مرد ہونا کافی نہیں /جمشید اقبال

پریاں اس قدر خوبصورت ہونے کے ساتھ اتنی بدذوق کیسی ہوسکتی ہیں ؟ بچپن میں اماں کے خالہ زاد تشریف لاتے تو یہ سوال ذہن میں سر اٹھالیتا ۔ موصوف کی عمر کوئی چالیس سال کے قریب تھی اور شادی کے نام سے بھاگتا تھا ۔ نانی اماں بھانجے پر دباؤ ڈالتیں تو وہ انہیں پریوں کے قصے سناتا جو اس پر عاشق تھیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صاحب کا نام بھی عاشق تھا جس کی شادی کے راہ میں کچھ عاشق مزاج پریاں سانپ بن کر بیٹھی تھیں۔

ہم بھائی غور کرتے تو پریوں کی بدذوقی پر حیرت ہوتی ۔ بعد میں بلکہ عرصہ بعد پتہ چلا کہ گاؤں دیہاتوں میں جن پر پریاں عاشق ہوتی ہیں ، دراصل اے سیکشؤل ہوتے ہیں ، اور سو میں ایک آدھ فیصد عورتیں یا مرد ایسے ہوسکتے ہیں ۔ اب ایسے لوگوں کی شادی کرادی جائے تو ان کے ساتھ ظلم ہے۔ اس کے علاوہ سو میں ایک آدھ فیصد عورتیں اور مرد ہم جنس پسند بھی ہوسکتے ہیں اور انہیں بھی زبردستی جنس مخالف کے ساتھ باندھ دیا جائے تو دونوں کے ساتھ ظلم ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ، اس دور کا علم ، لوگوں کی نام نہاد ازدواجی زندگیاں اور کچھ کی کال گذاریاں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں مگر ہمارا مذہب چونکہ ہر مرد لگنے والے کو مرد اور عورت لگنے والے کو عورت ، پھر دونوں کو سٹریٹ یعنی ایک دوسرے میں جنسی دلچسپی رکھنے والا مانتا اور ان کے نکاح پر زور دیتا ہے ، کوئی انسانی جسم کے بارے میں موجودہ علم کی سنتا ہے ، نہ  ازدواج کے نام پر مظالم دیکھتا ہے اور نہ ہی کال گذاریوں کی چیخیں سنتا ہے ۔

ہم اگر مان بھی لیں کہ لوگ محض جنسی صلاحیت رکھنے والے اور ایک دوسرے کی طرف راغب مرد اور عورتیں ہوتی ہیں تو بھی ہم یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ مرد عورت کے ساتھ رہنے کے آداب بھی جانتا ہے یا نہیں ؟ میں مردوں کی بات اس لئے کررہا ہوں کہ لڑکیوں کو ہمارا سماج پیدا ہوتے ہی اس کی تراش خراش معاشرے کے طے شدہ پیمانے کے طور پر کرنا شروع کردیتا ہے لیکن سٹریٹ مرد ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر سٹریٹ مرد شادی کا اہل ہے۔ اسے عورت کے ساتھ رہنا آتا ہے ۔ کیونکہ اس کا فیصلہ مرد کے عورت کے بارے میں خیالات کرتے ہیں اور ہمارے عام خیالات پاؤں کی جوتی ، خاوند پرست سمجھنا ہیں۔ خاوند خود کو خدا سمجھتا ہے اور جس کی باہر کی دنیا میں جتنی بے عزتی ہوتی ہو ، وہ گھر آکر اتنی خاتون کی کرتا ہے ۔ ایسے غیر متوازن تعلق میں خواتین کو اپنا گھر چھوڑ کر جو کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے وہ خدا کسی دشمن کو بھی برداشت نہ کرائے۔

چلیں یہ بھی برداشت ہوگیا ، پھر نکاح کو حکم سمجھنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ یہ جوڑا ، خاص طور پر مرد ، بچوں کا ، خاص طور پر لڑکیوں کا ، اچھا باپ ہوسکتا ہے ؟ بچے کی پرورش اور تربیت ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اور اس سے مشکل لڑکیوں کا باپ ہونا ۔ آپ مرد ہونے کے ناطے گھر میں چیخیں گے ، دھاڑیں گے تو آپ کی بیٹیاں سماج کے ہر مرد سے ڈر جائیں گی ۔ آپ کی ماں سے جیسا برتاؤ کریں گے وہ سمجھیں گی کہ عورت کے ساتھ ایسا برتاؤ معمول ہے ۔ اس کے علاوہ والدین اور خاص طور پر والد ہونا اس قدر نازک معاملہ ہے کہ جسے سمجھ لیا جائے تو کسی کو لمبے چوڑے نفسیاتی معائنوں کے بعد ہی بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی جائے ، لیکن جہاں نکاح کو مذہبی فریضہ بتایا گیا ہو ، وہاں جو جتنا جاہل اور باپ بننے کے لئے جتنا نا اہل ہو ، وہ اتنے زیادہ بچے پیدا کرلیتا ہے ۔

دنیا شاید ان نزاکتوں کو سمجھ کر قانون سازی کرے ، اور کر رہی ہے ، مگر ایسے سماج میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں جو ایک ایسے مذہب کو مانتی ہے جو آبادی کو سٹریٹ سمجھنے کی فاش غلطی پر مبنی ہے ، سب کا نکاح کرانا چاہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بُک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply