عقل و فراست

عقل و فراست، خدا تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو کسبی نہیں وہبی ہے یعنی جسے محنت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسی نعمت ہے جو اللہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ اس وقت ہو گا جب آپ زندگی کے مختلف معاملات پہ لوگوں سے گفتگو کریں گے، اہم شخصیات کو اہم معاشرتی اور سیاسی معاملات پہ بحث کرتے سنیں گے یا جب آپ کسی صاحب علم سے فکری اور فقہی مسائل پہ جواب چاہیں گے۔ زندگی بھر کا مطالعہ، تجربہ اور مشاہدہ اپنے مقام پہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے لیکن عقل و فراست کا مقام مطالعہ ، تجربہ اور مشاہدہ سے بھی کہیں پہلے ہے۔ ممکن ہے ایک شخص صاحب علم ہو لیکن صاحب فراست نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے ایک شخص صاحب علم نہ ہو اور صاحب فراست ہو۔ عمر رسیدہ عقل و فراست سے عاری ہو اور ایک نوجوان کو خدا نے دانش و بصیرت سے نوازا ہو۔ اس میں مرد و عورت ، بزرگ و جوان، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ کسی کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق خارجہ بن مصعب نے کہا تھا ”میں کم از کم ایک ہزار عالموں سے ملا ہوں جن میں عاقل اور صاحب فراست صرف تین چار اشخاص دیکھے ان میں ایک ابو حنیفہ تھے۔“اندازہ کیجیے ہر دور میں عقل و فراست اتنی نا پید رہی ہے۔

رمضان المبارک میں مجھے ایک پرائیویٹ چینل کی سحری ٹرانسمیشن میں میزبان بننے کا اتفاق ہوا۔ اگرچہ یہ میرا نیا تجربہ تھا اس تجربہ سے یہ بات مجھ پر بھی عیاں ہوئی کہ عقل و فراست ڈگریوں، کتابوں اور بڑے بڑے اداروں کے استاد اور ڈائریکٹر بننے سے نہیں ملتی …. اِس پروگرام میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوئے۔ یونیورسٹیز کے اساتذہ، طلبائ، گھریلو خواتین، حکماءاور علماء…. میں نے اس حقیقت کا بغور مشاہدہ کیا، سوال کی گہرائی میں اتر کر وہ صدف لانا جس میں جواب کا گہر ہویہ فن و صلاحیت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی ۔ بس اسی کا نام عقل و فراست ہے۔ بولنا کمال نہیں …. با مقصد گفتگو کمال ہے۔ اِسی طرح جواب دینا کوئی کمال نہیں اصل کمال یہ ہے کہ گفتگو کرنے والا سوال کی حقیقت ، وسعت اور گہرائی کو سمجھ کر جواب دے۔ میں مہمانوں میں، اسی بات کو تلاش کرتا تھا آیا کہ مہمان میرے سوال کا جواب کیسے دیتا ہے۔ ہر سوال لکھا نہیں جا سکتا کئی سوالات ایسے ہوتے ہیں جو دورانِ گفتگو پیدا ہوتے ہیں حقیقت میں وہی سوال ہوتے ہیں جو سوالات پہلے سے تیار شدہ ہوں وہ فقط بات شروع کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ فی البدیہہ سوال و جواب پروگرام کی جان ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی سب کچھ رسمی ہوتا ہے۔ اگر مہمان اُسی وصف کا مالک ہو جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں تو وہ ایسے سوالات سے لطف اندوز ہوتا ہے ورنہ گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خیر!
پاکستانی چینلز پہ دو باتیں اہم ہو گئی ہیں ایک بات کہ میزبان ہو یا مہمان بولنے کا فن جانتا ہو …. بس چپ ہی نہ ہو۔ دوسری بات خوش شکل ، خوش لباس ہو (خاص طور پر یہ شرط خاتون میزبان کے لیے بہت ہی ضروری ہے) جب یہ ترجیحات طے ہو جائیں تو پھر معاشرے اور معاشرے کے اہل علم کا اللہ ہی حافظ۔
خارجہ بن مصعب نے کہا تھا :”میں ایک ہزار علماءسے ملا ان میں سے صرف تین چار اشخاص کو عاقل اور صاحب فراست پایا۔“
اگر آج کی بات کریں تو شاید اب یہ اوسط لاکھوں میں چلی گئی ہو۔ ہو سکتا ہے اب ایک لاکھ میں تین چار اشخاص عاقل اور صاحب فراست ہوں۔
قارئین! میں کچھ نہیں کہتا آپ خود ہی فیصلہ کیجیے! ذرا نظر دوڑائیے مساجدو مدارس پہ ، وہاں کتنے علماءآپ کو صاحب فراست دکھائی دیتے ہیں۔ جن کے فتاویٰ و تقاریر میں فراست، بصیرت، مطابقت اور عقلیت دکھائی دیتی ہے۔ آپ ذرا میدانِ سیاست کو بھی دیکھیے! یہاں آپ کو کون سا راہنما دکھائی دیتا ہے جس میں اتنی اخلاقی جرا ¿ت ہو کہ اس کا فیصلہ عوام کی امنگوں کے خلاف ہو لیکن فراست و بصیرت سے خلاف نہ ہو…. آپ قومی اسمبلی اور صوبوں کی چار اسمبلیوں پہ نگاہ ڈالیے، تلاش کیجیے ایسا شخص جو اس نعمت سے مالا مال ہو۔ میں نہیں کہتا کوئی نہیں بہرحال اب ڈھونڈ انھیں چراغِ رخِ زیبا لے کرجیسی صورت حال ضرور پیدا ہو گئی ہے۔ اگر کسی میں عقل و فراست ہے بھی سہی تو یہ سنگ مرمر گروہی مفاد اور ذاتی عناد کی گرد سے اٹ کر چھپ گیا ہے۔آپ دور نہ جائیے! اپنے گھر، محلہ اور علاقہ میں تلاش کیجیے …. کوئی صاحب فراست….

آج ہمیں بین الاقوامی معاملات سے، ملکی معاملات تک، ملکی معاملات سے صوبائی اور علاقائی معاملات تک ۔ ہمیں مساجد سے محلہ تک، تعلیمی اداروں سے سرکاری اداروں تک۔ ہمیں با فراست افراد کی اشدضرورت ہے تاکہ ہم اندھے کی ڈانگ بننے کی بجائے وہ چراغ بنیں جو خود بھی روشن ہو اور دوسروں کو بھی روشنی دے۔ ہمیں اپنے ہر عمل کا شعور ہو۔ اس کے ہر پہلو کے ساتھ حاصل ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ہر شخص سے اس کی عقل کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین! راہنمایان ملت کے لیے خصوصی دعا کیجیے خدا تعالیٰ انھیں فراست و بصیرت سے نوازے کیونکہ ان کے صحیح فیصلے ہی قوم و ملت کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور اِن کے غلط فیصلے قوم کو تباہ کر دیتے ہیں۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply