۔
میں نے پہنا تو آنکھوں کی جلن کم ہوگئی، دھوپ اچھی لگنے لگی ہر رنگ نکھر گیا ۔
سامنے سے آتی خاتون کا والٹ سکن کلر کا تھا ۔شیشے میں خود کو دیکھا تو لگا جیسے انگریزی فلموں کا اسپینش ہیرو ہوں ۔
“اے کوئی چن چڑھائے گا “سورج نے جل کر سوچا تو میں بس پہ چڑھ گیا ۔۔۔
اسلام آباد پہنچا تو رات ہوچکی تھی ۔ٹیکسی میں بیٹھ کر چشمہ اتارا ۔اور ڈرائیور کو گھور کر دیکھا ، وہ مجھے غور سے دیکھ ریا تھا ،چشمہ فولڈ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسے اکڑ کر فولڈ ہوا جیسے سعیدسادھو ،خالد ندیم شانی کو جپھی ڈال کر آیا ہو ۔
فولڈ ہوکر بھی جیب میں نہ سمایا ۔تو سامنے ڈیش بورڈ پہ رکھ دیا ۔
اب سوال تھا کہ فضل گیلانی کہاں ٹھہرا ہوگا؟
ویسے بھی فضل گیلانی ٹھہرتا کہاں ہے؟
فون کیا ۔کہنے لگا “اکیڈمی آجاؤ ”
عینک لگائے اکیڈمی پہنچا تو کمرے میں اتنے سارے لوگ تھے کہ کمرہ حبس بے جا کا کیس کرنے کے موڈ میں تھا۔
اتنے لوگوں کی موجودگی میں فضل گیلانی بالکل اضافی لگ رہا تھا ۔
سب نے میری عینک کا بغور جائزہ لیا، پھر میں نے عینک اتار کر ایک ایک کو دیکھا ۔
یہ دکھاوا ابھی کچھ اور چلتا کہ سعید سادھو امداد آکاش کے ساتھ آگئے ۔کرونائی گرمی میں حکومتی پابندیوں کے باوجود امداد آکاش کو پہلے ماسک کے ساتھ اور پھر ماسک اتروا کر جپھیاں ڈالی گئیں ۔
وہاں بیٹھنے کو دو کرسیاں تھیں چنانچہ سارے بیڈ پہ ایسے چڑھ کے بیٹھ گئے جیسے عیالدار سیلاب میں چھت پہ چڑھ بیٹھتے ہیں ۔لیٹا کوئی نہیں ۔حفیظ اللہ بادل آگیا تو اچانک سبھی ترچھے ترچھے لیٹ گئے ۔۔
حفیِظ اللہ بادل نے آتے ہی چشمے کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کیا تو میں نے نظر بچا کر اسے فریج کے اوپر رکھ دیا ۔ وہاں بھی چشمے کو حفیظ اللہ جن نظروں سے دیکھ رہا تھا مجھ سے دیکھا نہیں جارہا تھا ۔ساری رات دھماچوکڑی مچی، دن بھر کا تھکا چشمہ اس وقت سویا جس وقت اسلام آباد کے لوگ کام کاج پہ نہیں چلے گئے ۔
صبح گیارہ بجے اٹھ کر دیکھا تو فضل گیلانی سعید سادھو اور حفیظ غائب تھے ۔دل دھک سے رہ گیا ۔فوراً عینک کی طرف دھیان گیا ۔
شکر ہے، چشمہ موجود تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply