نیا پاکستان درست مگر۔۔۔۔۔ یوسف سراج

ایک زمانے کے لیے جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی کہانی میں سبق ہے، گہرا ، گہربار، تابناک اور تابندہ سبق، ہر اس شخص کے لئے شاندار سبق کہ حکمرانی جسے نصیب ہو جائے اور اپنے دورِ اقتدار میں جو کچھ نیا ، کچھ اچھوتا اور کچھ سنہرا وہ کر دکھانا چاہتا ہو، خواب دیکھنے والے اور سماج بدل دینے والے ہر حکمران کے لیے جنابِ عمر بن عبدالعزیز کے مختصر ترین دورِ حکومت میں کامرانی کے کئی نقش قدم اور سنگ ہائے میل ہیں۔ وہ تمام کہانی پھر کبھی ، ایک بات البتہ آج ہی۔ اموی خلیفہ ہشام کے دربار میں ایک سائل حاضر ہوا۔ خلیفہ ہشام نے عمر بن عبدالعزیز کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد کے خلیفہ ہشام کا دور تھا اور ایک شخص اپنی درخواست کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ سادہ سی اس کی درخواست تھی۔ کہنے لگا، میرے باپ کو آپ کے والد عبدالملک بن مروان نے ایک جاگیر عطا کی تھی۔ بدستور وہ ہمارے خاندان کے پا س رہی۔ ان کا دور گزرا تو ولید اور سلیمان کے ادوار میں بھی وہ جاگیر ہمارے ہی تصرف میں رہی۔ جنابِ عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور آیا تو یہ جاگیر انھوں نے ہم سے واپس لے کر بیت المال میں داخل فرما دی۔ درخواست یہ ہے کہ جنابِ عمر جا چکے ، آپ اپنے باپ کی عطا کردہ وہ جاگیر مجھے دوبارہ عنایت فرما دیجئے۔ غور سے خلیفہ ہشام نے سائل کی التماس سنی۔ اس کے لفظوں پر خلیفہ کو بے اختیار چونک جانا پڑا۔ فرمایا، ذرا اپنا آخری جملہ پھر سے دہراؤ۔ سائل کہنے لگا، جنابِ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور آیا تو یہ جاگیر انھوں نے ہم سے واپس لے کر بیت المال میں داخل فرما دی۔ حیرت سے ہشام نے اس کی کہی بات دہرائی ، جناب عمر بن عبدالعزیز کے نام کے ساتھ وہ کہہ رہا ، رحمہ اللہ ! رحمہ اللہ ، یعنی خدا ان پر رحمت کی برکھا برسائے ، خدا ان پر مغفرت کی چادر تان دے۔ خلیفہ نے فرمایا ، وہ شخص کہ جاگیر جس نے تمھیں عطا کی اور وہ اشخاص کہ جاگیر کو جنھوں نے تمھارے پاس باقی اور برقرار رکھا۔ ان سب کے لیے تمھارے پاس رحمت کی کوئی دعا اور خیر کا کوئی لفظ نہیں۔ البتہ وہ شخص کہ جاگیر جس نے تم سے چھین لی ، مغفرت کی اس کیلئے پھر بھی دعا کرتے ہو۔ سائل سے انھوں نے فرمایا ، فیصلہ ہمارا بھی وہی ہے ، جو جنابِ عمر کا ہے۔ وہ نہیں جو ہمارے باپ اور بھائیوں کا ہے۔ جناب ابو بکر صدیق ؓ کی پہلی تقریر کا ایک جملہ یہ تھا کہ تمھارا کمزور میرے نزدیک زیادہ طاقتور ہے ،جب تک کہ میں کمزور کا حق اس طاقتور سے واپس نہ لے لوں۔

تاریخ اور زمانہ انھی کو یاد کرتا ہے ، وقتی مفاد کے بجائے جو دائمی اصول کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو قوم کو نہ لوٹتے ہیں اور نہ لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ دینے والوں کو لوگ بھول جاتے ہیں البتہ باکردار چھیننے والوں کو وہ سلام کرتے ہیں۔ ٹائیگر ہلز پر ڈٹے پاکستانی سپاہی شیرخاں کی داستانِ شجاعت بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ جنگ کے ہنگام پہاڑی پر جو اکیلا رہ گیا، پانی اور خوراک اور پھر اسلحہ بھی بالتدریج جس کا تمام ہو گیا۔تن تنہا اور بے تیغ وہ مگر ڈٹا رہا، لڑتا رہا۔ چار سو سے زائد اس پر فضائی حملے ہوئے مگر اس سے زیادہ تعداد میں اپنے مخالفین کو اس نے خاک چٹوا دی۔ میت جب اس شہید کی دشمن نے لوٹائی تو ساتھ اس کی بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرتا سرکاری خط بھی بھیجا۔ کس قدر حیرتناک بات ہے کہ پاکستان آج بھی قائد کو یاد کرتا ہے۔ دیانتدار، باکردار اور جو بااصول آدمی تھے۔ کبھی جنھوں نے کسی کو رعایت دی اور نہ کسی کی سفارش کی۔ نہ خود رعایت مانگی نہ دوسروں کیلئے بے جا مصالحت کی راہیں کشادہ کیں۔ جو دو ٹوک تھے اور واشگاف۔ جھوٹ ہے کہ بے جا جھکنے اور نوازنے والا پھل پاتا ہے۔ نہیں بلکہ تاریخ کی راکھ میں دفن ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان تاریخ کے اب امتحان میں ہے۔ وہ وقت آ گیا کہ بے چینی سے جس کا انتظار تھا۔ ایک عرصے سے ایک خاص طرز کی سیاست پاکستان میں جاری تھی۔ عمران خان نے اسے بدلنے کا نعرہ لگایا۔ کچھ وقت لگا اور بالآخر آج عمران خان گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہونے والے ہیں۔ خان پر یہ بڑے کڑے امتحان کا وقت ہو گا۔ جواب مانگنا آسان اور جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔ اب خان کو جواب مانگنا نہیں، جواب دینا ہے۔ لوگ بھی صحرا کی پیاس رکھتے تھے،اور ادھر خود عمران نے انھیں آرزؤں کے آسمان پر لا بٹھایا ہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔ کراچی میں تحریکِ انصاف کے نو منتخب عمران شاہ نے راہ گیر کو جو تھپڑ مارے، اس پر پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے ، ایسی مگر بہت سی اچھی مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ سپیکر کے انتخاب کے ہنگام ن لیگ کی نا واجب ہنگامہ آرائی پر خندہ پیشانی دکھانا بھی عمدہ عمل۔ تنقید اب اور بھی ہوگی۔ بہت ہوگی ، باتیں بھی یاد دلائی جائیں گی۔ روڑے اٹکائے جائیں گے۔ حوصلہ مگر کرنا ہوگا۔حوصلہ ہی کافی نہیں ہو گا، تنقید کی اسی برستی بارش میں حوصلے کی چھتری تان کے وہ سارا کام بھی کرنا ہوگا ، وعدے جن کے بڑی آسانی سے کر لیے گئے۔ عمر بن عبدالعزیز کی سیرت میں خان کے لیے سبق ہے۔ محض اڑھائی سال میں ایک زمانے کی خرابیوں کی جنھوں نے اصلاح کر دکھائی۔ تاریخ آج بھی ان پر فخر کرتی ہے۔ تاریخ ایسوں ہی کو یاد رکھتی ہے۔ تاریخ ایسوں ہی پر ناز کرتی ہے۔ ان سے کہیں زیادہ وقت حالانکہ دوسرے بے شمار خلفاء اور حکمرانوں کو ملا۔ وقت گنوا دینے والے سب مگر آج تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہیں، جبکہ عمر بن عبدالعزیز ایک سنہرا نام ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply