بستی، ایک باب۔ ۔ ۔ انتظار حسین

بندر جانے کس کس بستی سے کس کس جنگل سے چل کر آئے تھے۔ ایک قافلہ، دوسرا قافلہ، قافلہ کے بعد قافلہ۔ ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر، دوسری منڈیر سے تیسری منڈیر پر۔ بھرے آنگنوں میں لپک جھپک اُترتا، چیزوں کو اچک یہ جا وہ جا۔ ننوا تیلی نے چندہ جمع کر کے چنے خریدے اور گڑ کی ایک بھیلی پینٹھ والے تالاب میں جا کر کہ برسات کے سوا سارے برس میں خشک پڑا رہتا، چنے بکھیر سے، بیچ میں گڑ کی بھیلی رکھی، ساتھ میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے۔ بندر کودتے پھاندتے آئے، چنے اناپ شناپ کھائے۔ گالوں میں بھر لیے۔ بھیلی پہ لپکے۔ ایک بھلی سو بندر۔ فساد شروع ہو گیا۔ ڈنڈے تو موجود ہی تھے۔ دیکھتے دیکھتے سب بندر لٹھ بند ہو گئے۔ جس نے بھیلی اُٹھائی، اُسی کے سر پر ڈنڈا پڑا۔

بندروں نے دنوں ہفتوں دھومیں مچائیں۔ شبخوں، لوٹ مار اور بالآخر خانہ جنگی، اس کے بعد غائب چھتیں پھر سنسان، منڈیریں پھر ویران۔ مگر جب بجلی آئی ہے ان دنوں وہ بستی میں تھے اور منڈیر منڈیر نظر آتے تھے۔ کھمبے کہ موسموں کے ستم سہتے سہتے منظر میں رمل مل گئے تھے۔ اچانک پھر توجہ کا مرکز بن گئے۔ مزدور لمبی لمبی سیڑھیاں کاندھوں پہ اُٹھائے نمودار ہوئے۔ کھمبوں کے اوپری سروں پر صلیبی انداز میں سلاخیں لگیں، سلاخوں میں سفید سفید چینی کی سی گٹکیں درست ہوئیں۔ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک، دوسرے کھمبے سے تیسرے کھمبے تک تار تانے گئے اور سڑک سڑک کھمبوں پہ تار کھینچتے چلے گئے۔

فضا میں ایک نیا واقعہ ظہور پذیر ہو گیا تھا اور پرندوں کو پنجے ٹکانے کے لیے نئے ٹھکانے میسر آ گئے تھے۔ روپ نگر کے پرندے اب منڈیروں اور درختوں کی شاخوں کے محتاج نہیں رہے تھے۔ کوے منڈیروں پہ بیٹھے کائیں کائیں کرتے تھک جاتے تو وہاں سے اُڑتے اور کسی تار پہ جھولنے لگتے۔ کوئی نیل کنٹھ، کوئی شاما چڑیا، کوئی دھوبن چڑیا۔ اُڑتے اُڑتے دم لینے کے لیے کسی تار پہ اُتر آتی۔

پرندوں کی دیکھا دیکھی ایک بندر نے چھوٹی بزریا کی ایک منڈیر سے چھلانگ لگائی اور تاروں پہ جھول گیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پٹ سے زمین پہ آ رہا۔ ایک طرف سے بھگت جی، دوسری طرف سے لالہ مٹھن لال اپنی دکان سے اُٹھ کر دوڑے۔ حیرت اور خوف سے دم توڑتے بندر کو دیکھا۔ چلائے :

چندی نے لپک جھپک کنویں پہ جا ڈول ڈالا، پانی بھر کے لایا اور پورا ڈول بندر پہ انڈیل دیا مگر بندر کی آنکھیں بند اور بدن ساکت ہوتا چلا گیا۔

آس پاس کے منڈیروں پر جانے کہاں کہاں سے بندر اُمنڈ آئے تھے اور سڑک بیچ ساکت پڑے ہوئے اپنے رفیق کو دیکھ دیکھ کے شور مچا رہے تھے۔ پھر گلی محلوں سے لوگ دوڑے ہوئے آئے اور مرے ہوئے بندر کو حیرت سے تکنے لگے۔

“کون سے تار پہ لٹکا تھا؟”

“اس تار پہ” چندی سب سے اوپر والے تار کی طرف اشارہ کرتے۔

“تو بلی آ گئی؟”

“ہاں جی آ گئی۔ ادھر آدمی نے تار کو چھوا اور ادھر ختم۔ ”

دوسرے دن پھر ایک بندر تاروں پر کود اور دھپ سے زمین پر آ رہا۔ پھر بھگت جی اور لالہ مٹھن لال لپک کر وہاں پہنچے اور پھر چندی پانی سے بھرا ڈول لے کر دوڑا مگر بندر دیکھتے دیکھتے ٹھنڈا ہو گیا۔

بندروں میں پھر ایک کھلبلی پڑی۔ دور دور کی چھتوں سے کودتے پھاندتے آئے۔ بیچ سڑک پہ پڑے مردہ بندر کو ایک وحشت کے ساتھ دیکھا اور بساط بھر شور مچایا۔

بندر ہار تھک کر چپ ہو چلے تھے۔ بہت سے واپس ہونے لگے تھے کہ ایک موٹا تازہ بندر پنڈت ہر دیال کی اونچی لمبی منڈیر پر دور سے دوڑتا ہوا آیا۔ غصے سے منہ سرخ، بال بدن پر تیروں کی طرح کھڑے ہوئے۔ کھمبے پہ چھلانگ لگائی، کھمبے کو اس زور سے ہلایا کہ وہ بودے پیڑ کی طرح ہل گیا۔ پھر وہ اوپر چڑھا اور پوری قوت کے ساتھ تاروں پہ حملہ آور ہوا۔ تاروں پہ کودتے ہی لٹک گیا۔ گھڑی بھر لٹکا رہا، پھر ادھ موا ہو کے زمین پر گر پڑا۔ بھگت جی لالہ مٹھن لال اور چندی تینوں نے پھر اپنا اپنا فرض ادا کیا۔ بندر نے پانی پڑنے پر آنکھیں کھولیں، بے بسی سے اپنے درد مندوں کو دیکھا اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔

بندر چھتوں چھتوں کودتے پھاندتے آئے۔ لگتا تھا کہ سب سڑک پر اُتر آئیں گے، مگر بس وہ منڈیروں پہ منڈلاتے رہے، چیختے چلاتے رہے پھر ایک دم سے چپ ہو گئے جیسے کسی خوف نے انہیں آ لیا ہو۔ پھر منڈیریں خالی ہونے لگیں۔

شام ہو رہی تھی۔ موٹا بندر ابھی تک سڑک پہ پڑا تھا۔ آس پاس کی کسی منڈیر پہ کہیں کوئی بندر نہیں تھا۔ روپ نگر اپنے تین بندروں کی بھینٹ دے کر بجلی کے زمانے میں داخل ہو گیا اور بندر ایسے غائب ہوئے کہ ہفتوں تک کسی منڈیر، کسی چھت، کسی درخت پہ کوئی بندر دکھائی نہیں دیا اور تو اور کالے مندر کے بڑے پیپل پہ بھی، جہاں ہر موسم، ہر دنوں میں بندر شاخ شاخ اُچکتے لٹکتے نظر آتے تھے، سناٹا تھا۔

روپ نگر کا نرجن بن اسی کالے مندر سے شروع ہوتا تھا۔ دیواروں اور گنبد پر اتنی کائی جم گئی تھی اور جم کے کالی پڑ گئی تھی کہ پورا مندر کالا کار دکھائی پڑتا تھا۔ اندر باہر سب سنسان جیسے صدیوں سے یہاں نہ سنکھ پھنکا ہو، نہ کسی پجاری نے قدم رکھا ہو۔ جتنا اونچا مندر تھا اتنا ہی اونچا اس کا پیپل جس کی ٹہنیوں پر سدا بندر جھولتے رہتے۔ سوائے ان دنوں کے جب ادھر کوئی لمبی رسی جیسی دم اور کالے منہ والا لنگور آ نکلتا کہ اُس کے دیکھتے ہی بندر غائب ہو جاتے۔ کالے مندر سے آگے کربلا تھی کہ سال میں ایک عاشورہ کے دن کے سوا ویران دکھائی دیتی جیسے سچ مچ کربلا ہو۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک ٹیلہ جس پہ عمارت کے نام ایک برجی کھڑی رہ گئی تھی اور قلعہ کہلاتی تھی۔ آگے راون بن بالکل اجاڑ۔ دور تک میدان ہی میدان جس کے بیچوں بیچ ایک بھاری بڑھ کا پیڑا کھڑا تھا۔ بستی سے نکل کر بندو اور حبیب کے ساتھ گرمی کے دوپہروں میں گھومتا پھرتا جب وہ اس طرف آ نکلتا اور کالے مندر کی سرحد کو پار کر لیتا تو اسے لگتا کہ وہ کسی دوسرے براعظم میں داخل ہو گیا ہے۔ کسی بڑے جنگل میں جہاں پتہ نہیں کس گھڑی کس مخلوق سے مڈھ بھیڑ ہو جائے، اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔

کالے مندر والے بندروں سے شاد آباد پیپل سے گزرتے گزرتے وہ ٹھٹکا “یار” اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔

“کیا ہے بے ؟” حبیب نے بے پرواہی سے پوچھا۔

“آدمی” اس نے ڈری ہوئی آواز میں کہا۔

“آدمی ! کہاں ؟” حبیب اور بندو دونوں ایک دم سے چونکے۔

“وہ” اس نے قلعے کی طرف اُنگلی اٹھائی جہاں ایک اکیلا آدمی چلتا نظر آ رہا تھا۔

اس نرجن بن میں آدمی! کیوں ؟ کیسے ؟ آدمی ہی ہے یا۔ ۔ ۔ مگر خود آدمی کے ہونے کا خوف بے پایاں تھا۔ بس وہ ایک دم سے اُلٹے پیروں بھاگ کھڑے ہوئے۔

بندو تو اسی گھر میں رہتا تھا کہ شریفن بوا کا پوت تھا۔ حبیب سے یارا نہ تھا۔ دونوں کے ساتھ اس نے کتنی آوارہ گردی، کتنی دشت نوردی کی تھی۔ مگر صابرہ کے آنے کے بعد اس کی آوارہ گردی میں فرق پڑتا چلا گیا۔

صابرہ، پہلے تو اس نے اس کا صرف نام سنا تھا، جب خالہ جان کا گوالیار سے خط آتا اور اس میں لکھا ہوتا کہ طاہرہ اور صابرہ اچھی ہیں۔ سب سلام کہتی ہیں۔ خالہ جان گوالیار میں رہتی تھیں کہ خالو جان، جو بی اماں کے بھتیجے تھے، وہیں ملازم تھے۔ مگر ایک دن تار آیا خالو جان کے دنیا سے اُٹھ جانے کا۔ امی نے روٹی پکاتے پکاتے تو اُلٹ دیا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ بی اماں بین کر کر روئیں۔

بس اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد سامان اور سواریوں سے لدا پھدا اور چاروں طرف سے چادر سے تنا ہوا کہ گھر کے پھاٹک کے سامنے آ کر رُکا۔ ابا جان ایک لمبی چادر لے کر باہر آئے۔ ایک کونا اُسے پکڑایا، ایک کونا خود پکڑا۔ ایک سمت میں تو اس طرح پردہ کیا۔ دوسری سمت میں کوئی آدمی چلتا پھرتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھرا کے کا پردہ اُٹھا۔ خالہ جان اُتریں۔ خالہ جان کے ساتھ دو لڑکیاں، ایک طاہرہ باجی اور دوسری صابرہ جسے خالہ جان سبو کہہ کر پکار رہی تھیں۔ بس لگتا تھا کہ اس کے برابر کی ہے۔

پہلے تو صابرہ اس سے الگ الگ رہی۔ وہ جھینپا جھینپا سا اس سے دور پھرتا رہا مگر کنکھیوں سے اُسے دیکھتا رہا۔ پھر جھجکتا جھجکتا اُس کے قریب آیا “آؤ سبو کھیلیں۔ ”

“میاں ذاکر” ابا جان داخل ہوتے ہوئے بولے “لگتا ہے کہ آج بھی یہ لوگ سونے نہیں دیں گے۔ ”

“جی” وہ ہڑبڑا کر جنگل سے نکلا۔

“میاں یہ لوگ جلسہ کر رہے ہیں یا ہلڑ بازی کر رہے ہیں ”

“ابا جان تحریکوں میں یہی ہوتا ہے۔ جوش میں لوگ بے قابو ہو جاتے ہیں۔ ”

“کیا کہا، تحریک؟ یہ تحریک ہے ؟ بیٹے کیا ہم نے تحریکیں دیکھی نہیں ہیں۔ تحریک خلافت سے بڑی بھی کوئی تحریک ہوئی ہے اور مولانا محمد علی، اللہ اللہ! جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ انگارے برس رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی کلمہ تہذیب سے گرا ہوا ہو۔ خیر وہ تو مولانا محمد علی تھے، ہم نے تو کبھی کسی رضا کار کو بھی تہذیب سے گری ہوئی بات کرتے نہیں دیکھا۔ انگریز کو مردہ باد کہا اور بات ختم کر دی۔ ” ابا جان چپ ہوئے۔ پھر جیسے یادوں میں کھو گئے ہوں، بڑبڑانے لگنے “بس اس بزرگ سے ایک ہی خطا ہوئی کہ جنت البقیع کے معاملے میں ابن سعود کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُس کے اس گناہ کو معاف کرے اور اُس کی قبر کو نور سے بھر دے۔ بعد میں وہ خود بھی اس حمایت پہ بہت پچھتائے تھے۔ ”

وہ دل ہی دل میں مسکرایا، ابا جان بھی خوب ہیں۔ ابھی تک تحریک خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

“اور تم کیا کر رہے ہو؟”

“خیال تھا کہ صبح کے لیے لیکچر تیار کروں گا۔ ۔ ۔ ”

“اس شور میں کوئی کام ہو سکتا ہے۔ ” ابا جان نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

“ہاں بہت شور ہے مگر جلسہ شادی آج جلدی ختم ہو جائے۔ کل تو باہر سے آئے ہوئے لیڈروں کی وجہ سے لمبا کھنچا تھا۔ ”

“میاں مجھے تو جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آتا”۔ رکے، پھر بولے “ہمارے زمانے میں بھی جلسے ہوتے تھے۔ شور ہوتا بھی تھا تو جلسے سے پہلے۔ مقرر سٹیج پہ آیا اور لوگ مؤدب ہو کر بیٹھ گئے کیا تہذیب تھی اُس زمانے کی۔

وہ مسکرایا۔ ابا جان تحریک خلافت کے زمانے سے ابھی تک باہر نہیں آئے ہیں۔ مگر جب وہ یوں سوچ رہا تھا تو اسے لگا کہ جیسے وہ بھی ابا جان کے پیچھے پیچھے گزرے زمانے میں چلا جا رہا ہے۔ کیا تہذیب تھی اُس زمانے کی۔ کبھی کوئی اونچی آواز میں بولا تو ابا جان نے فوراً سرزنش کی۔ میاں ہم اونچا نہیں سنتے۔ کبھی طاہرہ باجی نے تیز لہجے میں بات کی تو بی اماں نے ٹوکا “ارے لڑکی تیرے گلے میں کیا پھٹا بانس رکھا ہے۔ ” اور جب ساون بھادوں کی ترنگ میں طاہرہ باجی نے سہیلیوں کے ساتھ لمبے لمبے جھولے لیے تھے اور اونچی آواز میں ہنسی تھیں تو بی اماں نے فوراً ٹوک دیا تھا۔

“بیٹی یہ کیا ٹھیکرے پھوٹ رہے ہیں۔ ”

ساون بھادوں، جھولا، گیت، پکی نیم کی نبولی۔ ۔ ۔

“اچھا، ہم چلتے ہیں۔ نیند تو آئے گی نہیں۔ ” یہ کہتے ہوئے ابا جان واپس جا رہے تھے۔ “اور اب تم بھی آرام کرو”

اس نے ان کی بات سنی ان سنی کی۔ ایک دور کی آواز سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی:

پکی نیم کی نبولی ساون کب کب آوے گا

جیوے موری ماں کا جایا ڈولی بھیج بلاوے گا

طاہرہ باجی اپنی سہیلی کے ساتھ کتنے لمبے لمبے جھونٹے لے رہی تھیں اور صابرہ کتنی حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اسی آن باورچی خانے سے خالہ جان کی آواز آئی “طاہرہ!”

“جی”

“بیٹی! کب تک جھولا جھولو گی۔ کڑھائی پہ آ کے بیٹھو۔ تھوڑی پھکئیں پکا لو۔ ”

طاہرہ باجی کے چلے جانے کے بعد وہ سبوکے پاس آیا “سبو آؤ جھولا جھولیں۔ ”

جب وہ صابرہ کے ساتھ لگ کر جھولے میں بیٹھا تو لگا کہ نرمی اس کے اندر اُتر آ رہی ہے، گھل رہے ہیں ۔ جی چاہ رہا تھا کہ بس اسی طرح جھولتا رہے۔ مگر صابرہ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ “ہم تیرے ساتھ نہیں جھولتے۔ ” وہ اچانک جھولے سے اُتر پڑی۔

“کیوں ؟” ہکاّ بکّا رہ گیا۔

“بس نہیں جھولتے۔ ”

وہ حیران اور اُداس کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے قریب پہنچا۔

“سبو”

“ہم تجھ سے نہیں بولتے ”

صابرہ کو جب وہ کسی طور منا نہ پایا تو وہ اُداس اُداس وہاں سے چلا۔ یوں ہی اس کا رُخ زینے کی طرف ہو گیا۔ زینہ چڑھ کر وہ اوپر کھلی چھت پر پہنچ گیا۔ چھت کچی تھی۔ اور چونکہ مینہ کو بند ہوئے دیر ہو چکی تھی اس لیے مٹی جم گئی تھی۔ جیب سے چاقو کا وہ ٹوٹا ہوا پھل نکالا جو پنسل بنانے کے لیے جیب میں رکھا کرتا تھا۔ جمی ہوئی مٹی پر نوک کو اس طرح چلانا شروع کیا جیسے شکر پارے کاٹ رہا ہو۔ تھوڑی دیر میں صابرہ بھی بھٹکتی ہوئی وہیں آ پہنچیں۔ بڑی توجہ سے اسے شکر پارے کاٹتے دیکھتی رہی۔ مگر اب وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ صابرہ کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ شکر پارے بناتے بناتے جب جی بھر گیا تو اپنے لیے اک نئی مصروفیت پیدا کر لی۔ جہاں مٹی زیادہ خشک ہو گئی تھی وہاں اس نے مٹی کو کریدا۔ تھوڑا گڑھا بن گیا تو اپنا ایک پاؤں اس میں رکھا اور کریدی ہوئی ساری مٹی اس پہ جما دی۔ پھر آہستہ سے اپنا پاؤں نکال لیا۔ مٹی کا ایک غار سا بن گیا۔ صابرہ بڑی توجہ سے دیکھتی رہی۔ پھر بولی “یہ کیا ہے ؟”

“قبر” اس نے صابرہ کی طرف دیکھے بغیر بے تعلقی سے جواب دیا:

“یہ قبر ہے ؟” صابرہ نے حیرت سے پوچھا۔

“ہاں ”

حیرت سے قبر کو دیکھتی رہی، پھر بولی اس طرح کہ لہجے میں گرمی آ گئی تھی۔ “ذاکر ہمارے لیے بھی قبر بنا دے ”

“خود بنا لے ” اس نے روکھا سا جواب دیا۔

صابرہ اس کی طرف سے مایوس ہو کر اپنی قبر آپ بنانے کا جتن کرنے لگی۔ مٹی بہت ساری کھُرچی۔ کھرچی ہوئی جگہ میں اپنا ننگا پاؤں رکھا۔ پھر اُس پہ کھرچی ہوئی مٹی کو جمایا۔ پھر آہستگی سے پاؤں نکالا۔ پاؤں نکالتے ہی مٹی کی چھت گر پڑی۔ وہ اس کی ناکامی پر کھلکھلا کر ہنسا۔ مگر صابرہ نے حوصلہ نہیں چھوڑا۔ دوسری دفعہ پھر اس نے کوشش کی، پھر ناکام ہوئی۔ تیسری دفعہ پھر کوشش کی اور اس مرتبہ اس نے واقعی اتنی نفاست سے پاؤں باہر نکالا کہ مٹی کا ریزہ تک نہیں گرا۔ صابرہ نے اپنی کامیابی پر ناز کیا اور اس کی قبر پر نظر ڈالتے ہوئے اپنی قبر کو دیکھا:

“میری قبر اچھی ہے۔ ”

“ہوں، بڑی اچھی ہے ” اس نے صابرہ کا منہ چڑایا۔

“پاؤں ڈال کے دیکھ لے ”

اس تجویز پہ وہ ٹھٹھکا۔ کچھ سوچا۔ پھر دھیرے دھیرے کر کے اس نے اپنا پاؤں بڑھایا اور صابرہ کی قبر میں کھسکا دیا۔ پھر دل ہی دل میں قائل ہوا کہ سبو سچ کہتی ہے اور اپنا پاؤں دیر تک اس نرم گرم قبر میں رکھے رہا۔

اس کے بعد اس کی طبیعت کا تکدر خود بخود دور ہو گیا۔ صابرہ سے اس کے تعلقات پھر سے خوشگوار ہو گئے۔ جب دوسری مرتبہ بناتے بناتے صابرہ کی قبر ڈھے گئی تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کا گورا پاؤں صاف کیا۔ پھر جیب سے سیپ نکالی۔

“سبو سیپی لے گی؟”

“ہاں لوں گی” اُس نے للچائی نظروں سے سیپ کو دیکھا۔

سیپ اُس سے لے کر صابرہ نے پیشکش کی “چل جھولا جھولیں ”

چھت سے اُترتے اُترتے اُنہوں نے طاہرہ باجی اور سہیلی کی آواز سنی:

اماں آڑو جامن گھلے دھرے

اماں میں نہیں کھاؤں میری ماں

اماں تتا پانی بھرا دھرا

اماں میں نہیں نہاؤں میری ماں

اماں دھانی جوڑا سلا دھرا

اماں میں نہیں پہنوں میری ماں

اماں ساجن ڈولا لئے کھڑا

اماں میں نہیں جاؤں میری ماں

وہ پلٹے اور پھر چھت پہ آ بیٹھے۔ اب کیا کریں۔ اس نے ایک نئی تجویز پیش کی۔

“سبو!”

“ہوں ”

“آؤ دولہا دلہن کھیلیں۔ ”

“دولہا دلہن؟” وہ سٹپٹا گئی

“ہاں جیسے میں دولہا ہوں اور تم دلہن ہو”

“کوئی دیکھ لے گا” وہ گھبرا گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس اسی دم ایک دم سے بادل گرجا کہ دونوں ڈر گئے اور فوراً ہی مینہ اس زور سے برسا کہ کھلی چھت سے زینے تک پہنچتے پہنچتے دونوں شرابور ہو گئے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply