اذان اور ہماری روایتی شور پسندی۔۔۔ مفتی امجد عباس

مفتی امجد عباس
عام طور پر ہم شور پسند ہیں۔ ہمارے روایتی میلوں، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر بلند آواز سے لاؤڈ سپیکر کا استعمال عام ہے۔ ہمارے معاشرے میں روز مرہ گفتگو بھی ایک حد تک بلند آواز میں کی جاتی ہے۔ بسوں، گاڑیوں اور پبلک مقامات پر ہماری بات چیت بھی اِسی انداز میں ہوتی ہے۔ ہماری عبادات کی رُسوم اور مذہبی پروگراموں میں بھی لاؤڈ سپیکر کا بے جا استعمال ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔بلند آواز سے شور پیدا ہوتا ہے، شور انتہائی خطرناک ہے۔ مریضوں، بچوں اور جانوروں کو اِس سے شدید نقصان پہنچتا ہے۔ انسانی ذہنی یک سوئی اور سکون کو یہ تباہ و برباد کر دیتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی مذہبی رسوم و عبادات میں بھی روایتی شور پسندی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر صرف “اذانؔ کا تذکرہ کرتا ہوں۔

عربی زبان میں کلمہ “اذان” کا معنی اطلاع دینا، خبردار کرنا اور اعلان کرنا ہیں۔ جبکہ اصطلاحی طور پر نماز کی طرف پُکار کو اذان کہا جاتا ہے، جس کے مخصوص کلمات ہیں۔ “اذان” کا بنیادی مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا ہے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے، نماز پڑھ لیجیے۔ نماز مخصوص اوقات میں ادا کی جانے والی عبادت ہے، پہلے زمانوں میں وقت کا تعین مشکل کام تھا، ایسے میں لوگ اذان دینے والے کی اذان کے منتظر رہتے۔ اب جبکہ اذان کے اوقات سبھی کو معلوم ہیں، گھڑی کا استعمال بھی عام ہے، اب تو موبائل فونز میں بھی گھڑی موجود ہوا کرتی ہے۔ پہلے ایک علاقے، محلے میں صرف ایک مسجد ہوا کرتی تھے، اب مارکیٹوں، محلوں اور گلیوں میں بھی کئی کئی مساجد بن چکی ہیں جن پر بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر نصب ہیں۔لاؤڈ سپیکر ہمارے ہاں انگریز لائے تو علماء نے بدعت اور شیطانی آلہ کہا، اذان اور عبادات کے لیے اِس کے استعمال کی مخالفت کی۔ اب یہ مساجد کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں۔ آج کل مساجد میں اِن کا استعمال صرف اور صرف اذان یا جمعہ و عید کے عربی خطبوں تک ہی محدود ہو چکا ہے۔ ایسے میں ذمہ دار علماء و مفتی صاحبان کو اس اذیت ناک آلے کے بے جا استعمال پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اب وقت ہوچکا، اگر ایک محلے میں، ایک علاقے میں ایک مسجد سے اذان نشر کی جائے تو یہی کافی ہوگی۔ دیگر مساجد سے لاؤڈ سپیکر کی بجائے اذان دینے کے طریقے کو رائج کرنا چاہیے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر ایک مسجد سے اذان آ چکی تو جہاں جہاں اُس کو سُنا جارہا ہے وہاں الگ سے اذان کی احتیاج ہے بھی یا نہیں، کیونکہ مقصد تو حاصل ہوچکا، چلیے اگر الگ سے اذان دینا اچھا عمل ہے تو لاؤڈ سپیکر کے بغیر دیجیے۔ مسجد کی حد تک ساؤنڈ سسٹم کا اہتمام کر کے اُس میں اذان دی جا سکتی ہے۔سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، مارکیٹوں اور رہائشی محلوں میں موجود مساجد میں، نماز کا وقت ہوتے ہی، اذانوں کی آوازیں شروع ہوجاتی ہیں، جو عام طور پر ایک گھنٹہ تک جاری رہتی ہیں۔ ذمہ دار اسلامی ممالک میں اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کہیں نظر نہیں آتا۔علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو اِس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ صوتی آلودگی کو کم کرنے میں ہم کیا اقدامات کر سکتے ہیں، خاص کر مذہبی رسوم و عبادات کی ادائیگی میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال کِس حد تک ضروری ہے اور اِس سے کیسے بچا جائے۔اگر ایک محلے، علاقے، جگہ پر اذان کی آواز صحیح سنائی دے رہی ہو، لوگ نماز کے وقت کی طرف متوجہ بھی ہو چکے ہوں تو ایسے میں الگ سے اذان کہنے کا کیا حکم ہے، خاص کر لاؤڈ سپیکر پر اذان کہنا۔ نیز سکولوں اور ہسپتالوں کے گرد موجود مساجد میں سپیکر کا استعمال کس حد تک لازم ہے اِس پر بھی غور کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احادیث میں مذکور ہے کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ ہمیں بحیثیتِ مسلمان ہونے کے، ساری کائنات کے لیے زیادہ فائدہ مند ہونا چاہیے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عالمین کے لیے رحمت ہیں تو اُمتی کو کائنات کے لیے فائدہ بخش ہونا چاہیے۔
نوٹ: علماء کرام و مفتی صاحبان سے رہنمائی درکار ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply