نئے پاکستان میں گلگت بلتستان کا مقدمہ۔۔شیر علی انجم

نیلسن منڈیلا کے بقول زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیسلن منڈیلا نے یہ قول بطور خاص پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کیلئے کہا ہے۔ کپتان کی سیاسی زندگی پر طویل تمہید کے بجائے اگر ہم پچیس جولائی 2018 کی بات کریں تو کہنا پڑے گا کہ عمران خان کی تاریخی کامیابی پر ایک طرف پاکستانی عوام نے یوم نجات اور یوم تشکر منایا وہیں دہائیوں سے مملکت پاکستان کو دیمک کی طرح کھانے والے سراپا احتجاج نظر آتے ہیں ۔ خاص طور پر مولانا فضل ا لرحمن جیسے سرکاری پیسوں کے بغیر نسوار بھی نہ خریدنے والے  تو جیسے مایوس ہو چکے ہوں۔مولا ناکی مایوسی اور بلبلاہٹ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ملک میں اب واقعی میں بڑی تبدیلی آئی ہے جسکا فائدہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہوگا۔اور یقیناً  پاکستان میں ہونے والے ہر مثبت اور منفی  کام اور بات کا  اثر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر بھی پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ووٹ کا حق حاصل نہ ہونے کے باوجود عمران خان کی جیت پر گلگت بلتستان کے عوام میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کو کڑے وقت میں حکمران بننے کا موقع ملا ہے ایک طرف قومی اسمبلی میں اکثریت دوسری طرف سینٹ میں اقلیت کپتان کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح کپتان کی جارحانہ سیاست اور فیصلہ سازی میں مصلحت پسندی سے انکار بھی کپتان کیلئے چلینج سے کم نہیں کیونکہ اس وقت کہا یہی جارہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ کپتان ماضی کی حکومتوں کی طرح اُن کے اشاروں پر چلیں لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کپتان بذات خود اسٹبلشمنٹ کا آدمی نہیں مگر کپتان کے گرد کئی اہم شخصیات اور  اسٹبلشمنٹ کے لوگ ہیں جو آنے وقتوں میں کپتان کے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔

محترم قارئین جس طرح کپتان نے اپنی  وکٹری سپیچ میں قوم سے خطاب میں   پاکستانی عوام کو ایک روڈ میپ دیا وہیں خارجہ پالیسی دفاع اور معاشی ترقی کے حوالے سے کرپشن کے چنگل میں پھنسے عوام کو ایک اُمید دلائی ہے ۔ دعا ہے کہ کپتان جو آج ہے وہ کل بھی رہے اور اُنکی حکومت کو مولانا جیسی  شخصیات کی سازشوں  سے بچا کر مملکت پاکستان کو واقعی میں نیا پاکستان بنا کر دکھائے۔

میرا مقدمہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گلگت بلتستان ہی ہے کیونکہ میرے وطن کی کوئی شناخت نہیں میرے پاس پاکستان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ حالیہ الیکشن میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر والے دیکھتے رہ گئے۔ آزاد کشمیر کی خیر ایک الگ شناخت ہے اُنکی قومی پہچان ہے یہ الگ بات ہے کہ آزاد کشمیر کے حکمران آج تک ریاستی شناخت کے ساتھ عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہا وہ الگ بحث ہے۔لیکن جب ہم گلگت بلتستان کی طرف دیکھیں تو ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام آج ستر سالہ آزادی کے بعد بھی قومی شناخت اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں اس خطے کی ستر سالہ محرمیوں کو ختم کرنے کیلئے جھوٹ بہت بولا گیا لیکن آج تک کسی نے اس خطے کو لاحق اصل مرض کی تشخیص کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ زخم کے اوپر مٹی ڈال ڈال کر اب یہ بیماری کینسر کی طرح معاشرے میں پھیل رہی ہےبلکہ یہ بیماری اب ایک لاوا بن چُکی ہے اور بدقسمتی سے اس لاوے  کو پھٹنے سے روکنے کیلئے ایمرجنسی اقدامات کرنے کے بجائے مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس خطے کو فورتھ شیڈول زون بنا رکھا ہے یہاں پر  دیگر صوبوں سے عوامی خدمت کیلئے آنے والے  افسران اس خطے کو خالہ جی کا جہیز سمجھ کر یہاں کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے مطالبے پر ڈراتے دھمکاتے ہیں جسکی تازہ مثال چیف سیکریٹری گلگت بلتستان بابر حیات تارڑ کا بلتستان میں گائنی ڈاکٹر کے مطالبے پر ٹیکس نہ دینے کا طعنہ اور گلگت بلتستان متنازعہ نہ ہونے کا دعویٰ کرنا ہے۔ ایک عجیب کشمکش ہے ایک طرف چیف سیکرٹری کا دعویٰ دوسری طرف دوسرے ہی دن دفتر خارجہ کی اس حوالے سے تردید اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام جو حقوق مانگ رہے ہیں وہ قانونی ہیں  مگر ریاست کے ذمہ داران اس حوالے سے غیرسنجیدہ اور مخلص نہیں۔

اسی طرح ایک طرف عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کا نام فورتھ شیڈول جیسے دہشت گردوں کیلئے بنائے گئے شکنجے میں ڈالنا اور دوسری طرف کمشنر بلتستان کہتے ہیں کہ جن افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا ہے وہ ریاست مخالف لوگ ہیں وہ لوگ باز نہیں آئے تو گرفتار کیا جائے گا۔ ایسے میں سمجھ سے بالا تر ہے کہ دفتر خارجہ کے بیان پر رقص کروں یا کمشنر بلتستان کے بیان پر ماتم۔

محترم قارئین گلگت بلتستان میں اس قسم کے ہزاروں واقعات ہیں جو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ ملکی میڈیا کا مسئلہ بھی گلگت بلتستان کے مسائل نہیں بلکہ صرف اس خطے کی خوبصورتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ خوبصورت خطہ متنازعہ ہونے کے باوجود ملک کے کئی درجن سرمایہ کاروں سابق ممبران قومی اسمبلی اور سینٹ نے یہاں ہزاروں کنال زمینیں اپنے نام کی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ہے لہذا مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے یہاں بھی رائے شماری ہوگی اور اُس وقت تک یہاں کے عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔مگر اس خطے کی دیگر اکائیوں میں متنازعہ حیثیت کے مطابق قانونی  باشندہ ریاست جموں کشمیر 1927 کے تحت سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں اس قانون  کی کھلے عام خلاف ورزی ہورہی ہے۔

عمران خان نے جو نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اُس نعرے کی بنیاد پر پاکستانی عوام نے اُنہیں اگلے پانچ سال کیلئے ملک کا حاکم بنایا ہے اور ہماری نیک خواہشات اُن کیلئے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام کا اُن کیلئے نیک خواہشات کا مطلب گلگت بلتستان میں اگلی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہی ہوگی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن سے پہلے پارٹی کو فعال بنائیں ۔ماضی میں عوام پر ظلم کرکے حکومت کرنے والے راجاوں مہروں کے بجائے گلگت بلتستان کی نئی نسل میں سے اچھے لوگوں کا چناو کریں ۔کیونکہ گلگت بلتستان کیلئے کپتان نے اپنے منشور میں جو وعدہ کیا ہے اُس پر عمل درآمد ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر گلگت بلتستان کی اگلی حکومت میں ماضی کی طرح ٹھیکداروں اور اُن کے ایجنٹوں اور لوٹوں کو تحریک انصاف میں شامل کرکے حکومت بنا ئی تو سمجھ لیجئے کہ نئے پاکستان میں بھی گلگت بلتستان کیلئے کوئی واضح پالیسی نہیں۔

اس وقت گلگت بلتستان میں خطے کی قومی شناخت کے حوالے سے ایک قومی متفقہ بیانیہ سامنے آیا ہےاور کپتان نے بھی گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری دینے اور یہاں سیاحت کے فروغ کیلئے کام کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔لہذا راقم کی رائے ہے کہ اس مسئلے کے  حل کیلئے مسئلہ کشمیر اور بین الاقوامی امور پر عبور رکھنے والی  چند اہم شخصیات پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دیں جو سرتاج عزیز کمیٹی جیسی نہ ہو ۔(یاد رہے نون لیگ نے سر تاج عزیز کمیٹی کے نام پر عوام کو تین سال بیوقوف بنایا اور جب اس کمیٹی کی  سفارشات کی بنیاد پر گلگت بلتستان آرڈر 2018 جاری کیا تو معلوم ہوا کہ   حقوق نہیں بلکہ گلگت بلتستان کیلئے کالونیکل نظام کا ایک حکم نامہ ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام اپنے ہی گھر میں قید کیے جائیں گے ۔ لیکن اس آرڈر کو سب سے پہلے گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ سپریم اپلیٹ کورٹ نے کالعدم قرار دیا اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس آرڈر پر نوٹس لیتے ہوئے مکمل طور پر ختم کرکے گلگت بلتستان آرڈننس 2009 کو دوبارہ بحال کردیا ہے)

یہاں  یہ بات  جاننا بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے دیگر پارٹیاں کیا موقف رکھتی  ہیں۔ لہذا سب سے پہلے پیپلزپارٹی کا ذکر کریں تواُنکا  خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کا حصہ قبول کیا جائے اور عبوری صوبے کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ بھی نافذ کیا جائے۔ ویسے تو گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کا یہ مطالبہ   مذاق سے کم نہیں لیکن وہ اس مطالبے کیلئے جموں کشمیر کا نقشہ پیش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں بھی جموں کشمیر کی  طرز پر سیٹ  اپ نافذ کیا جائے۔ حالانکہ جموں کشمیر کا مسئلہ اور گلگت بلتستان کے مسئلے میں آسمان اور زمین کا فرق ہے جس پر طویل ڈبیٹ کی جاسکتی ہے۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ایسا ممکن نہیں ہے اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا اور دشمن ملک بھارت جو پہلے ہی گلگت بلتستان کو اپنا قانونی حصہ سمجھتے ہیں ، اُنہیں مزید پروپگنڈے کا موقع ملے گا۔

دوسرا مطالبہ اہل تشیع مکتب فکر کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے چونکہ یکم نومبر 1947 کو ڈوگروں سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا لہذا ہمارے الحاق کو قبول کیا جائے اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائیں۔یہاں المیہ یہ ہے کہ اس نعرے کی بنیاد پر تحریک جعفریہ نے گلگت بلتستان پر پانچ سال حکمرانی بھی کی لیکن وہ اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کراسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آزادی اور سولہ دن پر مبنی آزاد ریاستی حکومت ایک حقیقت ہے لیکن اُس آزادی  پر شب خون مارنے کو ہمارے ہاں لوگ الحاق سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ 16 نومبر 1947 کو جس رابطہ آفیسر کو دعوت دی گئی تھی  اُس نے آکر یہاں ایف سی آر نافذ کردیا اور اُس وقت گلگت کے عوام نے اُنہیں تاج پہنایا اور اُنکے آگے مقامی میروں اور راجاوں نے رقص کیا یوں آزادی اور الحاق کا نعرہ ایف سی آر قانون کے قبرستان میں دفن ہوگیا۔

اس حوالے سے تاریخی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ آزادی کے وقت گلگت بلتستان میں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھی اور اُن ریاستوں کے والی بھی تھے جنہوں نے عوام کو غلام بنائے رکھا تھا اُنہیں خدشہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر پاکستان کے ساتھ معاملات طے ہوجاتے ہیں تو ہماری راجدھانی  خطرے میں پڑسکتی  ہے لہذا اُنہوں نے ایک پختون تحصیلدار سردار عالم کو ہار پہنا کر پہلے  پولٹیکل ایجنٹ کے طور پر قبول کیا اور ریاستی صدر شاہ رئیس خان کو  صدارت کے عہدے سےہٹا کر سپلائی ڈپو کا انچارج بنا دیا۔

اسی طرح 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کے تحت پاکستانی وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی کی قیادت میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ تصور کرکے کشمیریوں کی مرضی سے وفاق پاکستان کے ماتحت دے دیا اور گلگت بلتستان میں اس حوالے سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ یوں تحریک جعفریہ کا یہ نعرہ بھی غیرقانونی اور غیرآئینی ثابت ہوگیا۔ اسی طرح اہلسنت مکتب دیوبند طبقہ فکر کا خیال ہے کہ یہ خطہ آج بھی جموں کشمیر کا حصہ ہے لہذا اس خطے کو آزاد کشمیر کے ساتھ ملا کر ایک مخلوط حکومت بنائیں لیکن اس دلیل کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ معاہدہ کراچی میں کشمیری قیادت نے یہ لکھ کردیا ہوا ہے کہ علاقہ چونکہ وسیع  و عریض ہے  او رہم سے اس علاقے کا نظم  و نسق سنبھالا نہیں جائے گا لہذا مسئلہ کشمیر کے  حل تک کیلئے وفاق اس خطے کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کا اس حوالے سے واضح نظریہ ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ ریاست جموں کشمیر کی  دیگر تین اکائیوں لداخ جموں کشمیر اور آزاد کشمیر کی طرح متنازعہ ہے اور پاکستان نے کبھی اس خطے پر دعویٰ نہیں کیا بلکہ انڈیا دعوے دار ہے۔

لہذا اگر عوامی خواہشات کی بنیاد پر کوئی ایسا اقدام اٹھایا بھی جاتا ہے تو دشمن ملک فائدہ اُٹھا سکتا ہے جسکا مملکت پاکستان نے بھی کئی بار برملا اظہار بھی کیا ہے۔لہذا س خطے کی متنازعہ حیثیت کو چھیڑے بغیر اس خطے کو قومی شناخت بالکل آزاد کشمیر کی طرز پر دیا جاسکتا ہے جو کہ آزاد کشمیر سے مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہئے۔ اُنکا مطالبہ یہ ہے کہ دفاع ،کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس رہے اور دیگر تمام اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو شفٹ کیا جائے اور گلگت بلتستان اسمبلی کے سر پر کوئی غیر منتخب غیرمقامی سیاست دان یا بیورکریٹ سوار نہ ہو۔ لہذا پاکستان تحریک انصاف کو چاہیے  کہ اس حوالے سے کسی کی مرضی اور منشاء کو دیکھے بغیر قانون کے مطابق اس مسئلے کے  حل کیلئے عملی اقدامات اولین ترجیحات میں شامل کریں۔ اور جیسے میں نے اوپر ذکرکیا کہ اس حوالے سے مقامی قیادت چونکہ پسند ناپسند کی بنیاد پر مطالبہ کرتے ہیں، جیسے عمران خان جیتتے  ہی غذر سے تعلق رکھنے والے ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسبملی راجہ جہانگزیب نے عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس طرح کی باتوں کو اب لوگ مذاق سمجھتے ہیں۔لہذا اس حوالے  سے قانونی بحث وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع قدرتی وسائل اور آبی ذخائر سے مالا مال ایک متنازعہ خطے کی شناخت اور 20 لاکھ عوام کی پہچان کا ہے۔

ایک آپشن یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈرز سے خطے کی ستر سالہ محرمیوں کو ختم کرنے کیلئےتجاوزیر طلب کریں اور اُن تمام تجاویز کو مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں کچھ ماہر قانون کے ذریعے حل نکالیں ۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت نے سیاسی مقدمات کی سنچریاں مکمل کی ہیں  لہذا یہ بھی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اس پر بھی اولین ترجیحات کے طور پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔معاشی حوالےسے اگر ذکر کریں تو  گلگت بلتستان میں ہائیڈرو  الیکٹرک کی پروڈکشن پر توجہ دیں  تو پاکستان سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ بجلی ایکسپورٹ بھی کی جاسکتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ نون وہاں پیسہ لگا رہی ہے جہاں کرپشن کے مواقع زیادہ ہو ں ۔اکثر مقامات پر بجلی گھر کیلئے استعمال زمینو ں کا معاوضہ مانگنا بھی جرم بن گیا ہے جس کی تازہ مثال میرے ضلع کھرمنگ میں پیش آئی ہے ۔ اسی طرح سیاحت گلگت بلتستان کی معشیت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی  ہے۔ لیکن ماضی کی حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی  یہی وجہ ہے کہ اس وقت سیاح اور عوام دونوں پریشان ہیں۔

پانی اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا چلینج ہے اور دیامر بھاشا ڈیم گلگت بلتستان میں بن رہا ہے لیکن رائلٹی پختون خوا کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے بھاشا کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ بھاشا سے پہلے ہی ڈیم کیلئے پانی کو روکا جارہا ہے لہذا دیامر ڈیم کی تعمیر میں حقوق کیلئے بلتستان کیلئے سی پیک جیسا نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے پانی کو بچانے کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے سبب گلگت بلتستان میں گلیشئرز مسلسل پگھل رہے ہیں ا ور سیاحتی مقامات پر سیوریج کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے صاف شفاف پانی دن بدن خراب ہوتا  جارہا ہے اس پر توجہ دینے کی ضررورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح تعلیم ،صحت،زراعت جیسے اہم شعبوں میں اس خطے کیلئے خصوصی گرانٹ دینے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کے مقامی کھلاڑی گلگت بلتستان کا مقدمہ نئے پاکستان میں کیسے لڑتا ہے اور گلگت بلتستان کی ستر سالہ محرمیوں کو ختم کرنے کیلئے کیا کچھ اقدامات اُٹھاتے ہیں ہمیں انتظار کر نا پڑے گا۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply