• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا عمران خان کامیاب حکمران ثابت ہو سکیں گے؟۔۔۔۔۔ آصف محمود

کیا عمران خان کامیاب حکمران ثابت ہو سکیں گے؟۔۔۔۔۔ آصف محمود

ایک طویل جدوجہد کے بعد عمران خان وزیر اعظم بننے میں تو کامیاب ہو ہی چکے ، سوال اب یہ ہے کیا وہ ایک کامیاب حکمران بھی ثابت ہو سکیں گے ؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب اثبات ہے ۔ عمران کے پاس ناکام ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ، اسے ہر حال میں اور ہر قیمت پر جیتنا ہے ۔ ایلن بارڈر نے کہا تھا عمران جب صرف جیتنے کے لیے کھیلتا ہے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے ۔

بھولی بھٹکی سی ایک یاد ہے ۔ مگر آ ج بھی کچھ کچھ یادہے ۔ ورلڈ کپ 1992 میں ایک لمحہ وہ آیا کہ ہم ہار ہار کے وہاں پہنچ چکے تھے کہ ایک میچ بھی مزید ہارتے تو تورنامنٹ سے باہر ہو جاتے ۔ اوپر سے اگلا میچ بھی آسٹریلیا کے ساتھ تھا ۔ مایوسی نہیں تھی مگر جھنجلاہٹ بہت تھی کہ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ ظہیر عباس عمران خان کو جگتیں مار رہا تھا کہ اس نے کرکٹ کی بجائے شوکت خانم ہسپتال کو اپنی ترجیح نہ بنا لیا ہوتا تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا ۔ اسی جھنجلاہٹ میں اخبار کھولا تو عمران خان کا ایک بیان چھپا ہوا تھا ’’ جیتنے کے لیے کھیلیں گئے اور جیتیں گے ۔ ہار نے کی اب کوئی گنجائش نہیں ۔ وسیم اکرم کو بتا دیا ہے پوری قوت سے بال کرائے ۔ وایئڈ اور نو بال کی مجھے پرواہ نہیں ۔ مجھے وکٹیں چاہییں ۔ ہم نے آسٹریلیا کو آل آؤٹ کرنا ہے ‘‘۔ ساتھ ہی ایلن بارڈر کا بیان تھا : عمران جب صرف جیتنے کے لیے کھیلتا ہے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ چنانچہ گیارہ مارچ 1992 کو پاکستان نے آسٹریلیا کو چھیالیسویں ہی اوور میں آل آؤٹ کر دیا ۔ پاکستان یہ میچ 48 رنز سے جیت چکا تھا ۔

بے شک کرکٹ اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن ایک چیز قدر مشترک ہے اور میرے لیے وہی اہم ہے ۔ وہ چیز کیا ہے ؟ ایلن بارڈر کا وہی بیان : عمران جب صرف جیتنے کے لیے کھیلتا ہے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے ۔ چھبیس سال پہلے جب امید ٹوٹ چکی تھی ، عمران کے اس بیان نے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے ایک کلاس فیلو سے شرط لگا لی تھی کہ ہم ورلڈ کپ جیتیں گے ۔ جمع تقسیم کریں تو اب بھی حالات کافی مشکل ہیں ۔ عمران کی ٹیم سے یہی طے نہیں ہو رہا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد کہاں رہیں گے ۔ روز ایک صاحب جلوہ افروز ہوتے ہیں اور ایک نئی پھلجھڑی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ یہ موسمی پرندے ہیں ۔ کیا جانے اگلے موسم میں کس کی منڈیر پر دانہ دنکا چگ رہے ہوں ۔ لیکن عمران خان کو معلوم ہے اس کے پاس ناکام ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کل جب اس نے کہا ہمارے پاس ناکام ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ، ہم نے روائتی انداز میں حکومت کی تو عوام کے غضب کا نشانہ بن جائیں گے تو یہ گویا اس بات کا اعلان بھی تھا کہ وہ صرف جیتنے کے لیے کھیل رہا ہے اور بہت خطرناک ہو چکا ہے۔

عمران خان سے پہلے کتنے ہی وزیر اعظم آئے ۔ کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی نے وزارت عظمی کا حلف نہیں لیا اور اس پر تنقید بھی شروع ہو چکی ہے اور ہر دوسرا آدمی اسے مفت کے مشورے دیے جا رہا ہے ۔ کبھی آپ نے سوچا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے والوں سے لوگوں کو ایسی کوئی امید نہیں تھی کہ وہ کچھ نیا کر کے دکھائیں گے ۔ ان سے نہ مطالبہ ہوتا تھا ، نہ ان کی غلطیوں پر کوئی دہائی دیتا تھا ۔ عمران آیا ہے تو امیدیں جاگ گئی ہیں ۔ یہ عمران کی پہلی کامیابی ہے ۔

سوال اب یہ ہے کہ اس کی کامیابی کو کیسے ماپا جائے گا ؟ یہ تو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے ۔ ٹی وی چینلز پر ہم دیکھ رہے ہیں کس بے باکی اور ڈھٹائی سے مسلم لیگ کے اکابرین فرماتے ہیں ہم دیکھیں گے عمران کیسے معیشت کو بہتر کرتا ہے ۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ ہم تجربہ کاروں نے جس طرح سے اس ملک کی معیشت کا ستیا ناس کیا ہے اب بھلا اسے کوئی ٹھیک تو کر کے دکھائے ۔ جتنا قرض اس ملک نے پوری تاریخ میں لیا قریب قریب اتنا ہی قرض مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سالوں میں لے لیا اور کمال ڈھٹائی سے جاتے جاتے ایک ایسا بجٹ بھی دے کر گئے جسے پیش کرنے کا ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہ تھا ۔ اس بجٹ کے اعدادوشمار کا تقاضا ہے کہ بھاری قرض لیا جائے ۔

اب عمران سے یہ مطالبہ یا توقع کرنا کہ وہ قرض لیے بغیر ملک چلا لے قابل عمل نہیں ۔ نہ ہی عمران کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ چھ دہائیوں کے قرض کے اس شیطانی شکنجے سے چند ماہ میں نجات حاصل کر لے ۔ ہاں وہ معیشت کی سمت درست کر دے ، یہ اس کی کامیابی ہو گی ۔ قرض لے لے کر عیاشی کرنے اور لوٹ مار کے کلچر کو ختم کر دے ، قرض کو غیر پیداواری منصوبوں میں جھونک کر تباہ کرنے کی بجائے اسے پیداواری منصوبوں پر لگائے اور ملکی معیشت کا رکا ہوا پہیہ چلا دے یہ اس کی کامیابی ہو گی ۔

طرز حکومت میں بھی ، ممکن نہیں وہ قرون اولی جیسی حکومت قائم کر دے ۔ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ۔ نہ ہی اس کا ان عظیم ہستیوں سے کوئی تقابل ہے ۔ ہاں وہ طرز حکومت کی بنیادی خرابیوں کو دور کر دے اور ایسے روایات ڈال جائے کہ لوگوں کو محسوس ہونا شروع ہو جائے یہ پہلوں سے بہتر ہے یہ ا س کی کامیابی ہے ۔ عمران سے پہلے والوں نے ایک ایک ادارہ تباہ کیا ۔ تمام اختیارات وزیر اعلی کی مٹھی میں ہیں ۔ وہی اختیارات کا گھنٹا گھر تھا ۔ احساس کمتری کے مارے کسی شخص کی طرح شہباز شریف نے اپنی ذات ہی کو اختیارات کو گھنٹا گھر بنا دیا تھا ۔ کسی کلرک تک نے تبادلہ کرانا تھا تو اس کے لیے عالی جاہ سی ایم کا ڈائرکٹو درکار تھا ۔ اس بے ہودہ کلچر کو اگر عمران ختم کر دے اور اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کو ممکن بنا دے تو یہ اس کی کامیابی ہو گی ۔

ادارے آزاد ہو جائیں ، لوگوں کو کام کروانے کے لیے اہل اقتدار کے ڈیروں کے چکر نہ لگانے پڑیں ، لوٹ مار نہ ہو ، ذاتی وفاداروں کے لشکر نہ پالے جائیں ، منظور نظر صحافیوں پر سرکاری خزانے کے کھلے منہ بند کر دیے جائیں ، کک بیکس اور کمیشن نہ کھائے جائیں ، احتساب کا بامنی نظام وضع ہو ، ریاستی مشینری حکمران طبقے کے شکنجے سے آزاد ہو جائے ۔۔۔۔ خواہشات کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ پورا دیوان مرتب ہو سکتا ہے ۔ چند سالوں مین یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے جب کہ عمران کے رفقائے کار بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ ایک ایک کو ہم جانتے ہیں ۔

دو چیزیں ہیں جو عمران کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں ۔ اول : اس نے صرف اپنے رفقائے کار پر بھروسہ نہیں کیا جو آدھا دن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں گزار دیتے ہیں ۔ اس نے ماہرین سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اسد عمر کو دیکھ لیجیے ۔ وزیر خزانہ بننے جا رہے ہیں لیکن اسحاق ڈار کی طرح کا کوئی خبط عظمت ہے نہ دل میں کوئی چور کہ چیزیں چھپا کر رکھیں ۔ وہ ایک اکنامک ایڈوائزری بورڈ کی بات کر رہے ہیں تا کہ اجتماعی شعور سے معاملات حل کیے جائیں ۔ میری اطلاعات ہیں کہ ایسی ہی کوششیں دیگر شعبوں میں بھی ہیں ۔ ہر شعبے میں ڈھیروں ماہرین جو عمران سے براہ راست رابطے میں ہوں گے ۔ وزیر مطلق العنان نہیں ہو گا کہ احسن اقبال کی طرح سالوں سی پیک کا ایک معاہدہ بھی قوم کو نہ بتائے بس اققوال زریں سنا سنا کر ٹر خاتا رہے ۔ آدھے سے زیادہ وفاقی وزراء کا اتنا ہی کردار ہو گا جتنا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم میں سلیم ملک کا تھا ۔ اچھا پرفارم کیا تو بہت بہتر ، نہیں کیا تو کوئی اور کام کر دے گا ۔ کوئی وزیر من مانی نہیں کر پائے گا ۔ اجتماعی شعور کے تحت ایک ٹیم کے طور پر فیصلے ہوں گے ۔ لوٹ سیل نہیں لگے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران کی کامیابی کی دوسری ضمانت بھر پور اپوزیشن اور سوشل میڈیا ہے ۔ جب مک مکا ہو جاتا ہے اور اپوزیشن لیڈر عملا وفاقی وزیر برائے اپوزیشن بن جاتا ہے تو بات اور ہوتی ہے لیکن جب ایک بھر پور اپوزیشن ہوتی ہے تو یہ حکومت کو راہ راست پر رکھنے کا کام کرتی ہے ۔ عمران خان کی اپوزیشن طاقتور ہے ۔ اس کا دباؤ عمران کو لمحہ لمحہ خود احتسابی پر مائل رکھے گا ۔ اور پھر بے باک اور سر کش سوشل میڈیا بھی تو ہے ۔ عمران خان نے کچھ کر گزرنے کی خواہش کواپنے ہاتھوں مار نہ دیا تو یہ عوامل ان کے دست و بازو بن جائیں گے ۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply