انڈس ہائی وے یا پل صراط۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

کرک انڈس ہائی وے ایک ایسی شاہراہ ہے ،جس نے ملک کے کئی دوردراز حصوں کو آپس میں مربوط رکھا ہے،اس لیے  اس ہائی وئے پر بڑی گاڑیاں بھی دوڑتی نظر آتی ہیں ـ پہلے کوتل کی پہاڑی استعمال کی جاتی تھی مگر کوہاٹ ٹنل کی تعمیر کے بعد جنوبی اضلاع کے عوام کے لئے ترقی کی راہ کھل گئی ـ اور یوں ساری ٹریفک اس راہ پر گامزن ہوگئی اگر جنوبی اضلاع کے لئے جانے والی انڈس ہائی وے  بند کردی جائے تو صوبہ خیبر پختونخوا کا سارا کاروبار ٹھپ ہوجائے گاـ کیونکہ یہ واحد روڈ جنوبی پنجاب، کوئٹہ اور کراچی تک ملاتی ہے ـ صوبے کی درآمدات اور برمدآت اسی راستے سے ہوتی ہے ـ ملتان کی سبزیوں اور سوات کے فروٹ کو منڈی نہیں ملے گی ،کراچی میں کام کرنے والے کروڑوں محنت کشوں کا روزگار بند ہوجائے گا جبکہ کراچی کی کمپنیاں بند ہوجائیں گی کیونکہ انڈس ہائی وے جنوبی اضلاع کو ملانے والی واحد سڑک ہے ـ کوہاٹ ٹنل پر دھماکوں کے بعد دو دفعہ یہ روڈ بند ہوا تھا جس کے باعث عوام اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے بارہ سے اٹھارہ گھنٹے لگاتے تھے ۔کوہاٹ ٹنل( پاک جاپان فرینڈشپ ٹنل ) جنوبی اضلاع کے لوگوں کا حکومت سے ایک بہت دیرینہ مطالبہ تھا ، جس پر 1999ء میں جاپان کے تعاون سے کام شروع ہوا۔اور یوں یہ ٹنل 2003ء جون میں مکمل کر کے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا جس سے جہاں کوہاٹ سمیت باقی جنوبی اضلاع کا پشاور سے فاصلہ کم ہوا وہیں بڑی گاڑیوں کو بھی سہولتیں  میسر آئیں۔ اس سے پہلے کوتل بائی پاس پر ان گاڑیوں کے لیے بہت مشکل حالات ہوتے تھے۔ اس ٹنل کی وجہ سے وقت اور جان ومال کی بھی بچت ہوئی۔24 فروری، 2008ء کو دہشتگردوں نے اس ٹنل کے راستے سیکیورٹی فورسز کے لیے سپلائی لیکر جانے والے ٹرکوں کے ایک قافلے پر حملہ کر دیاتھا۔ یہ سپلائی جنوبی وزیرستان جا رہی تھی۔ 27 فروری کو فوج نے آرٹلری، ہیلی کاپٹرز اور ہیوی مشین گنوں کی مدد سے 24 دہشتگردوں کو مار کر ٹرکوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس کے بعد سے ٹنل کا کنٹرول فوج کے پاس ہے۔

یہ ٹنل انڈس ہائی وے کا ایک اہم حصہ ہے جو کوتل بائی پاس کا متبادل اور شہروں کے درمیان میں فاصلے کم کرنے کا ذریعہ ،علاقے کی معیشت اور ٹریفک صورتحال کی بہتری میں بھی مددگار ہے۔ روزانہ لاکھوں گاڑیوں کی  آمدورفت کی وجہ سے اب یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے ـ انڈس ہائی وے پر ٹنل کے بعد آمدورفت میں بہت اضافہ ہواـ جس میں بڑی گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے ـ جس سے اس روڈ پر جابجا کھڈے بن گئے ہیں جس سے ہر ہفتے حادثات میں قیمتی جانوں کا نقصان ہورہا ہے آج شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس عظیم منصوبے انڈس ہائی وے کا کریڈٹ محمد اسلم خان خٹک کو جاتا ہے ۔ اسلم خٹک کا تاریخی جملہ آج بھی ریکارڈ پر ہے جو اُنہوں نے  اس مجوزہ ہائی وے کے حوالے سے ایک جلسہ میں کہا تھا کہ اے لوگو! تمہارے علاقے پر سے دیکھنے میں ایک بلیک (سیاہ) اژدھا (تور خامار)گزرنے والا ہے ۔ اس اژدھا کے منہ میں زہر بھی ہے اور قیمتی موتی بھی ۔ کوشش کریں کہ اس کے زہر سے تریاق بنائیں اور موتی کو حاصل کرلیں ‘‘۔

انڈس ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے مجھے اکثر اسلم خٹک مرحوم کی یہ بات یاد آتی ہے ۔ آج یہ ہائی وے تریاق کے ساتھ ساتھ موت بھی بانٹ رہی ہے ـ کیونکہ کرک کے مختلف پہاڑی علاقوں میں تیل و گیس کی پیداوار ہے جس کی وجہ سے ہائی وے پر چوبیس گھنٹے بھاری لمبی گاڑیوں‘ کنٹینروں اور عام نقل و حمل اور سواریوں کی ٹرانسپورٹ زیادہ ہوگئی ہے مگراس سڑک کی مرمت نہیں ہورہی ـ سوائے ایک سیاست دان مسعود شریف خٹک کے باقی کسی کے سیاسی منشور میں اس انڈس ہائی وے کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں تھاـ مگر مسعود شریف خٹک الیکشن سے دور رہے_ یہی ہماری سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ باقی کسی بھی سیاسی رہنماء کے سیاسی منشور کا حصہ یہ روڈ نہیں رہاـ کسی نے اس سڑک پر ہونے والے حادثات کا ریکارڈ نہیں مانگا کہ اس انڈس ہائی وے پر اب تک کتنی اموات ہوچکی ہیں ـ ہر ہفتے جب اس روٹ کو گاؤں جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو راستے میں کہیں نہ کہیں ایکسیڈنٹ سے واسطہ پڑتا ہے ـ جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہےـ ٹرک اور ٹرالر کسی ناکسی چھوٹی گاڑی پر چڑھی ہوتی ہے جس کے باعث مرنے والوں کی شناخت نہںں ہوتی ـ کچھ دن پہلے لاچی کے قریب ہونے والے حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انڈس ہائی وے کی مرمت کی باتیں شروع ہوگئیں ہیں جس کے بعد یہ بات سامنے آگئی کہ انڈس ہائی وے پشاور تا ڈی آئی خان نیشنل ہائی وے اتھارٹی وفاقی حکومت کی منظوری سے کوہاٹ تا سرائے گمبیلا ڈی آئی خان کنسٹرکشن فرمز کو ٹینڈر ایشو کرچکی ہے۔اور شاہد خاقان عباسی نے بھی نوشپہ آئل پلانٹ میں اس روڈ کے حوالے سے حکام سے بات کی ہے جبکہ مظفر سید نے بھی اسے سی پیک روٹ میں ڈالنے کی بات کی تھی جس کی منظوری دی جاچکی ہے مگر ابھی تک اس کی اپ گریڈیشن اور ناگفتہ بہ صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دی ہے حالانکہ اس روڈ کو سی پیک لنک روٹس میں اولین ترجیح پر مکمل کرنا چاہیے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب پبلک ڈیمانڈ ہے کہ وفاقی حکومت اپنی حلف برداری کے ساتھ ہی ہنگامی بنیادوں پر انڈس ہائی وے ( پل صراط) پر کنٹریکٹ کے مطابق کام شروع کروائے ورنہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے جنوبی اضلاع کے عوام کو سڑکوں پر لانے کی تحریک شروع کی جائے گی تاکہ روز روز کے حادثوں سے نجات مل جائے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply