مسئلہ کبھی بھی کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ تو ہماری من الحیث القوم گراوٹ کا ہے۔ ہمارا ذہنی لیول ہی ایسا ہے کہ بیہودگی، لچڑ پن، جگتیں، ٹھمکے، اول فول ہی پسند کیا جاتا ہے۔ ٹک ٹاک پر بدقسمتی سے بھرمار تھی۔ ٹیلنٹ اور بھانڈ پن میں فرق ہوتا ہے۔ اس قوم کی تربیت کوئی مائی کا لعل نہیں کر سکتا۔ جان کی امان پاؤں تو میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بالفرض کوئی نیا پیغمبر بھی آ جائے تو بھی یہ قوم بنی اسرائیل سے زیادہ ڈھیٹ اور جاہل ہے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے گی۔ یہ میدان حشر میں اپنی جہالت سمیت ایسے ہی پہنچیں گے۔
اس قوم کو جاہل اجڈ بڑی محنت سے بنایا گیا ہے۔ ملائیت، انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کی جانب ریاست نے ہی راغب رکھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس قوم کو جنگی جنونیت میں مبتلا رکھا وہی ان کو سوٹ کرتا تھا۔ تعلیم و تربیت کی ہی نہیں گئی۔ نصاب جعلی، نعرے جعلی، تاریخ مسخ شدہ۔
بائیس کروڑ کا ایک ہجوم ہے۔آپ یہاں عقل کی بات لکھ کر دیکھیے۔ آپ کو ایسے ایسے فتوے ملیں گے اور گالیاں بونس میں۔بس ہنسا لو، لچڑ پن کر لو، ہی ہی ہا ہا کر لو تو سب ٹھیک ہے۔ آئینہ دکھاو تو یہ آئینے پر ہی تھوکنے لگتے ہیں، اپنی شکل نہیں سنوارتے۔
یہاں کونسی ذہن سازی اور کونسی تربیت ؟ یہ ریاست کا کام ہوتا ہے اور ریاست نے تو بس ایک ہی درس دیا ہے کہ سارا کرہ ارض بشمول چاند و مریخ ہمارے خلاف سازش کرتے ہیں کیونکہ ہم بہت ہی سپر ہیومن اور اہم ہیں۔ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ ہم برصغیر کے وہ لوگ جن تک دین بھی تھرڈ ہینڈ پہنچا عربوں سے بھی زیادہ ٹھیکیدار ہیں۔
چار ہمسائے ہیں ہمارے اور پانچویں سمت سمندر لگتا ہے۔ بھارت، افغانستان اور ایران سے ہمارا رہن سہن یعنی کلچر ملتا ہے، فوڈ ملتا ہے، لباس ملتا ہے، زبانیں ملتی ہیں، عوام کا عوام سے رابطہ ہے، رشتے داریاں ہیں، مگر ہمارے ان سے تعلقات اچھے نہیں۔ چائنہ سے ہمارا ککھ نئیں ملتا مگر تعلق اچھا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا وہاں کی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق اچھا ہے۔
جو بولتا ہے وہ اٹھایا جاتا ہے۔ قوم میں سافٹ وئیر اپڈیٹ کی اصطلاح کس نے متعارف کروائی ؟ ویگو ڈالہ کس نے متعارف کروایا ؟ یہ قوم جو یہ اصطلاح ہنس ہنس کر استعمال کرتی ہے وہ گویا یہ مان چکی ہے کہ قانون و نظام کوئی شے نہیں، جو ہیں وہ بس ویگو والے ہیں۔ جو اصل کرتے دھرتے ہیں ان کا مفاد ہی یہ ہے کہ لوگ جاہل رہیں تا کہ ان کو بوقت ضرورت جیسا چاہو استعمال کر سکو۔ وہ افغان وار میں “جہاد” کا نعرہ لگا کر ہو یا تینوں ہمسائیوں کو مردہ باد کر کے۔
مین سٹریم میڈیا کی خبریں جعلی، ٹاک شوز گھسے پٹے اور پروگرامز ایک جیسی جگتوں سے سجے، سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور فتوے ، قتل و غارت، ہر شعبہ زندگی میں زوال ہے۔ المیہ تو یہ بھی ہے میڈیا ایک بے لگام بدمست گھوڑا ہے۔ اس کے سامنے جو آتا ہے وہ اس کو ٹاپوں تلے روندنا چاہتا ہے۔ ہمارے اکثر اینکرز کی کمائی ہی بولنے اور سراسر بولنے پر محیط ہے ۔۔ اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ بولنا کیا ہے بس کوئی مسئلہ پیدا تو کرنا ہے جس پر دو دن توا گرم رہ سکے اور روٹی کڑک اترے ۔۔۔
لوگوں کے بیاہ و طلاق جیسا نجی معاملہ ہو، کسی دس نمبر ٹک ٹاک فیم کو بلا کر مارننگ ٹرانسمیشن کرنی ہو، اچھل کود، ناچم ناچ، سرکس ڈانس یا پھر ٹاک شوز جن میں کسی نہ کسی کی شلوار اتارنا مشن ہو۔ مملکت خداداد پاکستان میں تو بھیا یہی کچھ ہے۔ یہی انٹرٹینمنٹ ہے۔ سارے تفریحی شوز اٹھا لیں یا تو وہ بھارتی پروگرام کا چربہ ہیں یا امریکی شوز کی کاپی ۔۔ کیا موسیقی سے متعلقہ اور کیا انعامی پروگرامز ۔۔۔ “بولتے ہاتھ” کدھر گئے ، “کسوٹی” کہاں کھو گئی ، سٹوڈیو ڈھائی ، انکل سرگم ، اور اس جیسے کئی جینون پروگرامز کا ماڈل تو آگے نہیں بڑھا سکے ۔۔
اب تو کوئی کمرشل مولوی ہو جو دین سکھائے ٹی وی پر، کوئی بے سرا ہو جو موسیقی پروگرام کا جج بن سکے ، کوئی مداری ہو جو اچھل اچھل کر خود بھی سانس پھلائے اور حاضرین کا بھی ڈسکو ڈانس کروائے۔۔ اینکر ہو کوئی جو نان سٹاپ بولنے کا فن رکھتا ہو قطع نظر اس کے کہ بولنا کیا ہے۔
آپ اگر مشہور “مرد” مصنف کا ڈرامہ دیکھ کر فارغ ہوں تو ایک مشہور ٹک ٹاکر شاعرہ کی شاعری پر سر دھنیں۔ اگر دل مائل نہ ہو سکے تو ایک لمبے کھلے بالوں والے پتلے سے صاحب کا “Daring Challange ” پروگرام دیکھ لیں جس میں وہ ذومعنی جملے بولتے اور شرکاء سے ذومعنی باتیں کرتے ہیں یا پھر “آم کھائے گا آم” والے کی پچھلی رمضان ٹرانسمیشن یوٹیوب سے نکال لیں ، وگرنہ ساحر لودھی بھائی تو ہے ہی۔ ٹاک شوز میں سب سے بڑھ کر وہ پروگرامز ہیں جو ہر چینل نے سستی جگتوں سے سجا رکھے ہیں۔
آپ ڈراموں کا مواد دیکھ لیجیئے۔ کیا چل رہا ہے ؟ آپ کیا سمجھتے ہیں اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد یا نورالہدی شاہ ڈرامہ نہیں لکھ سکتے ؟ یا شاہ جی نے ہوائیں، نجات، غلام گردش جیسے ڈراموں کے بعد اور امجد اسلام امجد نے “وارث” کے بعد یا نورالہدی شاہ نے “ماروی” کے بعد قلم توڑ دیا ہے ؟
میرا ان تینوں سے ذاتی تعلق ہے۔ اس لئے انہی کے بارے بات کی وگرنہ لکھنے والے کئی لوگ ابھی زندہ ہیں۔ ان سے کوئی کیوں لکھوائے گا اور یہ آجکل جیسے ‘گھریلو عشق معشوقیوں و ناچاکیوں و ساس بہو و حلالہ پروگرام” جیسے ڈرامے کیوں لکھیں گے ؟
آج کے دور میں وہی کچھ ہٹ ہے جو بک رہا ہے اور جو بک رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اصل میں تو موجودہ نسل کا ذہنی شعور ہی اتنا ہے جس کے لیول کو آجکل کا کانٹینٹ بخوبی پورا کر رہا ہے۔ معاشرے ترقی کرتے ہیں ادھر ہر شعبے میں ریورس گیئر لگا ہوا ہے۔
آپ یوٹیوب کو دیکھ لیں۔ وہاں وہ بندہ ہٹ ہے جو گالم گلوچ، بے سرو پا نری بکواس ، نان اسٹاپ بے لاگ بے ڈھنگے جملے بول سکے۔ یا اچھل کود کر کے دکھا دے یا ڈوپٹہ لہرا دے ۔وہی سننے، دیکھنے لوگ جاتے ہیں۔
آپ میوزک کو دیکھ لیں ، نثر کو دیکھ لیں۔ پچھلی ایک دہائی میں ایسی کتاب، ایسا ناول، ایسی شاعری نہیں آ سکی جو اردو ادب میں مدتوں یاد رکھنے کے قابل ہو ماسوائے مرزا اطہر بیگ کا ناول “غلام باغ” اور بھارت لکھنو سے انیس اشفاق کا ناول “خواب سراب” کے۔
میں سفر کرتا ہوں اور اپنے معاشرے میں اردگرد دیکھتا ہوں تو خون جلنے لگتا ہے ۔میں تو دن بہ دن اپنے اس نظریے کا قائل ہوتا جا رہا ہوں کہ خدا نے کلام پاک میں یوم الست کا ذکر فرمایا ہے کہ خدا نے دنیا بنانے سے پہلے یوم الست کو سب انسانوں کی روحوں سے عہد لیا اور پوچھا کہ بتاو تمہارا رب کون ہے ؟ ۔۔سب روحیں یک زبان ہو کر بولیں کہ بیشک تو ہی ہے ہمارا رب ۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ یوم الست کو جن روحوں نے نیم دلی سے جواب دیا تھا یا جو لیٹ بولیں یا جو جواب دیتے لڑکھڑانے لگیں یا جن کے جواب میں یقین کی تھوڑی کمی رہی ان روحوں کو خدا جسموں میں ڈھال کر یہاں بھیجتا ہے کہ جاؤ وہاں بھی بھگتو اور حشر میں تو بھگتنا ہی ہے۔ یہاں خدا یاد کس کو ہے ؟
حاجی ذخیرہ اندوز، سرکاری پوسٹوں پر ڈاکو ، بے حس تاجر ، بد عنوان سیاستدان، پاک شفاف وردی، بدکار ملا اور تماشائی عوام ۔۔۔ چونکہ خدا فرعونوں میں موسی بھی پیدا کرتا رہتا ہے لہذا خوش گمان رہیئے۔۔
ہر سال لاکھوں ہنرمند نوجوان ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ ایمبیسیوں کے باہر لمبی قطاریں لگا کرتی تھیں اب بھلا ہو جیریز اور فیڈایکس کا کہ ان کے دفاتر کے باہر امیگریشن اپلائی کرنے والوں کی لمبی قطاریں لگتی ہیں۔ ہر ہنرمند باشعور انسان اپنا مستقبل سنوارنے باہر نکل جاتا ہے۔ باہر والے بھی پاگل نہیں، وہ بھی ہنرمندوں کو ہی ویزے دیتے ہیں، نکموں کو کوئی ملک نہیں بلاتا۔
بھیا آجکل تو یہی کچھ ہے۔ کہنے لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنے کا فائدہ نہیں۔ جی کا زیاں ہے یا خون ہی جلانا ہے۔ یہ بالکل کورا ننگا سچ ہے۔ یہ شفاف آئینہ ہے جو دکھایا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ نابینا بستی میں آئینے نہیں بکتے۔ اب چونکہ اپنی صورت ہی ڈراونی ہے تو قطعی طور پر اسے سنوارنے کی کوشش نہ کیجئے گا بلکہ آیئے مل کر آئینے پر تھوک دیجیئے، کوئی فتوی دیجیئے، کوئی نعرہ بلند ہو، کوئی گالی نکلے، کوئی ذاتیات پر اترے۔ گلشن کا کاروبار تو چلے۔
ہمارے ساتھ جو ہوا، جو ہم پر بیت گئی اور بیت رہی ہے اس میں ہمارا اپنا ہی ہاتھ ہے۔ یہاں اپنا ہی ہاتھ اپنے ہی گریبان پر پڑتا ہے۔ سیلف اسیسمنٹ کا پہاڑ کوہ ہمالیہ سے بھی بلند ہے جس پر چڑھنا سانس پھلانے والا کام ہے۔ اس کی چوٹی بادلوں میں ، دھند میں دہائیوں سے گھری ہوئی ہے۔اس جانب نظر نہیں جاتی۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں لکھنے، پڑھنے، سوچنے والا انسان چپ چاپ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے۔ تراشیدم، پرستیدم، شکستم ۔۔۔
ہم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے ہاتھوں سے گر کے پتھر پر
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے۔۔
جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک گماں ٹوٹے
جیسے امید کی کرن کوئی
برگ موسم میں ناگہاں ٹوٹے
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقت تکمیل سے ذرا پہلے
گردش وقت سے الجھ جائے
جیسے پیروں تلے زمیں سرکے
جیسے سر پر یہ آسماں ٹوٹے
جیسے اک شاخ پہ بھروسہ کیئے
اس پہ جتنے تھے آشیاں ٹوٹے
جیسے وحشت سے ہوش آ جائے
جیسے تادیر میں دھیاں ٹوٹے
اب جو ریزہ ہوئے تو سوچتے ہیں
کس نے دیکھا ہے ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے۔۔
Facebook Comments