نذیر قیصر-تیسرا حرف /پروفیسر عامر زرین

نذیر قیصرؔدورِ حاضر میں جدید غزل کے نمائندہ شاعر، دانشور، ادیب اور صحافی ہیں۔ نذیر قیصرؔ صاحب کی ادبی تخلیقات اور خدمات کے بارے میں‘‘ لکھنا ’’تو شاید آسان لفظ ہے لیکن ‘‘احاطہ کرنا’’ انتہائی مُشکل ہے۔درجن بھرسے زائد اُردو، پنجابی اور انگریزی زبان میں تصانیف کے خالق ہیں۔ انگریزی اور اٹالین زبان میں آپ کی کُتب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ دُنیا بھر بالخصوص پاک و ہندو کے ادبی حلقوں میں ایک معتبر حیثیت کے حامل ہیں۔سُخنوری میں نہایت سلیس اور سادگی کے پیراہن میں عمیق موضوعات کو شعروں میں ڈھالنا قیصر صاحب کا ہی کمالِ فن ہے۔ان کی چند تصانیف درج ذیل ہیں،آنکھیں،چہرہ، ہاتھ (1968)، گُنبدِ خوف سے بشارت (1984)، اے شام ہم سخن ہو (1997)، ‘‘دوپہر کا چاند’’ (2022)، آپ کے منتخب کلام کا انگریزی ترجمہ (2022)”I am Awake In جس میں 80 غزلیں اور20 نظمیں شامل ہیں۔ پنجابی تصانیف میں ‘‘ قسم فجر دے تارے دی’’ (پنجابی مجموعہ ء نظم) اور ‘‘ زیتون دی پتی’’ (پنجابی شعری مجموعہء کلام) قابلِ ذکر ہیں۔

نذیر قیصرؔ صاحب ادبی محفلوں میں خاموش بھی اُتنے ہی جاذب نظر شخصیت ہیں جیسے وہ اپنے شعری اسلوب کے حوالے سے ایک جُداگانہ پہچان رکھتے ہیں۔قیصرؔ صاحب کے کمالِ تغزل کا سحر ہے کہ ُان کے منفرد زبان و بیان ، زاویہء نظر اور فطری محاصل سے کشید کئے گئے موضوعات پر مبنی اشعار ، ایک حساس اورصاحبِ ذوق قاری بار بار پڑھتا اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ اُردو ادب میں شاعرِ خوش خیال نذیر قیصرؔ کی پہچان اُن کا سلیس، شیریں اور نغمگی کا حامل کلام ہے۔

نذیر قیصرؔ کی شخصیت اور فن ِ شاعری کی مختلف جہتوں پر بہت کچھ لکھا اورکہا گیا۔ دُنیائے ادب کے چند مشاہیر ، قیصرؔ صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، ملاحظہ کریں۔

قیصر صاحب کے جُداگانہ اور منفرد اسلوب کے بارے میں معروف شاعرفیض احمد فیضؔ کے بیان سے اقتباس ملاحظہ کریں:

“نذیر قیصرؔ ایک منفرد شاعر ہیں مگر ان کی انفرادیت اجتماعی شعور سے وابستہ ہے۔ان کے پیرایہ ء اظہار میں تنوع بھی ہے اور موضوع ِ سُخن میں آدرش بھی۔ وہ سیدھی مگر گہری بات کرتے ہیں۔ ان کا کلام ابہام سے مبرا ہے اور اس کے افکار و جذبات ایک صحت مند ذہن اور درد مند دل کا پتہ دیتے ہیں۔”

معروف ادیب، شاعر اور دانشور احمد ندیم قاسمی نے نذیر قیصرؔ کو ‘‘ذہین اور شدتِ احساس کا شاعر’’ کہا ہے۔ اپنے ایک بیان میں وہ لکھتے ہیں۔

نذیرقیصرؔ غیر معمولی شدتِ احساس کا شاعر ہے، اس کا کلام پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یہ خوف دامن گیر ہوجاتا ہے کہ کہیں اس نوجوان شاعر کے دماغ کی نسیں نہ پھٹ جائیں۔ نذیر قیصرؔ کو جدید تر شاعری کے معماروں میں شامل کرنا چاہیے۔

’’ ہندی اور پنجابی ادب کی معروف ناول نگار اور شاعرہ امرتا پریتم ، قیصر صاحب کے بارے میں کہتی ہیں

مان لیا کہ پہلا حرف خُدا کا نام ہے اور دوسرا موت کی پرچھائیں مگر میری مبارک باد ‘‘تیسرے حرف’’ کو ہے یعنی نذیر قیصرؔ کو، جس کی ذات کا چراغ ہر جگہ روشن ہے۔ ’’ امرتا پریتم نے نذیر قیصرؔ کو کرشن کہا ہے۔ ‘‘……کرشن جو محبت کی علامت ہے، جو رادھا کے گیت کی پُکار ہے، جو میرا کے ہونٹوں پر بھجن ہے، جو آکاش کی آواز ہے، جو پانی کا ذائقہ ہے، جو بھیدوں کا سناٹا ہے۔ 

نذیر قیصرؔ کے فن و شخصیت پر پروفیسر فتح محمد ملک ، اپنے ایک مضمون میں ایوبّ آمریت کے طلوع و غروب کے اثرات قیصرؔ کے ادبی رُحجان ،ادبی نشو ونما، احساس اور شعور کو محسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

ماورائی احساس اور باطنی تجسس نذیر قیصرؔ کے ہاں سیاسی شعور اور انقلابی آرزو مندی کی دھار کو کند کرنے کی بجائے اور زیادہ تیز کرنے کا وسیلہ ہیں۔ اس کی فنی انفرادیت کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ آغاز کار ہی سے وہ عصری شاعری کے دو مختلف دھاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو لینے کی بجائے ہر دو دھاروں کو اپنے قلب و ذہن میں جذب کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ 

عہد ساز شاعر ظفر اقبال، نذیر قیصر کی جُداگانہ شاعری کے بارے گویا ہوتے ہیں،

نذیر قیصر شاعری میں نہ صرف چیزوں کے درمیان نئے نئے رشتے تلاش کرتا ہے بلکہ بظاہر اجنبی اور دُور افتادہ اشیاء کو نئے رشتوں میں مُنسلک بھی کر دیتا ہے۔ یہ مصوری میں استعمال ہونے والے طریق کار کو لاج کی اگلی منزل سے یہاں تک پہنچنے کے لئے بطورِ خاص صاحب ِ توفیق کا ہونا ضروری ہے۔ 

نذیر قیصرؔ کی سُخنوری کے سادہ اسلوب اور موضوعاتی دبازت کو سطحی انداز سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ قیصر ستر کی دہائی میں دیارِ سُخن میں پہچان کروانے والے ایک نامور شاعر ہیں جن کی فکری تازگی اور موضوعاتی تنوع نے انہیں دورِ حاضر میں جدید اُردو غزل کے نمائندہ شعراء کی صف میں ایک معتبر پہچان اور مقام دیا ہے۔وہ جدید اُردو غزل کے معماروں میں شمار ہوتے ہیں۔ گذشتہ پانچ عشروں یعنی نصف صدی کا عرصہ ہونے کو آیا ، غزل گوئی ان کی اہم انفرادی شناخت رہی ہے۔اُن کے ہاں الٰہی تخلیقات ان کی شاداب علامات اور استعارے باہم مل کر ایک خوب صورت تصویر بناتے ہیں۔ فطری شاہکاروں سے ان کا والہانہ لگاؤ ہے اور اُن کا مشاہدہ اُن کے رویے اور مزاج میں رچا بسا نظر آتا ہے۔ اُن کے اظہاری پیراہن غزل ہو یا نثر دونوں اسلوب میں معنوی ہمہ جہتی کا ایک اثر انگیز تاثر ملتا ہے۔اُن کے ہاں غزل میں موضوعات کا دائرہ کار جُداگانہ اوروسیع ہے۔

نذیر قیصرؔ کا شعری تشخص ، اُن کے تصور اور مشاہدات سے مشترک ہے۔راقم کی نظر میں قیصرؔ ایک درویش صفت دانش ور ہے جو اپنی فطرت میں گُم ہے ، اس کے قُرب و وصل کو محسوس کرتا ہے اور اُن سے ہمکلام نظر آتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ایک فطری، عصری اور تہذیبی شعور سے ربط رکھتا ہے۔کسی دانشور کے بیان سے اقتبا س ہے، ‘‘ لفظ جب علامت بنتے ہیں اور اساطیری کہا نی پن سے روشناس ہو کر معنوی پرتیں کھولتے ہیں تو ایک جہاں وجود میں آتا ہے جس کی فضا اور پھر اس کی ماحولی تصویر…… اہلِ ذوق قارئین کو ابلاغ کہ تہہ در تہہ سطحوں سے آشنا کرتی ہے۔’’ نذیر قیصر ؔپر یہ اقتباس صادق آتا ہے،اُن کے ہاں معیاری سُخن وری کی اساس بننے والے پیش منظر اور پسِ منظر ایک دوسرے میں مدغم ہو کر شاہکار سُخن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

زیرِ نظر تحریر نذیر قیصر کے باکمال قلم سے لکھے گئے منتخب خطوط سے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ بالخصوص وہ خطوط جو ماہنامہ الحمراء، لاہور کے مختلف شماروں میں مُشتہر ہوئے۔اِن خطوط میں اُن  کی اجتماعی باتیں بھی کی ہیں اور انفرادی نظریہ ء شعر بھی بیان کیا۔ خط و کتابت کے حوالے سے قیصرؔ کیا خوب لکھتے ہیں،‘‘ یہ روایت محبتیں تقسیم کرنے کے عمل کے مترادف ہے۔’’ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جب دوریوں اور فاصلوں کی خلیجیں دافع ِ وصل ہوں تو جدائیوں کی شدت کو کم کرنے اور دلوں کو ملانے والے یہ خطوط اور ابلاغ کے ذرائع ہی ہیں جو اُمید اور آس کی شمعیں جلائے رکھتے ہیں۔بین الاقوامی ادب ہو یا پھر علاقائی ادب اہلِ علم کے لکھے گئے خطوط (مکتوب) میں علم و ادب، تحقیق، جستجواور تخیلات کے گوہر پوشیدہ ملتے ہیں۔، خطوط کا بہترین مجموعہ عظیم اور اچھے لوگوں کی اُمیدوں، پریشانیوں، جوش و خروش، مایوسی اور مزاح کو ظاہر کرتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں نذیر قیصرؔ کے منتخب خطوط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کے نثری اسلوب کا جائزہ لیاگیا ہے۔

اگرچہ اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار اُن کی سُخنوری میں ملتا ہے لیکن مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہونے والا اُن کا نثری بیان، اپنی ہیت، تکنیک اور اظہار کے حوالے سے اُردو کلاسک نثر کا قابل ِ قدر سرمایہ ہیں۔جبکہ قیصرؔ کی خوب صورت متنوع شاعری صاحبانِ ذوق کو اعلٰی ترین ادب سے روشناس کرواتی ہے۔

اپنے مکتوب بنام ‘‘محفلِ احباب’’ ( ماہنامہ الحمراء، لاہور)میں معروف اور غیر معروف شعرا ء کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے نذیر قیصر ؔلکھتے ہیں، ‘‘…… شعری صفحات بھی اپنے ناموں کے ساتھ ساتھ نئے ناموں سے بھرے ہوئے ہیں جو کہیں کہیں کچی پکی شاعری ہوتی ہے مجھے وہ بھی اچھی لگتی ہے۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ………… ’’ اپنے ہم عصر شاعر ظفر اقبال کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں،‘‘……ظفر ؔنے کہا تھا جو بُرا شعر نہیں کہہ سکتا وہ کبھی اچھا شعر بھی نہیں لکھ سکتا ہے اور پھر شاعری تو ایک الاؤ اور بناؤ کی طرح ہے بس اس میں جلتے پگھلتے جائیے لکھتے جائیے سنورتے جائیے اور تخلیقی عمل میں خود کو بدلتے بھی جائیے۔’’

نذیر قیصر خواتین دانشور اور مصنفین و شاعرات کا تہہ ِ دل سے احترام کرتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں گویا ہوتے ہیں، ‘‘ مجھے آج محترمہ بشریٰ رحمن کا ذکر کرنا ہے کہ وہ ایک صوفی ہیں اور رابعہ بصری کی طرح پوری صوفی ہیں۔ یہ جو روایت ہے کہ تصوف میں ڈھائی صوفی ہیں جس میں آدھی صوفی عورت کو کہا گیا ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ روایت بھی کسی مرد نے گھڑی ہوگی، ورنہ عورت ہر شعبہء زندگی میں مکمل ہے۔ فکشن میں‘‘ آگ کا دریا’’ جیسا ناول کسی مرد نے نہیں لکھا بلکہ عبداللہ حسن کا ‘‘اُداس نسلیں’’ تک قراۃ العین حیدر کے اسی ناول کی توسیع ہے۔’’
اپنے دوست اور ہم عصر شاعر ظفر اقبال کی عقیدت اور احترام میں لکھتے ہیں، ‘‘ظفر اقبال تو خیر ہمار ا عہد ہیں اور آنے والے عہد کی آواز بھی ہیں ۔ اور اپنے ایک شعر کا حوالہ بھی دیتے ہیں:
پانچویں سمت نکالی میں نے
پھر میرے ساتھ زمانہ نکلا
میرؔ و غالبؔ سے ظفرؔ تک قیصرؔ
شاعری میرا گھرانہ نکلا

مذکور بالا اشعار کے تناظر میں لکھتے ہیں، ‘‘ ظفر اقبال گذشتہ دو صدیوں سے آنے والے والی صدیوں تک غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ،راشدؔ اور مجید امجدؔ کی طرح ایک گھرانے کا نام ہے جو ہمیشہ زندہ خیال کی طرح محوِ سفر رہے گا۔’’

نذیر قیصر اپنے ایک خط میں تخلیقی عمل کو کیا خوب صورت طریقہ سے پیش کرتے ہیں ، ‘‘ …… تخلیقی چاک پر گھومتے بنتے لفظوں کو چھونا اور انہیں صحیح سلامت اُتار لینا ہر کسی کے ہاتھوں کا مقدر نہیں ہوتا۔ ’’

اس سفرِ زیست میں کٹھن مسافت کی صعوبتوں کا احساس اُس وقت بلکل نہیں ہوتا جب ہمسفیرانِ چمن کا ساتھ ہو اور ہم خیال دوست جن کے ساتھ مختلف مسئلہ ہائے ادب و سُخن پر تبادلہ خیال کیا جا سکے ۔دوستوں سے اپنی عقیدت کے حوالے سے قیصرؔ صاحب کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
اچھے بھی دُعا ہوتے ہیں
اچھے چہروں کی زیارت کرنا
دوست بھی ہوتے ہیں بچوں کی طرح
اپنے بچوں کی حفاظت کرنا

نذیر قیصر اپنے ایک خط میں رہِ عدم سُدھارجا نے والے اہلِ فکر و قلم دوستوں کو یاد کرتے ہیں اور یو ں گویا ہوتے ہیں، ‘‘…… گذشتہ دنوں ہمارے بہت سے پیارے ہم سے بچھڑ گئے جن میں ……اجمل نیازی، رُوحی کنجاہی اور بشریٰ رحمن شامل ہیں۔ ان تینوں شخصیات سے میرے بہت قریبی مراسم رہے…… بشریٰ کی ذات میں بیک وقت بہت سی جہتیں جمع ہوگئیں تھیں۔ سیاست ، ادب، تصوف اور مذہب۔ اس امتزاج نے انہیں نکھارنے کے ساتھ پریشان بھی کر رکھا تھا اور وہ شریعت اور طریقت دونوں کو ملانے کی کوشش میں بکھرتی جاتی تھیں…………جملہ تخلیق کرنے کی بجائے بنانے پر زیادہ زور دیتی تھیں ۔ مگر جملہ سازی میں بھی بہاؤ اور اور بے ساختہ پن کا خیال رہتا تھا…… شریعت اور طریقت کو ملانے جلانے میں اپنا روحانی اسلوب قائم رکھتی تھیں۔ ویسے بھی تصوف ایک رومان ہی تو ہے وقت سے نکلنے کا زمان و مکاں سے ماورا ہونے کا……میں نے اُن کے بارے میں چند چھوٹی چھوٹی باتیں کی ہیں یہ باتیں جُڑ کر زندگی کا بڑا منظر نامہ ترتیب دیتی ہیں۔ ’’

اپنے عزیز دوست شاہد علی خان، مدیر ماہنامہ‘‘الحمراء’’ لاہور کی والدہ کی رحلت پر اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھتے ہیں، ‘‘…… اپنی ماں سے بچھڑنے کا دُکھ مجھ سے زیادہ اور کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ میں نے تو اپنی ماں کو دیکھا بھی نہیں۔ میری پیدائش کے بعد ہی وہ مجھ سے بچھڑ گئی تھی۔جب بھی کسی عزیز کی والدہ کے انتقال کا سُنتا ہوں تو لگتا ہے کہ آج پھر میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی۔ مجھے اپنی ٹیچرز اور تما م کرم فرما خواتین میں زیادہ تر ماں کی صورت ہی دکھائی دیتی رہی ہے اور محبوبہ میں بھی۔’’
اُس کی آنکھیں میری ماں سے ملتی ہیں
میں نے پہلی بار اُسے پہچانا ہے

اس ضمن میں آپ مزید لکھتے ہیں‘‘میری آنکھیں عورت کے ہر روپ میں مامتا کی چمک تلاش کرلیتی ہیں۔ حقیقت میں بوڑھے باپ کو بیٹی بھی ڈانٹ ڈانٹ کر میڈیسن دیتی ہے، اور باپ کہتا ہے‘‘ تم میری ماں بننے کی کوشش نہ کرو، میری ماں۔ ’’ ماں بھی کیا مقدس رشتہ ہے……’’

ایک دانش ور کا اظہارِ خیال نثر ی پیرائے میں ہو یا پھر شعر ی اسلوب میں، مختلف زمان و مکاں میں تغیر پذیر ہوتا ہے۔ نذیر قیصرؔ اپنے مکتوب میں ایک مقام پر ابلاغ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے گویا ہوتے ہیں، ‘‘ انسانی زندگی کا سب سے بڑا وصف اور مقصد ابلاغ ہے، لفظ و خیال سے ایک دوسرے تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اور ادب توانسانی اقدار کے فروغ کا سب سے بڑا اور موئثر ذریعہ ہے۔

نذیر قیصر اپنے فن ِ سُخنوری پر تنقیدی اور توصیفی مضامین لکھنے والوں دوستوں سے اپنے ایک خط میں مخاطب ہیں کہ،‘‘ اُن کا اسلوب، زاویہء نظر اور فطری محاصل سے مزین اشعار، شاعری کے مروجہ معیار پر پورے نہیں اُترتے۔’’قیصرؔ کی یہ بات راقم کی نظر میں انتہائی عاجزی اور انکساری پر مبنی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ،‘‘ میں بچوں کے لئے لکھتا ہوں، جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ مجھے باغوں اور سڑکوں پر کھڑے درخت روک لیتے ہیں،بہتے ہوئے جھرنے اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ شاخوں، پتوں، بیل بوٹے میں بنتی مٹتی عبارتیں اور چہرے آواز دیتے ہیں۔آدمی فطرت سے نیا رشتہ قائم کرکے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔فطرت ماں اور محبوبہ کی طرح مہربان ہے۔’’

نذیر قیصرؔ اُردو شاعری میں یاسیت کے حوالے سے میر ؔ اور ناصر کا ظمی کے دوَر کی نااُمیدی اور مایوسی کے پس منظر میں تحریر کرتے ہیں، ‘‘کسی نے مجھے کہا میرؔ سے ناصرؔ تک کی شاعری میں مایوسی اور یاس کی وجہ سوسائٹی ہے۔ معاشرہ جو ایک شاعر /ادیب کو دیتا ہے وہ وہی لوٹا تا ہے۔’’ ساحر لدھیانوی کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہیں کہ ،
دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں

نذیر قیصرؔ ایسے دانش وروں اور ناقدین کے بیان کی نفی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں، ‘‘ہم نے شاعری کو اپنی ذات سے الگ ایک فن ایک کسب و ہنر بنا رکھا ہے۔اس لئے ہم اپنی غزل اور نظم کواصناف کے علاوہ موضوعات میں بھی تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔قو می اور ملی اشعار لکھ کرمُلک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ اظہار آپ کی شاعری سے کیوں نہیں ہوتا؟ محبت محبوب کی ہو یا اپنی مٹی کی ، وہ آپ کی ذات کا حصہ ہونا چاہیے۔ آپ کی سانسوں اور خُون میں رچی بسی ہو،خُدا ، کائنات اور انسان یہ سب آپ کی ذات سے اظہارِ برملا اور رچے بسے ہونے چاہیے۔پھر شاعری محض فن نہیں رہے گا، آ پ کی ذات کا محور بن جائے گی۔’’

Advertisements
julia rana solicitors london

دُنیائے ادب میں نذیر قیصرؔ کی خوب صورت شخصیت اور فن ہمارے لئے ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔اُن کی ذات خود میں ایک یونیورسٹی ہے۔ نذیر قیصرؔ کی فطرت سے محبت نے انہیں روایت سے ہٹ کر اعلٰی درجے کا ادب تخلیق کرنے کا ہنر عنائت فرمایا ہے اور یہی اُنسیت اُن کے نثری بیان میں بھی در آئی ہے۔ ادبی حلقوں اور معزز قارئین میں قیصرؔ کی ذات، شخصیت اور فن قابلِ رشک اور لائقِ تقلیدہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply