مفتی صاحب پر تنقید کیوں؟۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

آج بائیک پر ایک عزیز کے ہاں جا رہا تھا۔ مجھے پتہ نہ چلا کہ اچانک میری بائیک تھوڑی تیز رفتاری کیساتھ جب کیچڑ میں سے گزری تو بس اسٹاپ پر کھڑے ایک بزرگ کے کپڑوں پر کیچڑ کے کچھ چھینٹے پڑ گئے۔ مجھے شرمندگی سی ہوئی تو میں نے تھوڑی آگے جا کر بائیک روکی۔ اتر کر ان بزرگ کے پاس آیا اور معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ میرے بات کرنے سے پہلے ہی بزرگ نے کہا “شکل سے پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو لیکن اپنی حرکتوں سے بالکل جاہل لگے ہو”۔ میں خاموش رہا  ۔ وہ ساتھ کھڑے شخص سے کہنے لگے “میں نے آج نماز جمعہ بھی پڑھنی ہے اب مجھے گھر جا کر کپڑے بدلنے پڑیں گے”۔ میں نے معذرت کی کیونکہ غلطی سراسر  میری تھی۔ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

مجھ سمیت تقریباً ہر شخص کو ایسی یا اسی نوعیت کی صورتحال کا اکثر اوقات سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ معمول کی بات ہے۔ آپ جس مقام پر ہوتے ہیں لوگوں کی آپ سے توقعات بھی اسی کے مطابق ہوتی ہیں۔ بلکہ آپ جس منصب پر فائز ہوتے ہیں آپ سے توقعات اس سے کہیں زیادہ اونچی رکھی جاتی ہیں۔ مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے یا وکلاء دوست شاید اسکی تصدیق کر دیں گے کہ چند برس قبل ایک جج صاحب کو محض ایک معمولی نوعیت کی غلطی کی بناء پر نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا، حالانکہ یہ ایک معمولی نوعیت کی غلطی تھی لیکن یہ کام ایک جج کے شایان شان نہیں تھا۔ ایک عام شخص کی نسبت ایک پڑھا لکھا شخص اگر گالی دے تو اس پر تنقید زیادہ کی جائے گی۔ اس کی سادہ سے الفاظ میں مثال یوں لے لیجیے، کہ ایک عام شخص کی نسبت ڈاکٹر کی غفلت پر زیادہ شدت سے تنقید کی جاتی ہے۔ ایک ناخواندہ شخص کی نسبت ایک پڑھے لکھے شخص سے اخلاقیات کی توقع زیادہ کی جاتی ہے۔ کسی قانون کی خلاف ورزی پر عام شخص کی نسبت ایک وکیل پر زیادہ شدت سے تنقید ہوتی ہے کیونکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قانون شکنی نہیں کرے گا۔

یہی وجہ ہے کہ جب جب کوئی وکیل اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تب تب اس کو پوری شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی بناء پر وکلاء پر دوسروں کی نسبت زیادہ تنقید ہوتی ہے کیونکہ سوسائٹی میں انکا ایک مقام ہے لوگوں کی توقعات ہیں جن پر انھیں پورا اترنا چاہیے۔ یہ ایک فطری امر ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ ایسے معاملات میں دفاع ہو ہی نہیں سکتا۔ بعض یونیورسٹیوں اور کالجز میں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر پھیلی فحاشی اور عریانی پر میں ہمیشہ سے وقتاً فوقتاً بات کرتا رہا ہوں۔ ایک کالم بھی لکھا تھا جب چند ماہ قبل ایک بدکردار شخص ایک سٹوڈنٹ لڑکی کی لاش ہسپتال کے باہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس جیسے جتنے بھی واقعات ہوئے ان پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے یک زبان ہو کر پوری شدومد کیساتھ آواز بلند کی گئی۔ علما  کرام بھی اس فحاشی پر بات کرتے رہتے ہیں اور کرنی چاہیے، بلکہ ہر شخص کو کرنی چاہیے، کیونکہ اگر اس پر بات نہ کی جائے تو شاید حالات بہت آگے نکل جائیں اور ہماری بہنوں بیٹیوں کیلئے پڑھنا ہی دشوار ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب دو روز قبل ہونے والے مفتی صاحب کے واقعہ کی طرف آتے ہیں جو پے در پے چار عدد  ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور تنقید ہونی بھی چاہیے۔ جن دوستوں کو یہ اعتراض ہے کہ ایسے واقعات تو ہر کمیونٹی میں ہوتے ہیں اور اکثر ہوتے رہتے ہیں تو اس حالیہ واقعہ پر عوام کی طرف سے اتنی شدید تنقید کیوں؟ کچھ دوست تو مفتی صاحب کے اس قبیح فعل کی ایسی عجیب و غریب توجیہات پیش کر رہے ہیں کہ میں انگشت بدنداں ہوں۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ یہ سمجھنے ہیں کہ لبریز اپنے بغض کی وجہ سے اس واقعہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ وقتی طور پر مان لیتے ہیں کہ وہ اپنے تئیں درست سوچ رہے ہوں گے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ان دوستوں کیلئے عرض ہے کہ مفتی صاحب پر تنقید زیادہ ہونے کی وہی وجوہات ہیں جو میں نے اوپر بیان کیں۔ یہ عوام الناس کی توقعات ہیں۔ علما  کی اکثریت بہت نیک اور متقی  ہے۔ علما  دین کو چاہیے کہ بلا چوں  و چراں ، بغیر کسی موازنے، بغیر کسی کو لتاڑے اس قبیح اور غلیظ فعل کی مذمت کریں۔ علما  دین کو چاہیے کہ وہ خود آگے آئیں۔ اپنا محاسبہ کریں اور ایسے گند کو صاف کریں جو بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply