کمرہ نیم روشن تھا۔
میں نے قائد اعظم کو آرام کرسی پر بیٹھے پایا۔
مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے۔
’’آزادی کا مہینہ جہاں خوشیاں لاتا ہے،
وہاں قربانیوں کی یادسے دل دکھی کر دیتا ہے ‘‘۔
’’جی۔۔۔‘‘ میں نے عقیدت سے کہا۔
’’پاکستان بن تو گیا ،لیکن جیسا میں نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کی قدرت نے مہلت نہیں دی‘‘۔
’’قائد۔۔۔! آپ کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے ؟‘‘
’’میں پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی فلاحی ریاست بنا نا چاہتا تھا‘‘۔
میری آنکھ الصلوۃ خیرمن النوم پر کھلی تھی۔
کرسی یوں ہل رہی تھی جیسے کوئی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں