پاکستان، اسلام اور کرونا وائرس ۔۔وہاراامباکر

پاکستان کے شہروں میں پچھلے دو ہفتوں میں دکانوں کے باہر کچھ نئے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بجائے اس کے، کہ لوگ خریداری کر کے فٹا فٹ گھر بھاگیں تا کہ وائرس نہ لگ جائے، کئی پاکستانی خوراک، پیسے اور دوسری خیرات ان لوگوں کو دینے کے لئے رُک رہے ہیں جن کے پاس اس وقت اپنے بچاوٗ کے لئے کچھ نہیں۔ اور دیتے ساتھ وہ کئی بار درخواست کرتے ہیں کہ “دعا کریں کہ یہ آفت جلد ختم ہو جائے”۔

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے سخت احکامات ہیں۔ سکول بند ہیں۔ اجتماعات پر پابندی ہے۔ کاروبار بند ہیں۔ لیکن طویل مدت تک یہ سب بند رہنے کے معاشی نتائج کئی دوسرے ممالک سے زیادہ ہولناک ہو سکتے ہیں۔ سڑک کنارے چھابڑی لگا کر گزر بسر کرنے والے ہوں یا جوتے پالش کرنے والے۔ انہوں نے بہت دنوں سے ایک پیسہ نہیں کمایا اور وہ بھوکے ہیں۔ اور یہ غربت پاکستان کی تلخ حقیقت ہے۔

لیکن اس کے ساتھ امید بھی ہے۔

اس عالمی وبا کے دوران، بہت پاکستانی اکٹھے ہو رہے ہیں تا کہ کم خوش قسمت لوگوں کی مدد کر سکیں۔ اپنے منفرد انداز میں۔ زکوة ادا کر کے۔ ان لوگوں کی مدد کے ذریعے جن کے پاس کمائی کا کوئی طریقہ نہیں، صحت کی کوئی انشورنس نہیں، کوئی سیفٹی نیٹ نہیں۔

زکوة عربی کا لفظ ہے جس کے معنی پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ اور یہ اسلام کے بنیادی پانچ ستونوں میں سے ہے جو استطاعت رکھنے والوں پر فرض ہے۔ یہ یقین کہ دنیا عارضی ہے اور اس میں جو کچھ ملا ہے، وہ حق نہیں بلکہ خالق کی دین ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ ان میں تقسیم کرنا جو مشکل میں ہیں، ان پر احسان نہیں، ان کا حق ہے۔ زکوة اسی یقن کا عملی مظہر ہے۔

مالیکیولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر امتیاز احمد خان کہتے ہیں کہ جہاں پر سب کا فوکس اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے جسمانی صفائی پر ہے، وہاں زکوة کے ذریعے روحانی صفائی بھی ضروری ہے۔ اگر میرے آس پاس لوگ بھوکے ہیں اور میرا کچن سامان سے لدا پھندا ہے تو مجھے اس کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

پاکستانی قوم کے ڈی این اے میں سخاوت رچی بسی ہے۔ سٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی خیرات میں جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں جو دنیا کی اوسط سے دگنا ہے اور برطانیہ (1.3 فیصد) یا کینیڈا (1.2 فیصد) جیسے امیر ممالک کے قریب ہے۔ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت خیرات دینے میں یا رضاکارانہ طور پر کام کرنے میں پیش پیش ہے۔

سہیل خان کہتے ہیں، “بطورِ قوم، ہمارے پاس بہت زیادہ تو نہیں لیکن ہمارے دل کھلے ہیں۔ کسی دیہات جا کر دیکھ لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگوں کے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں۔ ہم نے مصائب دیکھے ہیں۔ ہم میں ہمدردی ہے۔ کئی بار ضرورت سے زیادہ۔ ہمیں آگاہی کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنا ہے کہ سماجی فاصلہ رکھنے کا مطلب دوسروں کو تنہا چھوڑ دینا نہیں”۔

جس طرح کرونا وائرس پھیل رہا ہے، پاکستانی اڑھائی فیصد زکوة سے بڑھ کر دے رہے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی دے رہے ہیں جو خود بھی بمشکل استطاعت رکھتے ہیں۔ کئی عطیات سے لوگوں کے راشن کے پیکٹ خریدے جا رہے ہیں تا کہ دیہاڑی دار لوگوں کو یا مستحقین کو روزانہ کی ضروری اشیاء جیسا کہ گھی، آٹا، دال، تیل، چینی وغیرہ دئے جائیں۔ عام طور پر لوگ رمضان میں ایسا کیا کرتے تھے لیکن یہ وقت رمضان کے انتظار کا نہیں۔

کئی لوگ غریبوں کی بستیوں تک سامان پہنچا رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر نئے سپورٹ گروپ بن رہے ہیں۔ احمد سماجد کہتے ہیں، “اس سے مجھے 2005 کا زلزلہ یاد آتا ہے جب قوم نے اکٹھا ہو کر ایک دوسرے کی مدد کی تھی۔ اب سڑکوں پر ریلیف کیمپ نہیں لگے ہوئے۔ لوگ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کر کے فنڈ جمع کر رہے ہیں، ریلیف مہیا کر رہے ہیں”۔

سارا فاوٗنڈیشن کی صبیحہ اخلاق کہتی ہیں کہ “حالات برے ہیں۔ جب ہم نے ایک شخص کے گھر پر راشن دیا تو وہ رونا شروع ہو گیا۔ چار لوگوں کی اس فیملی نے 29 گھنٹے سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ہماری تنظیم کو اس وقت میں عطیات ملنے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم روزانہ دو سو لوگوں کے گھر کھانا اور راشن پہنچا رہے ہیں۔ ہم نے خواجہ سرا کمیونیٹی میں امداد پہنچائی۔ ان کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ وہ بھی اپنی آمدنی کا ذریعہ کھو بیٹھے ہیں”۔

فلاحی تنظیمیں، جیسا کہ ایدھی فاوٗنڈیشن، سیلانی ٹرسٹ کی ہیلپ لائن اور وہاٹس ایپ نمبر ہیں جہاں پر لوگ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

عمران بلوچ، جو ایک بینکار ہیں، کہتے ہیں، “پاکستان میں انفرادیت یا کیپٹلزم کا روایتی تصور نہیں۔ لوگ بحران میں دوسروں کی مدد کرنا فرض سمجھتے ہیں”۔

پاکستانی کلچر کا حصہ یہ یقین ہے کہ اچھائی کا بدلہ اچھائی ہے۔ ہماری سخاوت وائرس سے زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ کرنے پر یقین اور انسانیت کی فلاح پر غیرمتزلزل ایمان۔ ان لوگوں کو سہارا دینا جن کا اس کے بغیر گزارا نہیں۔ ان کو امید پہنچانا جن کو اس کی ضرورت ہے۔

یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی امید ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رمضان کا مہینہ 23 اپریل کو شروع ہو رہا ہے۔ اگرچہ زکوة کسی بھی وقت دی جا سکتی ہے لیکن بہت سے لوگ زکوة کے لئے رمضان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ اس وقت لینے والے بہت سے لوگ اتنا انتظار شاید نہیں کر سکتے۔ اپنے معاشرے میں دوسروں کی مدد کا یہ بہترین پہلو کئی لوگوں کی محنت میں نظر آ رہا ہے۔ سب کو ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply