وجودِ زن اور بد رنگ معاشرہ

2009کی بات ہے،جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔۔ ویسے تو سیدھی سڑک ڈیپارٹمنٹ تک جاتی تھی،لیکن گرمیوں میں زیادہ تر طالبعلم اس سیدھی سڑک کی بجائے بائیں جانب بنے قائداعظم بلاک کے کوریڈور کو آنے جانے کے لیئے استعمال کرتے تھے،تاکہ کچھ فاصلہ چھاؤں میں طے ہوسکے۔۔اور پانی پینے کے لیئے کولرز بھی قائداعظم اور کیمسٹری بلاک میں ہی رکھے گئے تھے،(اب تو خیر نقشہ ہی بدل چکا).میں پہلے روز وہا ں گئی تو ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کے قریب ایک خاتون،جن کی عمر ساٹھ برس کے قریب تھی، کرسی پر بیٹھی نظر آئیں،کھنڈرات بتا رہے تھے کہ عمارت کبھی خوبصورت تھی،،درمیانہ سا قد،گوری رنگت، موٹے عدسوں کا چشمہ لگائے،وہ خاتون میرے سلام کرنے پر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور سر پر پیار کرتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ پڑھنے آئی ہو یا پڑھانے؟۔۔۔ میں نے بتایاکہ پڑھنے،آج پہلا دن ہے۔تو دعائیں دینے لگیں کامیابی کی۔۔۔ دو چار روز میں ہی میری ان سے اچھی دعا سلام ہو گئی،میرے پاس کچھ فارغ وقت بچتا تو ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی، ان کے چہرے کی جھریوں نے مجھے زندگی کے کافی تلخ تجربات سے آشنائی دی۔۔۔ میرے سوال کیے بغیر ہی کچھ نہ کچھ بتانا شروع ہو جاتیں۔ ان کے چار بیٹے تھے،سب شادی شدہ،تین بیٹیاں،دو بیاہی،اور ایک کنواری۔۔دونوں بیاہی بیٹیوں کا خرچہ بھی انہی کے ناتواں کاندھوں پر تھا،کہ نکھٹو داماد کسی کام کے نہ تھے، شوہر کئی برس گزرے فوت ہو چکا تھا۔

بیٹوں نے شادیوں کے بعد یہ کہہ کر الگ کر دیا کہ اپنے بچوں کا خرچہ اٹھائیں یا تمھارا۔۔۔ یہ خاتون یونیورسٹی میں ٹیچرز کے لیئے کھانے پینے کا انتظام کرتیں اور دفتری کاغذات ایک سے دوسرے کمرے میں پہنچا تی تھیں۔۔ایک روز پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔۔۔ان کے داماد نے ان سے موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ کی تھی،دوسری صورت میں بیٹی طلاق کے کاغذات کے ساتھ دروزے آ بیٹھتی۔۔اور ان کے پاس بس اتنے ہی پیسے تھے کہ یا تو داماد کو سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل خرید دیتیں یا پھر منگنی شدہ بیٹی کو مزید پانچ سال گھر بٹھاکر رکھتیں۔۔۔آپ اندازہ کیجئے اس مجبوری کا جو بڑھاپے میں کسی غریب کو رسوا کر وا دیتی ہے۔اس خاتون کا آنسوؤں سے تر چہرہ آج بھی میری نظر میں ہے۔۔۔ مجھ سے کہنے لگیں میرے شوہر حیات تھے تو میں کبھی دروازے پر بھی کھڑی نہ ہوئی تھی،نوکر ی کرنا تو دور کی بات ہے۔بس یہ زندگی کے مصائب والدین کو اولاد کے ہاتھوں ہی رسوا کردیتے ہیں،بیٹے اچھی نوکریوں پرہیں لیکن ان کے پاس ماں کی دوا ء کے لیے بھی ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں۔

اب چلیے ایک سوپر سٹور پر۔۔۔ جہاں پر آپ کو چاروں طرف سیلز گرلز ہی نظر آئیں گی، حنا نام کی سترہ سالہ لڑکی۔۔بے حدخوبصورت،جاذب نظر خدو خال کی مالک۔۔۔ وہ بھاگ بھاگ کر کسٹمرز سے پوچھتی ہے کہ انہیں کونسی چیز درکار ہے،اورشیلف سے مطلوبہ چیز تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے،اگر خدا نا خواستہ آپ حساس دل کے مالک ہیں تو اس کے الفاظ میں بآسانی اس کا کرب محسوس کرسکتے ہیں۔۔۔۔اس کا کہنا تھا کہ میرے ابونے دو سال پہلے دوسری شادی کی،ہم پانچ بہنیں،بھائی کوئی نہیں۔۔۔امی ایک گھر میں جھاڑو پونچھا کرتی ہیں۔۔ میں پڑھ رہی تھی،والد کے چھوڑنے کے بعد مجبوراً پڑھائی کو خیر باد کہہ کر یہ نوکری کرنا پڑی،مرد حضرات جان بوجھ کر مدد طلب کرتے ہیں کہ فلاں چیز کہاں ہے اور فلاں کہاں۔۔۔ کبھی ہاتھ چھونے کی کوشش تو کبھی کندھا کندھے سے ٹکرا گیا۔ عزت نفس باقی نہیں رہی، لیکن دو وقت کے کھانے سے پیٹ ضرور بھر جاتا ہے۔

اب آپ ایک پوش ایریا میں مردانہ جوتوں کی دکان پر چلیے،گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کرعزت سے شوہر کی کمائی پر عیاشی کرنے والی خاتون اس لڑکی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ بمشکل کر پائے گی کہ آخر کیا مجبوری ہوگی کہ اسے مردانہ جوتوں کی دکان پر کام کرنا پڑا۔۔۔جہاں وہ خریداری کرنے آئے مردوں کے پاؤں میں جوتے پہنا پہنا کر سائز چیک کرواتی ہے،اور چہرے پر خباثت سجائے مردوں کی ذہنی ابتری کی تسکین کا باعث بنتی ہیں۔

اب آپ ڈائیوو بس میں آجائیے۔۔۔ یہاں بس کے پائیدان پر پاؤں رکھتے ہی ایک پیاری شکل و صورت اور مدھر آواز کی مالک مگر حالات کی ماری سترہ،اٹھارہ سال کی ایک لڑکی خوش آمدید کہے گی۔۔۔بس میں سوار ہونے والے آدھے مردو ں کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ اسے گلے لگا کر اس خوش آمدید کا جواب دیں۔۔لیکن دل پر پتھر رکھتے بیچارے آگے اپنی سیٹ کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔۔۔بس ہوسٹس کے مائیک میں حفاظتی انتظامات سے متعلق اعلان پر ہوٹنگ شروع ہوجاتی ہے، شہزادی آواز تو نکال،کیہہ کہہ رہی ایں اُچی بول،آواز نئیں نکلدی تیری۔۔
اعلان ختم ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ گاڑی فرمائشی نعروں سے گونج اٹھتی ہے،ٹی وی پر گانے لگاؤ،کوئی جھکاس سی فلم لگا دے یار۔۔۔فلم کا چلنا ہوتا ہے کہ بیہودہ ڈائیلاگ اور اور پھٹی ہوئی آوازیں اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے لگتے ہیں، کوئی بہن کے ساتھ بیٹھا ہے تو کوئی ماں کے ساتھ لیکن نظریں ٹی وی سکرین پر جمی ہیں۔۔ اب دوبارہ سے باری آتی ہے کھانا سرو کرنے آئی ہوسٹس کی۔۔ جسے بار بار بیل بجا کر اپنی سیٹ پر بلا یا جاتا ہے۔۔
مجھے پیپسی کا ایک گلاس اور چاہیے،
میرا ہیڈ فون ٹھیک کام نہیں کررہا،
میری طبعیت خراب ہو رہی ہے آپ کے پاس کوئی ٹیبلٹ ہوگی؟
بار بار سیٹوں کے بیچ سے گزرتی وہ ڈری سہمی سی ہوسٹس سارا دن ہوس زدہ نظروں کا سامنا کرتی ہے،جائز رشتوں سے بدکے ہوؤں کی ٹھرک پوری کرتی ہے،۔۔اپنی سیٹ پر پھیل کر بیٹھے کسی واہیات انسان کی ٹانگ سے بچتی ہے تو کسی کو گلاس پکڑاتے ہوئے بدبو دار سوچ سے لبریز انگلیوں کے لمس سے اپنا ہاتھ بچاتی ہے۔۔۔لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ زندگی کے کون سے تاریک لمحے میں اس نے یہ نوکری کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا،کیا عوامل ہوں گے،کیا حادثہ ہوگا۔۔۔کوئی اندازہ نہیں کر پاتا کہ یہ زخمی روحیں کتنوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہر روز پل پل مرتی ہیں۔اتنی لمبی تمہید نے آپ کے ذوق مطالعہ کا مزا شایدکرکرا کردیا ہوگا۔۔۔چلیں اصل مدعا بیان کیے دیتی ہوں ۔۔

بات شروع ہوتی ہے جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شمع جونیجو نامی خاتون دوران سفر پی آئی اے جہاز میں ایک خاتون ہوسٹس کی تصویر ٹویٹر پر اس کیپشن کیساتھ لگاتی ہیں “دنیاکی سب سے عمر رسیدہ ہوسٹس جو مسافروں کا استقبال ایسے چہرے کے ساتھ کرتی ہیں”۔۔۔تصویر میں واجبی سے نقوش کی حامل خاتو ن کافی بیزار اور کسی حد تک غصے میں دکھائی دے رہی ہیں۔۔۔تصویر شیئرکرنے والی اپنے اس فعل پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہیں۔ بس تصویر کیا سامنے آئی کہ بڑے بڑوں کی تربیت کا راز فاش کر گئی۔۔۔ کسی نے آنٹی کہا،کسی نے چاچی تو کسی نے ما ں۔۔۔۔بظاہر یہ الفاظ برے نہیں ہیں،لیکن الفاظ کے استعمال کے لیے انسان کا انداز اچھا یا برا ہوتا ہے،خاتون کا جس انداز میں مذاق بنایا بلکہ اڑایا گیا ہے وہ قابلِ مذمت ہے،ایک حلقے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر نوکری کے کچھ اصول و ضوابط اور ریکوائرمنٹس ہوتی ہیں۔۔اسی طرح ائیر ہوسٹس کے لیئے خوبصورت اور خوش اخلاق ہونا بہت ضرور ی ہے۔ لیکن کیا یہ وجہ ہمیں ان کا مذاق اڑانے کی اجازت دینے کے لیے کافی ہے؟

ہر گز نہیں۔۔۔۔۔ مقامِ افسوس کہ ایک خاتون نے اس قضیے کو ہوا دی۔۔۔ جس کے بعد مردوں نے اس تصویر کو سوشل میڈیا پر اپنی اپنی وال پر شیئر کیا ۔۔۔وہیں کچھ لوگوں نے ایسا کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔۔اور ایک خاتون کی تصویر لگانے پر شدید احتجاج کیا۔۔احتجاج کرنے والے میں نوجوانوکی تعداد زیادہ رہی۔

جو لوگ اس عمر رسیدہ خاتون کے ائیر ہوسٹس ہونے پر اعتراض کررہے ہیں،ان سے مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ اس خاتون کے گھریلو حالات سے واقف ہیں؟اس کے مسائل سے آگاہی رکھتے ہیں؟اس وقت اس کے ایسے موڈ کی وجہ جانتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔یقیناً تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔۔۔
دراصل یہ ہمارا عمومی رویہ بن چکاہے،ہم بے حسی اور بے حیائی کی انتہاؤں پر ہیں۔۔ہماری تعلیم،ہماری ڈگریاں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں، ہماری تربیت پر بڑے بڑے سوالیہ نشان بے حد واضح ہیں۔ لیکن بے حسی و جہالت کا اژدھا ہماری اقدار کو نگل چکا ہے، علامہ نے کہا تھا کہ وجود، زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ۔۔۔ لیکن یہ شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایسا بدبودار معاشرہ اپنی بہن،بیٹی بہو،اور حتیٰ کہ ماں کے رنگ بھی گہنا سکتا ہے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسے افراد اپنے گھروں میں اپنی خواتین کے ساتھ کیسے پیش آتے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم کسی کی مجبوری نہیں جانتے اس کے مسائل نہیں جانتے،ہمارے پاس صرف چند انچ کی زبان ہے جو کسی کو بھی بخشنے پر تیار نہیں ہوتی، کاش ایسے مرد حضرات اور بیگمات یہ جان سکیں کہ اولاد کی خاطر،دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے گھر سے نکلنے والی عورت قابلِ تضحیک نہیں بلکہ قابلِ عزت و فخر ہے۔ کاش ہماری ڈگریاں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ کوئی بھی خاتون شوقیہ گھر سے با ہر نہیں نکلتی۔۔۔یہ پاپی پیٹ ہے،بھوک ہے، اور زندگی کی تلخ ترین حقیقتیں ہیں جن سے اگر آپ ناواقف ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply