fbpx

عمران خان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ پر ایک نظر

1992 میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے ٹرافی اٹھائے عمران خان کو دیکھ کر شاید کسی نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہ شخص ایک دن مملکت پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔

لیکن آج 26 برس بعد عمران خان نیازی پاکستان کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں۔

ملک کے نو منتخب وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نیازی کی سیاسی اور ذاتی زندگی میں کئی نشیب و فراز  آئے مگر انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

25 نومبر 1952 کو لاہور میں پیدا ہونے والے عمران خان پشتونوں کے مشہور قبیلے نیازی سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ان کی والدہ شوکت خانم صاحبہ زیادہ تر میانوالی میں رہائش پزیر رہیں۔ وہ اکرام اللہ خان نیازی کے اکلوتے بیٹے ہیں۔

عمران خان نے ابتدائی تعلیم لاہور میں کیتھڈرل اسکول اور ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔

اس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے اور وہاں رائل گرائمر اسکول میں تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے 1975 میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلاسفی، سیاسیات اور معاشیات کے مضامین میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

آکسفورڈ میں عمران خان کے زمانہ طالب علمی کی ایک یادگار تصویر—۔فائل فوٹو/ سوشل میڈیا

عمران خان فی الوقت بریڈفورڈ یونیورسٹی برطانیہ کے چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

عمران خان کو حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ علاوہ ازیں 1992ء میں انہیں انسانی حقوق کا ایشیاء ایوارڈ اور ہلال امتیاز بھی عطا کیا گیا۔

میدانِ کرکٹ میں فتوحات

عمران خان نہ صرف ایک بہترین فاسٹ بولر تھے بلکہ انہوں نے اپنی دھواں دار بیٹنگ کے ذریعے بھی سب کو متاثر کیا—۔فائل فوٹو

عمران خان نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز 1971 میں 18 سال کی عمر میں انگلینڈ کے خلاف میچ سے کیا اور جلد ہی ٹیم میں ایک آل راؤنڈر کی حیثیت سے نمایاں جگہ بنالی۔

وہ نہ صرف ایک بہترین فاسٹ بولر تھے بلکہ انہوں نے اپنی دھواں دار بیٹنگ کے ذریعے بھی سب کو متاثر کیا۔

تاہم ان کی شہرت اُس وقت بلندیوں پر پہنچی، جب 1982 میں وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان منتخب ہوئے۔

عمران خان کی ہی قیادت میں پاکستان نے پہلی مرتبہ 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا، تاہم اس کے بعد عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔

عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی مرتبہ 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا—۔فوٹو/ بشکریہ ای ایس پی این کرکٹ انفو

اپنے کرکٹ کیریئر میں عمران خان نے پاکستان کے لیے 88 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 37.69 کی اوسط سے  3 ہزار 807 رنز بنائے۔

سابق کپتان نے 175 ون ڈے میچز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور 182 وکٹیں حاصل کیں۔

 2010 میں عمران خان کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا، جو یہ اعزاز حاصل کرنے والے چوتھے پاکستانی ہیں۔

فلاحی سرگرمیاں

کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد عمران خان نے سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور میں ایشیاء کا سب سے بڑا شوکت خانم میموریل اسپتال بنایا۔

عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا انتقال کینسر کے باعث ہوا تھا، جس کے بعد انہوں نے ان کے نام سے کینسر اسپتال قائم کیا—.فائل فوٹو/ سوشل میڈیا

اِسی طرز کا ایک کینسر اسپتال پشاور میں بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں اس موذی مرض میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

سیاست میں انٹری

1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان نے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور ان کی 22 سال کی جدوجہد کے بعد آج تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔

عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی—فائل فوٹو/ اے پی

ابتدائی طور پر تو عمران خان اور ان کی جماعت کو کامیابی نہیں مل سکی تاہم 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں تیسری بڑی اور ووٹ لینے والی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جس نے خیبر پختونخوا میں حکومت بھی بنائی۔

عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی اور دارالحکومت اسلام آباد میں 126 دن پر مشتمل طویل ترین تاریخی دھرنا دے کر مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔

عمران خان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد دھرنے میں مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا تھا—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

وہ اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو شدید ہدف تنقید بناتے رہے اور ان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی عائد کیے۔

اپریل 2016 میں پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد عمران خان اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ لے گئے، جس کا انجام نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے جیل جانے پر ہوا۔

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے کامیابی کی نوید لے کر آئے—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے کامیابی کی نوید لے کر آئے اور پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

ذاتی زندگی

عمران خان کی سیاسی زندگی کی طرح ذاتی زندگی بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔

1995ء میں عمران خان نے برطانوی ارب پتی تاجر سر جیمز گولڈ اسمتھ کی بیٹی جمائما گولڈ اسمتھ سے شادی کی، جو 22 جون 2004 کو طلاق پر منتج ہوئی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مصروف زندگی کی وجہ سے جمائما کو وقت نہیں دے پاتے تھے۔

عمران خان اور جمائما گولڈ اسمتھ 1995 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے—۔فائل فوٹو:اے ایف پی/ گیٹی امیجز

8 جنوری 2015 کو عمران خان نے ریحام خان کے ساتھ شادی ہوئی تاہم یہ شادی بھی چند ماہ ہی چل سکی۔

اس کے بعد ریحام خان کی جانب سے عمران خان پر کئی الزامات بھی عائد کیے گئے، خصوصاً حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی کتاب میں پی ٹی آئی چیئرمین کی ذاتی زندگی سے متعلق کئی انکشافات کیے گئے ہیں۔

عمران خان اور ریحام خان کی شادی 8 جنوری 2015 کو ہوئی—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

رواں برس 18 فروری کو پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین عمران خان کی بشریٰ ریاض وٹو سے تیسری شادی کی تصدیق کی۔

شادی سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، بشریٰ بی بی سے روحانی رہنمائی لینے کی غرض سے پاکپتن جایا کرتے تھے۔

اس شادی کا سیاسی و سماجی حلقوں میں خاصا چرچا بھی رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london
عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی لاہور میں انتہائی سادگی سے ہوئی—۔فائل فوٹو/ بشکریہ پی ٹی آئی

اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں کئی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد عمران خان ‘تبدیلی’ کا نعرہ لگا کر اب پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں، قوم کی نظریں اب اُس حقیقی تبدیلی کی راہ تک رہی ہیں، جس کا وعدہ عمران خان نے اُن سے کر رکھا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان—۔فائل فوٹو

بشکریہ جنگ نیوز https://urdu.geo.tv/latest/187898-

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عمران خان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ پر ایک نظر

  1. اپنی آئیڈیالوجی کی قربانی دے کر، روایتی سیاستدانوں کی طرح چوروں اور ڈاکوؤں کے کندھے پر سوار ہو کر وزیراعظم بننا، اتار ہے یا چڑھاؤ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے.

Leave a Reply