جنت دوزخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فکشن) ۔ قسط 2

جنت دوزخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فکشن) ۔ قسط 2

اس سے پہلے کہ مارک کچھ بولتا، جنت کی ایک سمت سے زور زور سے ڈھول اور باجوں گاجوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ سب مڑ کر اس جانب دیکھتے ہیں۔ ایک سفید دودھیا خوبصورت گھوڑے پر ایک نورانی چہرے والا باریش شخص براجمان ہے، اس نے انتہائی خوبصورت ریشمی لباس زیب تن کر رکھا ہے، سر پہ سبزعمامہ اورگردن میں ہیرے جواہرات لپیٹ رکھے ہیں۔ گھوڑے کے ارد گرد چند باجوں والے بھرپور جوش سے باجے بجاتے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں. حسین وجمیل عورتوں کا ایک ٹولہ گھوڑے کے پیچھے ہاتھوں میں رنگ برنگے رومال تھامے خوبصورت انداز سے رقص کرتا ہوا چلا آ رہا ہے ۔ ٹولے کے ارد گرد سفید روشنی کا ہالہ سا ہے جو بہت ہی مسحور کن منظر پیش کر رہا ہے. ہر ناچنے والی عورت کا قد تقریباً ساٹھ سے ستر فٹ کے آس پاس ہے. جب یہ ناچتا گاتا ٹولہ قدرے قریب پہنچتا ہے تو کیا دیکھتے ہیں باریش شخص گھوڑے پر اکیلا نہیں بلکہ ایک انتہائی حسین وجمیل عورت بھی اس کے پیچھے بیٹھی ہے. اور کھلکھلا کر ہنس رہی ہے. عورت بے حد اعلی دلہنوں جیسے چمکدار جوڑے اور زرق برق سونے اور ہیروں کے زیورات سے لدی پڑی ہے۔
مارک : جناب یہ کون لوگ ہیں ؟
مینجر : گھوڑے پر بیٹھے شخص مفتی صاحب ہیں۔ دنیا میں انہوں نے ہماری تعلیمات کی بڑی جانفشانی سے تبلیغ کی۔ ہر وہ فتویٰ دیا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔
مارک: آپ کو دنیا میں خدا کا نظام چلانے کے لئے مفتی درکار ہوتے تھے؟ کیا آپ کی تعلیمات ان کے فتوؤں کی مرہون منت تھیں؟ اینی ویز، یہ بتائیے کہ یہ ناچتی گاتی ہوئی لمبی خوبصورت عورتیں اور مفتی کے پیچھے بیٹھی سجی بنی عورت کون ہے ؟؟
منیجر: ناچنے گانے والیاں حوریں اور غلمان ہیں جو کہ ان مفتی صاحب کو ا ن کی بے مثال خدمات کے عوض ہماری طرف سے عطا کی گئی ہیں، جو عورت مفتی کے پیچھے بیٹھی ہے وہ دراصل ایک بہت بد چلن اور فاحشہ عورت تھی۔ مرنے سے پہلے ایک ماڈل تھی. دنیا میں اس نے بہت شر پھیلا رکھا تھا. یہ تمھاری بنائی ہوئی فیس بک پر اپنی قابل اعتراض لائیو وڈیوز اپ لوڈ کرتی تھی. لوگوں کو بے حیائی اور فحاشی کی طرف مائل کرنا اس کا دلچسپ مشغلہ تھا۔
مارک :اگر یہ اتنی ہی بری تھی تو اس کو تو جہنم میں نہیں ہونا چاہیے تھا ؟
منیجر : یہ عورت مفتی صاحب کے مرنے سے پہلے مری تھی اور جنم کی آگ میں جل رہی تھی چونکہ جنتی کے دل کی ہر حسرت یہاں پوری کی جاتی ہے لہذا جب مفتی صاحب جنت میں تشریف لائے تو ان کی سفارش پر اس کو جنت میں منتقل کر دیا گیا. دراصل دنیا میں مفتی صاحب اس عورت سے محبت کرتے تھے اور شادی کے خواہشمند تھے۔ مفتی صاحب نے اس عورت کو بہت سمجھایا تھا بہت تبلیغ کی تاکہ یہ عورت راہ راست پر آجائے اور مفتی صاحب اس کو اپنے گھر کی عزت بنا سکیں مگر یہ عورت مان کر ہی نہ دی، الٹا مفتی صاحب کو برا بھلا کہنے لگی جس پر مفتی صاحب نے مایوس ہو کر اس کے خلاف فتویٰ دے دیا. اور مفتی صاحب کے ایک جانثار نے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اس عورت کا قصہ پاک کردیا۔
پھر جب مفتی صاحب فوت ہوئے تو اس عورت کو عذاب سے چھڑایا۔ چونکہ مفتی صاحب اس عورت کو بھول نہیں پائے تھے لہذا آج ان کی شادی ہو رہی ہے۔
ایک دوزخی : جناب کیا یہ عجیب نہیں کہ جس انسان سے محبت ہو اور جسے راہ راست پہ لانے کی شدید چاہت بھی رکھتا ہو، اسی کے خلاف اعلان جنگ کر دے اور اسے بے دردی سے مروا بھی دے۔ ایک اور بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں مذہبی یا دوسرے نیک لوگ جو بے حیائی کے کاموں سے ہر وقت روکتے تھے، وہ یہاں آکر عورتوں کی شدید خواہش کریں گے؟
منیجر : کیا مطلب ہے تمہارا؟
دوزخی : سر ہمیں بچپن سے اور خصوصاً” مشرق میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اپنے کردار کو ہمیشہ پاکیزہ رکھنا ہے. اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے مراسم رکھنا گناہ ہے۔ اگر نوجوانی کے دنوں میں ہم کسی غیر عورت کا ناچ گانا دیکھتے تھے تو ہمارے بزرگ سخت ناراض ہوتے تھے کیونکہ اسے بے غیرتی سمجھا جاتا تھا اگر کوئی شخص ایسے کاموں میں زیادہ مبتلا ہوتا تو لوگ کہتے تھے کہ یہ بے غیرت کنجر ہو گیا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا نیک اور پرہیزگار بزرگ یہاں آکر بیس بیس چالیس چالیس عورتوں کے ساتھ رہے، ظاہر ہے اگر وہ دنیا میں اسے بے غیرتی سمجھتا تھا تو یہاں اس پاک جگہ پر اس کا ضمیر کیسے مر گیا” ؟
اور دوسرے تمام بہشتی دوست احباب, رشتے دار, والدین اور اولاد، کیا یہ سب ایک دوسرے کو شراب پیتے اور عورتوں کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھیں گے۔ ان کو ایک دوسرے سے شرم نہیں آئے گی؟
مارک: جناب کوئی تو بات ایسی ہے جو سمجھ نہیں آ رہی۔ اس ساری کہانی میں کچھ نہ کچھ مِسنگ ہے. بات کچھ اور ہے مگر بتائی کچھ جارہی ہے۔
ایک اور بات، مفتی صاحب کے جس جانثار نے اس فاحشہ عورت کا قتل کیا تھا، جیسا کہ میں نے اپنی فیس بک پہ نیوز بھی دیکھی تھی کہ اسے عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پھانسی دی تھی اور دنیا سے انصاف پانے کے بعد وہ شخص جنت میں داخل ہو گیا تھا۔ میرے لیے باعثِ حیرت بات ہے کہ یہاں وہ قاتل اسی موسیقی اورشراب و شباب جیسی قبیح و مکروہ اشیا سے لطف اندوز ہو رہا ہے جس کا الزام لگا کر اس نے دنیا میں ماڈل گرل کو قتل کر دیا تھا یعنی یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ایک دنیا میں انصاف کا تقاضا کچھ ہو اور دوسری دنیا میں کچھ اور؟….. آخر یہ کیا گورکھ دھندہ ہے، میرا دماغ ماؤف ہو رہا ہے۔
ایک دوسرا دوزخی گفتگو میں حصہ لیتا ہے:
ویسے آپ کی بات میں وزن ہے مارک صاحب ! کیونکہ اتنا تو میں بھی جانتا ہوں، قرآن کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک زندگی کا بچانا پوری انسانیت کا بچاؤ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خدا کی عبادت کا اصل مقصد انسان کی روح کو پاکیزہ کرنا ہوتا ہے لیکن حیرت ہے کہ وہ پرہیزگار اور نیک لوگ جو دنیا میں ہمیشہ شراب و شباب سے کراہت اور نفرت کا اظہار کرتے تھے وہ یہاں رنگ برنگی عورتوں کے جھرمٹ میں انتہائی مسرت محسوس کرتے ہوۓ لڈیاں ڈال رہے ہیں اور وحشی قاتلوں کو انعامات دیے جا رہے ہیں یعنی پوری کی پوری گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے- آخر یہ ماجرا کیا ہے؟
اچانک مارک اچھل پڑتا ہے اور چلا کر کہتا ہے ، ارے ! کیا یہ وہی جنت اور دوزخ ہیں جس کا خدا نے بندوں سے وعدہ کیا تھا؟ کہیں آپ کے مفتیوں نے دین کی غلط تشریح تو نہیں کر دی، اور ویسے بھی جب سے میں مرا ہوں مجھے آپ نے خدا کے حضور تو پیش ہی نہیں کیا؟
میری درخواست بھی یہی ہے کہ آپ مجھے خدا کے حضور پیش کریں، کیا وہ صرف تمھارا خدا ہے؟ دنیا چاہے کوئی بھی ہو مالک تو وہی ہے۔ مشرق، مغرب، زمین، آسمان، جنت دوزخ سب اسی کے ہیں۔ میں ایک گناہ گار انسان کی حیثیت سے اس عظیم رب سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگر میں چاہتا تو دوسرے مذاہب یا مخالف نظریات رکھنے والوں کو اپنی فیس بک سے فائدہ اٹھانے کی سہولت نہ دیتا مگر میں نے ایک گناہ گار انسان ہوتے ہوئے بھی ایسا نہیں کیا بلکہ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا برابر موقع دیا، لیکن وہ تو خدا ہے تمام انسانوں اور جہانوں کا مالک، انصاف کرنے والا، وہ میری التجا ضرور سنے گا !
دوسرا دوزخی: جناب مارک صاحب کا مطالبہ درست ہے، ہمیں بھی اس انصاف کرنے والے عظیم خدا کے حضور پیش کیا جاۓ، ہمیں بھی اب تک اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بلکہ میں نے جہنم میں ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں نارتھ امریکہ کی ایک جنگلی بستی میں پیدا ہوا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو جنت، دوزخ، حرام، حلال وغیرہ کا یہاں آ کر پتہ چلا ہے ۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ شلوار نام کا بھی کوئی لباس تھا جس کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا جنت میں جانے کے لیے انتہائی اہم تھا، جو زبان یہاں بولی جا رہی ہے یہ تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سنی۔ وہاں کے موسم اور معاشرتی ماحول کے حساب سے ہماری اپنی ہی ایک دنیا اور بودوباش تھی۔ ہمارے پاس تو کوئی مفتی یا تبلیغی بھائی نہیں پہنچے- اگر پہلے وقتوں میں کوئی پہنچا ہو تو مجھے معلوم نہیں، نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسی کتاب تھی جیسے کہ موت کا منظر، بہشتی زیور، فتووں کا مجموعہ وغیرہ وغیرہ ۔ کیا ہمیں فتووں کی ضرورت نہیں تھی؟ کیا آپ کے علمأ کو ہم دکھائی نہیں دیے تھے؟ یا پھر ہمیں کسی اور خدا نے پیدا کیا تھا ؟
منیجر: او ہو لیکن تم خود تو مسلمان تھے تمھیں تو پورا موقع دیا گیا تھا- تمھیں تو سب معلوم ہونا چاہیے تھا!
دوذخی: کہاں صاحب، آپ تو یہاں بیٹھ کر باتیں بنا رہے ہیں۔ ذرا پیدا ہو کر دکھایٔں نا آج کے کسی اسلامی ملک خصوصاً” پاکستان” میں، پھر میں دیکھوں آپ کتنے پانی میں ہیں۔ سینکڑوں فرقے، الگ الگ مسجدیں، بھانت بھانت کے مولوی اور سکالرز، کچھ سمجھ نہیں آتا کیا درست ہے اور کیا غلط ، کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے معاشی پریشانیاں الگ ہیں- آدمی کیا کرے کدھر جائے – انسان ہونا اتنا آسان نہیں صاحب، آپ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ نہ تو آپ انسان ہو اور نہ ہی تخلیق کار – انسان کو صرف اس کا خالق ہی سمجھ سکتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے اس کے تانے بانے۔ دیکھو ! تم ہمارے اور خدا کے بیچ سے ہٹ جاؤ!!
منیجر: تم لوگوں نے جو بھی کہنا ہے ہم سے کہو، ہم تمھاری بات خدا تک پہنچائیں گے۔
دوزخی: یہی بات تو ہمارے پیر اور مذاہب کے ٹھیکیدار کہا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم مذہبی پیشوا ہیں، ہم تمھارے اور خدا کے بیچ کا ذریعہ ہیں، خدا تمھاری کوئی بات براہِ راست قبول نہیں کرتا۔ حالانکہ مجھے یاد پڑتا ہے، قرآن کہتا ہے۔
(يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا ٓ سورة النبأ – 78)
جس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاء وَيَرْضَى ٓ سورة النجم- 53)
آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، اُن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اُس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے۔
اسی اثناَ میں مفتی صاحب قریب پہنچ جاتے ہیں: اوئے بند کرو کھڑکی اور ان جاہل جہنمیوں کو دبا کے پھینٹی لگاؤ تاکہ ان کو پتا چلے کہ اصلیت کیا ہے۔
دوزخی : دیکھیں جناب ! مفتی صاحب کا آج بھی وہی لب و لہجہ ہے جو دنیا میں انہوں نے اپنا رکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ کافر تو کافر خود مسلمان بھی ان سے دور بھاگتے تھے۔
اچانک مفتی صاحب نے ایک گرجدار نعرہ بلند کیا : اے میرے جانثارو !! کہاں ہو تم ! جلدی آؤ آج تمھارا دین پھر خطرے میں ہے۔
(مفتی صاحب کے کچھ جانثار قریب ہی اپنے اپنے خیموں میں آرام فرما رہے ہوتے ہیں، یہ ان کا”باڈی مساج” کا وقت ہوتا ہے۔
جانثاروں کا ایک ٹولہ یک مشت سب عیاشیاں چھوڑ کر مفتی صاحب کی آواز پر لبیک کہتا ہوا موقع پر پہنچ جاتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں راکٹ لانچر، 7ایم ایم، کلاشنکوف اور ننگی تلواریں ہوتی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر جنتیوں اور جہنمیوں میں ایک عجیب سراسیمگی کی کیفیت پھیل جاتی ہے-
مفتی صاحب گرجے: یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے، منیجرصاحب ! آپ ہمیں اجازت دیں، ہم خود ان جاہلوں کی مرمت کریں گے۔ ان بد دماغوں کو سزا دینا آپ کے بھولے بھالے معصوم فرشتوں کے بس کی بات نہیں، میرے جانثار ذہنی اور جسمانی ٹارچر دینے میں بہت تجربہ رکھتے ہیں- انہوں نے پاکستان، افغانستان ،عراق، شام، لیبیا، یمن وغیرہ میں نا صرف کفار کو سبق سکھایا بلکہ مخالف فرقے کے ہزاروں جاہل مسلمانوں کو بھی چن چن کر جہنم رسید کیا تھا۔
مارک: لیکن آپ امریکہ، فرانس، روس، برطانیہ، اور سب سے بڑے دشمن اسرائیل کا تو کچھ بھی بگاڑ نہ پائے بلکہ آپ کا سب سے بڑا نمائندہ ملک ان کافر ملکوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا تھا۔ میرے مرنے کے بعد کیا ہوا یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ صدیوں تک آپ کی حکومتیں ان سے سود پر قرضے لیتی رہیں اور ٹیکنالوجی اور اسلحہ بھی انہیں کا ہوتا تھا نیز پاکستان کا ہر شخص، ادارے، مسجدیں، مدرسے، سود کے ذریعے حاصل ہونے والی سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے-حتی کہ مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کے نمائندے بھی اسی سود سے چلنے والی پارلیمنٹ سے تنخواہیں اور مراعات لیتے تھے۔ پوری دنیا اور پاکستان میں بے شمار مختلف مکتبہ فکر کے مذہبی ٹی وی چینل بھی تھے اگرچہ وہ بھی ہماری وساطت سے ہی چلتے تھے مگر ان چینلز کے درس و تبلیغ میں سب کچھ تھا سوائے اثر کے۔۔
ایک جانثار نے تلوار فضا میں لہرائی اور غضبناک لہجے میں بولا: مفتی صاحب حکم کریں۔ ابھی ان نا ہنجاروں کی گردنیں کاٹ کر آپ کے قدموں میں ڈال دوں!
دوسرا دوزخی: لیکن جناب میری گردن تو آپ نے دنیا میں ہی کاٹ دی تھی، اور کتنی دفعہ کاٹیں گے؟ میں نے بس ایک معمولی سا علمی اختلاف کیا تھا، ممکن ہے کہ میں ہی غلطی پر تھا لیکن کیا اس کا حل یہی تھا جو آپ نے میرے ساتھ کیا ؟ اگر آپ کا علم اور دعوی سچا تھا اور آپ کے پاس قطعی دلیل موجود تھی تو آپ مجھے قائل کر سکتے تھے، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ؟ لیکن آپ نے تو مجھے وقت ہی نہیں دیا اور مجھ پر واجب القتل کا فتوی ٹھوک دیا، حالانکہ میں بہت ذہین آدمی تھا اگر آپ مجھے سمجھا لیتے تو میں آپ کا بہترین ساتھی ثابت ہوسکتا تھا۔ لیکن کہاں صاحب، آپ لوگوں نے وحشی درندوں کی طرح مجھے میری ہی درس گاہ میں چیر پھاڑ ڈالا۔
مفتی صاحب نے للکارا: دیکھو ! تمھاری مہلت اب ختم ہو چکی ہے۔ اب تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا- تم جس گستاخی کے مرتکب ہوئے ہو ، اس کی سزا کے لیے تیار ہو جاؤ !!!
( جاری ہے )

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply