کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ نئی سیریز/ڈاکٹر ستیہ پال آنند،قسط39

شاعری کی اقسام

کیا شاعری مختلف ”اقسام“ میں تقسیم کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کی درجہ بندی کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی شاعری اعلی ہے اور اس قسم کی اسفل ہے؟ تسلیم کہ ہمارے ہاں زمانہ ء قدیم سے کچھ ناموں کے چوکھٹے لکھ لیے گئے تھے اور ہم بغیر کسی جھجک کے ان کو (اعلےٰ اور اسفل میں تمیز کیے بغیر) آویزاں کر کے یہ فرض کر لیا کرتے تھے کہ ہم نے ان کی درجہ بندی کر دی ہے۔ یہ رزمیہ شاعری ہے۔ یہ بزمیہ شاعری ہے، یہ شاعری معلمانہ یا ناصحانہ یا مدرسانہ ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر قسم کی شعری تخلیق جو versificationکے زمرے میں فِٹ آ جائے، شاعری ہے۔ گویایہ تمیز بھی ضروری نہیں ہے کہ قافیہ پیمائی کے عمل کے دوران کس شاعری میں signified کا خاکہ پہلے سے ہی تیار کر لیا جاتا ہے اور وہ کون سی شاعری ہے جس میں signifier کا ظہور epiphany کی طرحLet There by Light یا ”کُن“ کی آ واز کے ساتھ ایک پکے ہوئے آم کی طرح ٹپک پڑتا ہے۔ اور یہ سب کچھ لکھنے کے بعد اگر میں خود سے یہ سوال کروں کہ صنف غزل کے زمرے میں آنے والی شاعری کس قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، تو جواب کیا ہوگا؟ اور اگر جواب پہلے سے طے شدہ signified کی آؤٹ لاین کا ہے، تو اسے اسفل شاعری کہنے میں کیا قباحت ہے؟
Man is the measure of all things.کس نے کہا تھا یہ؟یہ ضرب المثل Petrarch کے ایک جملے کا حصہ ہے لیکن آج کے ہیومنزم کا اوڑھنا اور بچھوناہے۔ سولھویں صدی میں سر طامس مور Sir Thomas More(1478-1535) اور مانٹین ؔMontaigne (1533-92)نے اس اصطلاح کو مذہب کے حوالے سے دیکھا،لیکن خدا کو انسان کی ذات سے الگ کر کے اسے انسان کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا عمل جاری رہا۔ اپنے اپنے علمی میدان ِ اختصاص میں Hobbes, Lock نے اس تصور کو وسعت دی۔ تب انیسویں صدی کے آخر میں ایک وقت وہ بھی آیا جب ”انتہا پسند الحاد“ اور ہیومنزم کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا گیا۔اس

کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط38
صدی میں انسان کو ایک ’خود مکتفی‘ Entity that is Totality also (وحدت جو کُل کو بھی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے)تسلیم کر کے اس بات پر اصرار کیا گیا انسان صرف خود مکتفی، اشرف المخلوقات لاانسان ال ما سعا ہی نہیں ہے وہ کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جب 1933ء میں امریکا میں دی ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی۔تو اس کے منشور کی پہلی سطر یہ تھی جو آج تک قائم ہے۔
Humanism the faith in supreme value and the self-respectability of Human Personality.
یعنی انسانی حقوق، مساوات، رواداری…اور ان اصولوں کے تحت انسان کے مسلسل ارتقا کے لیے انسان خود کفیل ہے اور اسے کسی آسمانی قوت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ساختیاتی مفکر جیکس لاکاں ؔکا قول ہے کہ ایک بچہ جب پہلی بار آئینے میں خود کو دیکھتا ہے تو اس کے ننھے سے دماغ میں اپنا عکس ایک ماورائی ہیولے  کے علاوہ او ر کچھ نہیں ہے۔اسے لاکاں میراۃ ا ٹیج کہتا ہے۔ لاکاں کا خیال ہے کہ یہ بعدکی کہانی ہے کہ نشانیات کی گواہی سے اور لسّانی نظام کے ذرائع سے بچہ دنیا سے واقف ہوتا ہے۔

انا پروری

انا پرور ی میں سمجھتا ہوں ایک وبا کی طرح اردو ادب میں گھس آئی ہے۔ مکتبی حیثیت یا حکومتی اداروں کے سربراہ ادب میں بھی نقاد یا شاعر کے طور پر سر براہی کا فریضہ سر انجام دینے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہ باور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ اردو کا پروفیسر ہونا یا اردو اکادمی کا صدر یا ڈائریکٹر ہونا انہیں یہ حق ہرگز نہیں دیتا کہ وہ ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘ کہہ کر یہ دستار ِ فضیلت خود ہی اپنے سر پر رکھ لیں۔پچاس کی دہائی میں جب میں فلسفہ میں بی اے (آنرز) کا طالبعلم تھا، میں نے ایڈلر Adler Alfred (1870-1937)کی انانیت اور مطلقیت کے بارے میں آراء کو بغور پڑھا تھا۔ آسٹریا کے اس مفکر نے انسان کے اندر اس پیدائشی عنصر کو سائنس، منطق، تشکیک اور تحلیل کے عمل سے گذار کر ایک بات آسان زبان میں کہی تھی کہ یہ احساس برتری اس احساس کمتری کا زائدہ ہے، جس میں ایسے اشخاص مبتلا رہتے ہیں، جو دوسرے لوگوں پر نکتہ چینی اپنے زعم میں اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ان سے کمتر ہیں۔۔ ادبی تنقید کا پیمانہ خطابت کی زبان نہیں ہے، علمیت کی بھاشا ہے۔ اپنی کم علمی پر پردو ڈالنے کے لیے ایسے اشخاص اکٖثر و بیشتر اپنی تقریر اور تحریر میں مطلقیت کا عنصر شامل کر دیتے ہیں اور اس لحاظ سے اس پر اعتراض کی گنجائش کے لیے دروازہ بھی وا نہیں رکھتے۔ ”فلاں شاعر غالب سے بھی بہتر شاعر ہے“، اسی قسم کی ایک تیقن بکف بات کا چرچاپچھلے برس ان صفحات پر اور اخباری کالموں میں بہت زیادہ ہوا۔ کہنے والے ایک ہندوستانی نقادتھے (شاید شمس الرحمن فاروقی) جو بعد میں تردید او ر باز دعویٰ کے منفیانہ عمل میں مصروف رہے، اور جس شاعر کے بارے میں کہا گیا (یا نہیں کہا گیا تھا) وہ ایک پاکستانی غزل گو شاعر (شاید ظفر اقبال) تھے،جو اس بات پر مصر رہے کہ قول ِ صالح ان کے اعلام میں ہے اور نقاد موصوف نے واقعی انہیں غالب اور میر سے اگر بہتر نہیں تو ہم پلہ ضرور تسلیم کیا تھا۔۔ اب سچائی کیا تھی، اسے تو ”وہ“ یعنی (نمبر ایک) اور”وہ“ (یعنی نمبر دو) ہی جانیں، لیکن اتنا کہا جا ساکتا ہے کہ ایسے جملوں میں وہ سب ادبی عوارض موجود ہیں جنہیں مطلقیت، ادعائت، انانیت اور عصبیت کہا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نظم کا ”میں“ کون ہے؟

کسی بھی نظم میں اگر ”مَیں“ (ضمیر متکلم، یعنی خود) واحد متکلم کے طور پر رطب ا للساں ہو، یعنی بولتا ہو، تو وہ کون ہے؟ کیا یہ وہی شخص ہے، جو شاعر ہے؟ یعنی شاعر ستیہ پال آنند کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔خصوصی طور پر مانولاگ میں (جو داخلی بھی ہو سکتا ہے اور خارجی بھی) کیا ”مَیں“ ہمیشہ ستیہ پال آنند ہی ہوتا ہے؟ اس مفروضے میں ردوبدل کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟میں نے اپنے ایک عرب اسٹوڈنٹ سے جو میرے خیال میں سب سے زیادہ لائق تھا، یہ سوال کیا۔ اس نے ایک بہت با معنی جواب دیا کہ اسی لیے تو عربی میں شعرا اپنا نام ظاہر نہیں کرتے تھے، بلکہ تخلص سے پہچانے جاتے تھے کہ ان کی اصل بیخ و بنیاد کیا ہے۔ شہر کا نام یا قبیلے کا نام اس کے ساتھ منسلک کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا تھا۔مجھے علم ہے کہ یہ روایت عربی سے فارسی میں آئی اور وہاں سے اردو میں وارد ہوئی۔ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں آج تک یہ روایت نہیں ہے۔ ہندی میں ’اُپ نام‘ (اسم ِ صغیر) لکھنے کا چلن شروع ہوا تھا لیکن بہت جلد ہی یہ رواج بھی ختم ہو گیا۔ مغربی زبانوں میں pseudonymnلکھنے کی روایت لگ بھگ پانچویں صدی عیسوی میں ختم ہو گئی تھی اور درجن بھر یورپی اور شمالی امریکا کے دو ممالک میں یہ چلن اس کے بعد شروع ہی نہیں ہوا …میرے اسٹوڈنٹ
نے جواب میں ایک قول دہرایا۔ انظوالی ِماقال و لاتنظو اِلی مِن قال،(جو حصرت علیٌ کے نام منسوب کیا جاتا ہے)،یعنی یہ دیکھو کہ کیا کہا جارہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔..لیکن یہ میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔اور نہ یہ قول درست تھا،(شاید حضرت علی ٌنے یہ کہا بھی نہ ہو)۔کیونکہ اگر ایک مسلمان کو یہ یقین ہو کہ یہ بات حضرت محمدؐنے کہی ہے، تووہ فوراً اسے سر جھکا کر تسلیم کر لے گا، اس لیے نہیں کہ اسے یقین ہے کہ یہ درست ہے بلکہ اس لیے کہ اگر یہ بات حضورؐ نے کہی ہے تو یقینا ً درست ہے۔ غلط ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا….لیکن اب بھی اپنے سوال کا جواب میں خود سے نہیں پا سکا۔
جب ستیہ پال آنند ایک نظم لکھتا ہے، تو اس کا ”ِمَیں“ یعنی واحد متکلم خود نہیں ہوتا، اس کے درون ِ دل میں مورتیوں کی طرح جامد و ساکت رکھی ہوئی کچھ شخصیات میں سے ایک شخصیت ہوتی ہے جسے وہ ایک کٹھ پتلی کی طرح فقط اس ناٹک کے دورانیے کے لیے زندہ کر لیتا ہے، جو اس کی نظم کا ہے۔ یعنی وہ شخصیت اس کی اپنی ہوتے ہوئے بھی اس کی اپنی نہیں ہے کیونکہ اس نظم کے واحد متکلم کے تشخص کی ضروریات کے مطابق اس میں رد و بدل کر لیا گیا ہے۔
کون ہے ہمارے دماغ کے اندر جو اس کی تشکیل کرتا ہے۔ فرائڈ نے جب ہمیں اپنے ”مَیں“ کا تصور ego یعنی ”انا“ کی شکل میں دیا جو پیدا ہوتے ہی ہمارے اندر اپنی ذات کا رکھوالا بن جاتا ہے، تو اس نے بھی اس mini-god کی حرکات پر نظر رکھنے کے لیے اور اس کو جامے سے باہر نکلنے سے بچانے کے لیے ایک super egoکا تصور ساتھ ٹانک دیا۔ فرائڈ سے چل کر جونہی ہم جیکس لاکان ؔؔتک پہنچتے ہیں ہمیں وہ ایک قدم آگے لے جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ پیدائشی انا پرور یہ بچہ جونہی اپنا زاویہ نگاہ یا نقطہ ئ نظر قائم کر لینے کی دماغی عمر تک پہنچتا ہے،تو وہ اپنی ایک تصوراتی شبییہ یا شخصی خاکہ بنا لیتا ہے۔ جب بڑوں کی نقل mimicry میں زبان سیکھتا ہے تو ”تم“، ”وہ“ اور ”میں“ کے مابین تمیز کرتے ہوئے وہ کبھی خود کو فاعل پاتا ہے، کبھی مفعول اور اس طرح اس کا ”مَیں“ ایک نسبی تشخص بن جاتا ہے۔ زندگی بھر وہ اپنے آدرش Ideal کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس لیے”میَں“ کی تشکیل grammatical construct ہے، یعنی لسانی تشکیل شدہ ڈھانچہ ہے وجودِ ظاہر نہیں ہے۔
میں نے اپنی چھہ سو سے کچھ زیادہ نظموں میں سے کم از کم ایک سو میں واحد متکلم ”میَں“ انہی معانی میں استعمال کیا ہے۔ کہیں کہیں یہ واحد متکلم عورت بھی ہے، تو کیا اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ ”میں“ کا اصلی وجود کوئی نہیں ہے، صرف اس نظم کے حوالے سے ہے؟صحیح جواب کا مجھے خود علم تو کیا، اندازہ بھی نہیں۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply