سہو

کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ خیبر پختونخواکے کسی علاقے میں ایک امام صاحب نے عید کی نماز پڑھائی لیکن وہ دورانِ نماز زائد تکبیرات کی تعداد بھول گئے اور نماز غلط پڑھا بیٹھے۔ مجمعے میں سے کچھ لوگوں نے نشاندہی کی تو امام صاحب نے دوبارہ نماز پڑھائی اور پھر غلطی کر بیٹھے۔ نشاندہی پر ،سہ بارہ نماز پڑھانے پر بھی صحیح طریقے سے نماز کی امامت نہ کر پائے، تین چار دفعہ ایسا ہونے پر حضرت جلال میں آ گئے اور غصے سے مجمعے کو مخاطب کر کے بولے کہ تم سب گنہگار ہو، تمہارے گناہوں کی وجہ سے بار بار نماز میں غلطی ہو رہی ہے، تم سب اللہ سے توبہ استغفار کرو جو تمہیں صحیح نماز ادا کرنے کی توفیق سے محروم کر رہا ہے۔
معلوم نہیں کہ یہ کوئی حکایت ہے یا اصلی واقعہ لیکن گزشتہ برس جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق منصورہ میں عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھاتے ہوئے بھول گئے اور رکوع میں جائے بغیر سیدھا سجدے میں چلے گئے۔ اِس عیدالفطر کے موقعہ پر حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب سے بھی سہو ہو گیا اور وہ بھی رکوع میں جائے بغیر سیدھا سجدے میں جاتے جاتے رہ گئے اور سہو کا ادراک ہوتے ہی رکوع کی حالت میں واپس آ گئے تو مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا۔ سوشل میڈیا کی شتر بے مہاری عروج پر ہے اور جس کے جی میں جو آتا ہے وہ کہہ گذرتا ہے۔ اِن دونوں حضرات کے سہو پر بھی خوب خوب تمسخر اڑایا گیا اور پھبتیاں کسی گئیں کہ جن کو نماز کا طریقہ معلوم نہیں ہے وہ ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے نکلے ہیں۔
طعنے دینے والوں میں مسلکی اختلاف رکھنے والے گروہ بھی شامل تھے اور سیاسی مخالفین بھی۔ اور سیاسی مخالفین بھی وہ کہ جن کے اپنے لیڈر دھرنے کے دوران نمازِ عید ادا کر کے سلام پھیرتے ساتھ ہی خطبے کا انتظار کیے بغیر تیزی سے اٹھ کر اپنے سیاسی کزن اور نماز کے امام سے بغل گیر ہونے پہنچ گئے، کسی نے کان میں کہا کہ ابھی خطبہ باقی ہے تو شرمندہ سے ہو کر اپنی نشست پر دوبارہ بیٹھ گئے۔ اِس بات کا مقصد جناب پر طنز کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حضور ٹھنڈا کر کے کھایا کیجئے، غلطی کسی سے بھی سرزد ہو سکتی ہے۔
نماز میں سجدہ سہو اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اگر دورانِ نماز بھول چُوک ہو جائے تو اُس کا تدارک سہو کے دو سجدے کر کے کر لیا جائے۔ احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں جن میں خود آقا کریم ﷺ سے سہو ہوگیا تو آقا ﷺ نے سجدہ سہو کیا۔ چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیِ اکرم ﷺ نے ظہر پانچ رکعات پڑھی تو صحابہ نے پوچھا کہ کیا نماز بڑھا دی گئی ہے؟ تو (سہو کا ادراک ہونے پر) آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیِ اکرم ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی، آپ ﷺ سے سہو ہو گیا تو آپ نے دو سجدے کیے، پھر تشہد پڑھا اور اس کے بعد سلام پھیرا۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم ﷺ ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعت نماز پڑھ کر پلٹے تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے باقی صحابہ سے پوچھا کہ کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے دو ہی رکعات پڑھی ہیں تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور دو سجدے کیے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ ابنِ بحینہ اسدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبیِ اکرم ﷺ نمازِ ظہر میں کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھنا تھا، چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے آپ نے دو سجدے کیے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا اور آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔
عیاض یعلیٰ ابنِ ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں تو وہ کیا کرے؟ تو ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔
اَن ساری روایات میں نماز میں ممکنہ طور پر ہونے والی ہر بھول چُوک کا ذکر ملتا ہے اور اُس پر سجدہ سہو کرنے کی روایت بھی۔ عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ خود نبیِ کریم ﷺ جو سید الانبیا بھی ہیں اور سید البشر بھی، اگر اُن ﷺ سے بھی نماز میں سہو ہو سکتا ہے تو پھر مولانا فضل الرحمان ہوں یا سراج الحق یا کوئی بھی اور امام، اِن سب کی کیا اوقات ہے کہ وہ نماز میں کبھی غلطی ہی نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمان سے بے شمار طرح کے اختلافات ہو سکتے ہیں، مجھے بھی ہیں، لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نماز میں سرزد ہو جانے والی غلطی پر صرف اپنی اناؤں کی تسکین کیلیے اُن پر تبریٰ کیا جائے۔ اُن کی غلطی پر دو حرف کہنے کی بجائے ہم اپنی نمازوں کی حالت پر ذرا غور کر لیں تو شاید ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہو۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سہو

Leave a Reply