سربراہ ‘ریاست مدینہ متوجہ ہوں۔۔۔سلیم فاروقی

جب آپ خود اپنا معیار بلند ترین سطح پر رکھیں گے تو آپ کو پرکھا بھی اسی معیار کے مطابق جائے گا۔ اس پرکھنے پر آپ کی جانب سے کوئی شکوہ مناسب نہیں ہے۔ آپ نے خود اپنا معیار “ریاست مدینہ” طے کیا ہے تو آپ کے اقدامات کو اسی معیار کے مطابق دیکھا جائے گا۔

آپ کا دعویٰ تھا کہ اگر اوپر بیٹھا لیڈر خود درست ہوگا تو نیچے والوں کی مجال نہیں کہ وہ غلط کام کرسکیں۔ اب آپ کے اسی طے کردہ معیار کے مطابق آپ کی آزمائش آگئی ہے تو اس پر پورا اترنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے ایک شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ کیا آپ کی “ریاست مدینہ” کا معیار اتنا ہی ہے کہ آپ کی جماعت ان کا اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرکے بیوروکریٹک طریقے سے مسئلہ پر مٹی ڈال دے؟ یا پھر اس شہری کے گھر جاکر اس سے معافی “طلب” کریں، اور وہ بے چارہ مجبوراً آپ کے رکن کو اسی طرح معافی دے دے جس طرح ماضی میں ایک مظلوم ماں نے اپنے بیٹے کو عدالت میں جاکر رندھی ہوئی آواز میں  جاکر ان الفاظ سے معافی دی کہ میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ کیا آپ کی “ریاست مدینہ” میں جرائم کے فیصلے اسی طرح ہوں گے؟

مذکورہ فرد کے رکن صوبائی اسمبلی بننے کے سب سے بڑے مجرم تو آپ کے خود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے اس شخص کو امیدوار نامزد کردیا جو دوہری شہریت کا حامل ہے۔ اور دوہری شہریت والا قانون ساز ادارے کا رکن منتخب نہیں ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو اس قانون پر اعتراض ہو لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس قانون کو بدل دیں لیکن جب تک یہ قانون تبدیل نہیں ہوجاتا ہے اس کی پابندی آپ سمیت ہر ایک پر لازم ہے۔ یہ تو آپ کے امیدوار چننے کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ایسے فرد کو نامزد کرکے قانون کی خلاف ورزی کیسے کی گئی؟ اس فرد کے ساتھ ساتھ اس جرم میں “سب سے اوپر والا لیڈر” ہونے کی حیثیت سے آپ بھی برابر کے شریک ہیں، آپ اس جرم سے جان نہیں چھڑا سکتے ہیں۔

“ریاست مدینہ” کا معیار تو یہ ہے کہ سزا بقدر جرم ہونی چاہیے۔ فرات کنارے بھی کوئی کتا بھوکا مر جائے تو خلیفہ وقت خود کو اس کا ذمہ دار سمجھے۔ اور اگر کسی جرم میں نبیﷺ کو اپنی بیٹی کے شریک ہونے کا شک ہو تو وہ اس  کو بھی حد سے مبرا قرار نہ دیں۔ لیکن آپ کے اس رکن صوبائی اسمبلی نے ایک عام شہری پر ہاتھ اٹھایا، گویا دو جرائم کیے اول تو ایک فرد کی حیثیت سے دوسرے فرد پر ہاتھ اٹھایا اور دوسرے ایک قانون ساز ہونے کے باوجود قانون کو ہاتھ میں لیا۔ اب آپ پر فرض ہے کہ دونوں جرائم کی مکمل تحقیقات کروائیں اور یہ بھی دیکھیں کہ کیا مظلوم شخص نے واقعی خوشدلی سے معاف کیا ہے ہے یا کسی قسم کے دباؤ کے تحت معاف کیا ہے۔ اس تحقیق میں اس وڈیو سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جس میں مظلوم شخص اخباری نمائندوں کے سامنے برملا یہ کہہ رہا ہے کہ معاف کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ جناب اس کو راستہ فراہم کرنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خود آپ کو اپنے لیے بھی کوئی سزا طے کرنی ہوگی جس نے ایک شخص کو قانون ساز ادارے کا رکن بنواتے وقت اس بات کا اطمینان نہیں کیا کہ کہیں کوئی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہ سراسر آپ کی ناکامی ہے جس کا آپ کو نہ صرف برسرعام اعتراف کرنا چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ آئندہ ایسی لاپرواہی نہ ہو، اس کے ساتھ ہی نئے سرے سے اپنے ارکان پارلیمان کو فلٹر کرنا چاہیئے اور اگر مزید کوئی ایسی حماقت کا شاہکار نظر آئے تو آپ خود اس کو نکال باہر کریں۔ یہی ہے معیار “ریاست مدینہ”۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو مجھے کہنے دیجیے کہ آپ میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply