• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان انجینئرنگ کونسل الیکٹرونکس پنجاب کے نامزد امیدوار اعجاز احمد ضیاء (انٹرویو) حصہ اول۔۔۔۔۔۔ محمد کمیل اسدی

پاکستان انجینئرنگ کونسل الیکٹرونکس پنجاب کے نامزد امیدوار اعجاز احمد ضیاء (انٹرویو) حصہ اول۔۔۔۔۔۔ محمد کمیل اسدی

مکالمہ کے پلیٹ فارم سے میرا  پہلا انٹرویو پیش خدمت ہے امید کرتا ہوں  کہ قارئین کو پسند آئے  گا اور کمی کوتاہی کی صورت میں   رہنمائی فرمائیں گے۔ انجینئر اعجاز احمد ضیاء صاحب پاکستان انجینئرنگ کونسل الیکٹرونکس پنجاب کے پی ای جی (PEG) کی طرف سے نامزد امیدوار ہیں۔ الیکشن  12 اگست کو پاکستان بھر میں نامزد نادرا آفسز میں وقوع پذیر ہوگا۔ ہم مکالمہ کی جانب سےضیا صاحب کے  شکر گزار ہیں کہ  انہوں نے  اپنے  مشکل شیڈول میں سے وقت نکال کر ہمیں اس الیکشن کی گہما گہمی میں شامل کیا!
سوال:- السلام علیکم آپ کا تعارف ، ابتدائی اور اعلٰی تعلیم اور گریڈ کیا رہے؟
جواب: وعلیکم السلام ۔ سب سے پہلے مکالمہ ٹیم کا شکریہ جنہوں نے مجھے موقع  دیا کہ میں اس الیکشن کے بارے میں اپنا موقف پیش کرسکوں۔ میں نے پرائمری تعلیم لاہور جبکہ میٹرک اورایف ایس سی کی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کی۔ میٹرک اور ایف ایس سی دونوں میں اے ون گریڈ (80 فیصد سے زیادہ) حاصل کیا اور اس کے بعد داؤد انجینئرنگ کالج کراچی سے الیکٹرونکس میں انجینئرنگ کی۔ انجینئرنگ میں بھی اے ون گریڈ پوزیشن برقرار رہی۔ اس وقت داؤد کالج این ای ڈی یونیورسٹی سے ملحق تھا اس لئے ہمیں 1996 میں ڈگری این ای ڈی یونیورسٹی سے لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔
سوال: (انٹرویو کے دوران ہر منٹ بعد موبائل بجتے ہوئے)چونکہ آپ الیکشن کمپین میں کافی مصروف ہیں اس لئے نجی و معاشرتی سوالات اور مزید تفصیلات کی بجائے میں ڈائریکٹ ان سوالات کی طرف آتا ہوں جو پی ای سی الیکشن سے متعلقہ ہیں۔ لیکن اس وعدہ اور امید کے ساتھ کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد آپ اور چئیرمین صاحب مکالمہ ویب سائٹ کے لئے ترجیحی بنیادوں پر انٹرویو دیں گے۔ وہ کیا بنیادی وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر آپ نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچا یا ایسے کیا عوامل کارفرما تھے کہ آپ نے بھی سیاست کی طرف قدم بڑھانے کا سوچا۔ آپ کے پینل کے چئیرمین کون ہیں اور اس پینل کے انتخاب کی کیا وجہ ہے؟
جواب:- آپ نے کافی دلچسب سوال کیا۔ پری انجینئرنگ اور میڈیکل سٹوڈنٹس عموماََ بہت کم سوشل ہوتے ہیں اور زیادہ تر کتابوں میں مگن رہتے ہیں میں بھی ایک ایسا ہی طالب علم تھا لیکن جب میں نے داؤد کالج میں داخلہ لیا تو ماحول کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ میرے اندر کا سوشل ورکر بیدار ہو گیا۔ نئے طلباء کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہا۔ داؤد کالج کو منی پاکستان کہا جاتا تھا پنجاب سندھ، بلوچستان ، کشمیر ، کے پی کے ، گلت بلتستان غرضیکہ فلسطین و صومالیہ سے آئے ہوئے نئے طلباء کو رہائش ، ایڈمیشن، تعلیم اور دیگر مسائل کا سامنا رہتا تھا۔ میں نے بلامذہب و صوبائیت کی تفریق کے ہر ممکن کوشش کی کہ پریشان طلباء کے لئے کچھ نا کچھ کر سکوں۔ ایک دفعہ چار جعلی ڈومیسائل پکڑ کر انتظامیہ سے ان طلباء کے داخلے منسوخ کرائے اور جن طلباء کا حق تھا ان کے داخلہ میں بھرپور مدد کی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے سوشل کام کئے جن کے پیچھے اپنا ذاتی شوق اور جذبہ کارفرما تھا اور اسی شوق ، طبعیت اور رحجان نے پی ای سی الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔
جب ہم زیر تعلیم تھے تو ہمیں کالج و یونیورسٹی میں بہت سے مسائل درپیش تھے مجھے یہ بات عیاں ہو گئی کہ ان مسائل کے حل کے لئے ایک ہی پلیٹ فارم پی ای سی موجود ہے جس سے ہمارا مداوا ہو سکتا ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل الیکشن میں 20 سالہ رجسٹریشن کے بعد ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اس لئے ایک طویل انتظار کر بعد اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب اپنے انجینئرز کے لئے کچھ عملی اقدامات کئے جائیں۔ میں نے یہی سوچا ہے کہ اپنی سوشل سروسز ایک ایسے پلیٹ فارم سے شروع کرنے کا آغاز کروں جو میرے پروفیشن سے ریلیٹڈ ہے شروع میں میرا آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا ارادہ تھا۔ کیونکہ میرا کافی وسیع حلقہ احباب ہے سینئرز اور جونیئرز گزشتہ 35 سال سے رابطہ میں ہیں۔ لیکن پھر بعد میں پتہ چلا کہ پی ای سی میں پینل سسٹم ہے اس کے بغیر آپ انجینئرز کی مؤثر آواز نہیں بن سکتے۔ پی ای سی کے چوہان صاحب کے توسط سے انجینئر وسیم نذیر صاحب سے ملاقات ہوئی جو اس وقت پی ای جی پینل میں چئیرمین کے امیدوار ہیں۔ وسیم نذیر صاحب انجینئرنگ کونسل کے بانی ممبرز میں سے ہیں ۔ ان سے ملاقات بنیادی وجہ بنی کہ میں بھی ان کے پینل میں شامل ہو جاؤں۔ جن انجینئرز رائٹس کے لئے میں الیکشن لڑنا چاہتا تھا وہی وسیم نذیر صاحب کے پینل کے بنیادی نکات تھے۔ 5 اگست کراچی ڈنرمیں یہی نکات انتہائی تفصیل کے ساتھ انہوں نے بیان کئے تھے ( وڈیو لنک نیچے موجود ہے)
کمنیکیشن سکلز ، پریزنٹیشن سکلز، سوفٹ سکلزاور مینجمنٹ سکلز وغیرہ پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے ہم چاہ رہے ہیں کہ چھ ماہ کے ایسے کورسز پاکستان بھر میں اکیڈمیز یا انسٹیٹیوٹ میں مرتب کئے جائیں یہ وہی بنیادی نکات تھے جنکی وضاحت پر میں وسیم نذیر صاحب کا گرویدہ ہو گیا اور اس پینل کے انتخاب میں باقی پینلز پر مقدم کیا۔ اس کے علاوہ ایک اور بات نے بھی مجھے اس پینل کی طرف مائل کیا کہ وسیم صاحب پریکٹیسنگ انجینئرز ہیں جبکہ سابقہ تمام چئیرمین اور موجودہ چیئرمین بزنس مین ہیں اور پریکٹیسنگ تجربہ نہیں رکھتے۔ انجینئرز کے مسائل وہ افراد زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے فیلڈ میں وقت گزارا اور وسیم صاحب 35 سالہ تجربہ کے ساتھ زیادہ بہتر ڈیلیور کر سکتے ہیں۔
سوال: اس وقت الیکشن میں کتنے پینل متحرک ہیں اور آپ کس پینل سے وابستہ ہیں اور آپ کے پینل کے چیدہ چیدہ افراد کا تعارف؟
جواب:- اس وقت چار پینل کام کر رہے ہیں اور ان پینلز میں بھی 3،4 سب پینل کام کررہے ہیں۔ ہمارا پینل پی ای جی پروفیشنل ایکسیلنس گروپ میں چئیرمین انجینئر وسیم نذیر صاحب ایم بی اے فارن یونیورسٹی سے کیا ہوا ہے میک میکڈونلڈ یو کے بیس کمپنی کے پاکستان میں مینجنگ ڈائریکٹر ہیں اس کمپنی نے بہت بڑے بڑے پروجیکٹس کئے ہیں تربیلا ڈیم و اسلام آباد ائیر پورٹ میں انکی کنسلٹنٹ سروسز موجود ہیں۔ سینئر وائس چئیرمین کے امیدوار کیپٹن سرفراز عنایت اللہ قریشی تمغہ امتیاز، ڈاکٹر ممتاز احمد کمال یو ای ٹی ٹیکسلا سے وائس چئرمین پنجاب ، پشاور ڈویلمپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر عطاالرحمان خان، مہران یونیورسٹی کے پرو چانسلر ڈاکٹر نیاز میمن، وائس چئیرمین سندھ شفیق الرحمان کلہوڑ سوئی سدرن گیس، پاکستان ریلوے اور ایٹامک انرجی کمیشن سے ریٹائرڈ افراد اکمل جاوید صاحب وغیرہ بھی منسلک ہیں۔ بلوچستان سے ناصر مجید صاحب اور کومسیٹ سے ڈاکٹر شاہد ندیم ملک ، ڈاکٹر تبسم صاحب یو ای ٹی لاہور۔ پاکستان سٹیل ملز سے عبدالغنی صاحب جنرل مینجر۔ کامسیٹ لاہور سے کیمیکل کے ایچ او ڈی ڈاکٹر اسداللہ خان صاحب ایکس داؤدین۔
ہمارے پینل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ سب سے زیادہ پی ایچ ڈی اور ھائی سکلڈ انجینئرز اس پینل میں موجود ہیں۔
سوال:- ہم جس طرح دیکھ رہے ہیں کہ ہر صوبہ کی وائس چئیرمین یا جی بی امیدوار کی صورت میں ریپریزینٹیشن موجود ہے لیکن انتہائی حیرت کے ساتھ کہ عوامی انتخابات کی طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کسی بھی طرح سے کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے اور آپ کا پینل جیتنے کے بعد ان دونوں علاقوں کا احساس محرومی کس طرح ختم کرسکتے ہیں؟
جواب:- جی بالکل جو آپ پوچھ رہے ہیں ہم اس کے حامی ہیں۔ یہ ملی بھگت پہلے سے چلی آ رہی ہے انشاءاللہ ہم کامیابی کے بعد گلگت بلتستان اور کشمیر کو وائس چئیرمین اور جی بی کینڈیڈیٹ کے لئے ضرور نمائندگی دیں گے۔ اسی طرح ایک امیدوار کو ملک بھر سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے جبکہ وہ کسی ایک صوبہ کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔ اور وائس چئیرمین کے لئے صرف اسی صوبہ کا فرد ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔
سوال: ہماری یونیورسٹیز میں تھوک کے حساب سے انجینئرز پاس آؤٹ ہو رہے ہیں۔ جب کہ مارکیٹ میں انکی اتنی کھپت نہیں ہے۔ اس ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یا یونیورسٹیز ایڈمیشن سے پہلے پی ای سی سے اپروول لیں کہ کتنے انجینئرز کا بیچ ایڈمیشن لے گا۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت ایک لاکھ انجینئرز بے روزگار ہیں کیونکہ مارکیٹ میں اتنی ڈیمانڈ نہیں ہے آپ کا اس بارے میں کیا لائحہ عمل ہے؟
جواب:- آپ نے بہت زبردست سوال کیا ہے۔ دراصل پی ای سی کی بنیادی ذمہ داری یہی ریگولیش تھی جس پر بالکل کام نہیں کیا گیا۔ ہم اسی ریگولیشن کو کنٹرول کریں گے کہ اگلے دس یا بیس سالوں میں جتنے انجینئرز کی ضرورت ہے اتنے انجینئرز ہی مارکیٹ میں دستیاب ہوں۔
ہم انشاء اللہ اگر ضرورت ہوئی تو باہر سے ایسے ایکسپرٹ بھی بلائیں گے جو سروے کریں گے کہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو کیسے پورا کیا جا سکے بالخصوص جو انجینئرز پہلے سے مارکیٹ میں بے روزگاری کا شکار ہیں۔الیکشن میں آنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ چئیرمین صاحب کا مین فوکس بھی یہی پوائنٹ تھا کہ جب ایک انجینئر پاس آؤٹ ہو وہ اپنی فیملی کے لئے بے روزگاری کی صورت میں پریشانی کا سبب نہیں بنے بلکہ وہ فوراََ مارکیٹ میں اکاموڈیٹ کردیا جائے۔اگر ہم اسی ایلیمنٹ کو کنٹرول کر لیتے ہیں تو میرے خیال سے پی ای سی اپنا حق ادا کردے گی۔
سوال:- سر کیا پی ای سی کو کوئی متعین کردہ راہیں نہیں ہیں کیونکہ موجودہ پی ای سی چیئرمین کے ایک انٹرویو کے مطابق پی ای سی بلڈنگز اور ہوٹلز بنائے گی اور اپنے شئیرز بھی بینکس اور سٹاک ایکسچینج میں متعارف کرائے گی۔ جن شئیرز کو خریدنے سے انجینئر ہزار پتی سے لکھ پتی اور لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جائے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پی ای سی ایسا ادارہ ہے جو بزنس ڈیویلپ کرے یا انجینئرز کے فلاح کے لئے مناسب اقدامات کرے ؟
جواب:- اصل میں پی ای سی ایکٹ کے مطابق کام نہیں کیا جارہا۔ سینئر اکمل جاوید صاحب کے مطابق یہ 1976 ایکٹ کے بالکل منافی پروگرامز ہیں۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ پی ای سی کا مین کام ریگولیش، کوالٹی ایجوکیشن اور جاب کری ایشن ہے۔ موجودہ چئیرمین صاحب ایسے پروگرامز کے متعلق بتا رہے ہیں اور لوگ کم علمی کی وجہ سے انہیں جواب نہیں دے پا رہے کہ یہ ایکٹ کے سراسر خلاف ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply