شموں ۔( افسانہ )

شموں ۔
آصف وڑائچ
میں نے اسے ایک بڑے گھر کی شادی میں دیکھا تھا۔ دراصل اس کی بیگم اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لا|ئی تھی کیونکہ بیگم کو اپنا ڈیڑھ سالہ بچہ جو سنبھالنا تھا اور ظاہر ہے ایک بڑے گھر کے بچے کو نوکرانی سے بہتر کون سنبھال سکتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں گریجوىشن کا فائنل امتحان دے کر گھر آیا تو اماں نے اعلان کیا کہ انہیں ایک پرانی سہیلی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہے اور ساتھ ہی حکم صادر فرمایا کہ میرے ساتھ تم جاؤ گے۔ بس وہیں پر میں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ بمشکل دس بارہ برس کی تھی۔ بالکل پتلی پتنگ، ہوا ورولا سی جیسے کہ اس عمر کی نو خیز لڑکیاں ہوتی ہیں۔ رنگ جیسے دیسی گندم کا چمکتا ہوا دانہ، ننھے ننھے نقوش، تیکھی ناک، آنکھیں بڑی اور میٹھی۔
دھان پان سے بدن پر لپٹا چھوٹے چھوٹے بیل بوٹوں والا پرانا سا گلابی لان کا سوٹ، نحیف کندھوں پر کیکر کے پھولوں والی میلی سی دوپٹے نما پٹی، خوبصورت مگر کھردرے پیروں میں قدرے بڑے سائز کی بے ڈھنگی چپل۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ کسی اور کا اترن ہے۔
اس کی بیگم موٹی گردن میں چوڑے چوڑے سونے کے ہار پہنے پراڈو سے اتری تھی۔ نرم بُھر بُھرے گال میک اپ کی دبیز تہہ سے مزین تھے، بھاری بھرکم ڈولتے ہوۓ کولہوں سےسلمیٰ ستاروں سے بھری ساڑھی کا پیٹی کوٹ جھانک رہا تھا۔ جُوڑے میں پھول سجائے گل بکاؤلی بنی بازو پر ایک مشہور برانڈ کا موتیوں سے بھرا بیگ ہوا میں جھولاتے مستانی چال چلتی ہوئیی بیگم بڑی شان سے شادی کی رسپشن کی جانب بڑھ رہی تھی۔
ممکن ہے کوئی ایسی شیخانی ہو جس کے میاں کا چنیوٹ میں فرنیچر کا کوئی بڑا سا کارخانہ ہو ” میں نے غیر ارادی طور بیگم کا معائنہ کر ڈالا”۔
انداز و اطوار سے بیگم کوئی نو دولتیا ہی لگ رہی تھی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھر بڑا بنائیں یا چھوٹا مگر باہر دروازہ بڑا سا لگواتے ہیں۔ کپڑا مہنگا خریدتے ہیں مگر درزی کوئی سستا سا ڈھونڈتے ہیں۔ قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر سبزی والے سے آلو اور ٹماٹر کے نرخ پر بھاؤ تاؤ کرنے لگتے ہیں۔ ایک نوکر رکھ کر سارے کام اسی سے لیتے ہیں۔ دولت تو بہت ہوتی ہے مگر متانت اور وقار کی شدید کمی ہوتی ہے۔
ببلو بیگم کا پہلا بچہ تھا با لکل ماں کی طرح ہی صحت مند، موٹا تازہ اور گلگلہ سا۔ اپنی عمر کے بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وزنی، گول گپا سا۔
شموں ! یہی نام لے کر بیگم اس ننھی سی نوکرانی کو حکم دے رہی تھی۔ شموں ببلو کی آیا بھی تھی اور بیگم کی پرسنل سیکرٹری بھی۔
جب پراڈو شادی والے گھر کے سامنے رکی تو سب سے پہلے شموں کو ہی گاڑی سے اتارا گیا تھا۔ بیگم اپنا بوجھ تو بمشکل خود اٹھاۓ ہوۓ تھی مگر بھاری بھر کم ببلو کو شموں پر لاد رکھا تھا۔ شموں اور ببلو کی عمروں میں جو فرق تھا وہ ان کے وزن میں نہیں تھا۔ دھان پان سی شموں کے پتلے بازؤں سے ببلو ایک پانی سے بھرے بڑے سے غبارے کی مانند پھسل رہا تھا اور وہ اسے بمشکل اپنے پتلے سے جسم سے سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب شموں بچے کو بانہوں میں اٹھاۓ چلی تو ایک جانب وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی صراحی نما کمر بھی تھوڑی سی جھک گئی جسے وہ توازن میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
بیگم نے شموں کے ہاتھ میں ایک ٹوکری بھی تھما دی جس میں ببلو کے کھلونے اور فیڈر وغیرہ رکھے تھے۔
” ہیں یہ کیا ؟ بھلا اس بے چاری چھوٹی سی لڑکی کے کتنے ہاتھ ہیں؟” جانے کیوں مجھے غصہ آ گیا ۔
ایک جانب اس نے ببلو کو اپنی پتلی کمر پر ٹکا رکھا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ٹوکری اٹھا رکھی تھی۔ یوں اس کے دونوں جانب کچھ توازن سا قائم ہو گیا۔
“شکر ہے” میں نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔
شموں خراماں خراماں چلتی ہوئی آگے بڑھی۔ پیچھے پیچھے بیگم مارچ کر رہی تھی۔ شادی کسی اور کی تھی مگر بیگم خود کسی دلہن کی طرح ہی سج دھج کے آئی تھی۔ بازؤں میں موٹے موٹے سونے کے کنگن، قیمتی گھڑی، وزنی ساڑھی، اونچی ایڑھی کے سینڈل، خونی لپ اسٹک پر کھیلتی بناوٹی سی مسکراہٹ، اور اوپر سے ماشاللہ تیسرا- چوتھا مہینہ۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگم اندر داخل ہوتے ہی صوفے پر دھم سے ڈھیر ہو گئی۔ پھر ایک اور لڑکی بھی گاڑی سے نمودار ہوئی اور بیگم کو آنٹی آنٹی پکارتی ہوئی لپک کر بیگم کے ساتھ ہی براجمان ہوگئی۔ یہ لڑکی شموں سے عمر میں ایک آدھ سال ہی بڑی تھی اور شاید بیگم کی بھانجی تھی۔ لڑکی صحت مند اور رنگ گورا چٹا تھا، بال خوبصورتی سے ترشے ہوۓ تھے مگر نین نقش موٹے سے تھے، شموں کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں تھے۔ اس نے برینڈڈ لباس پہن رکھا تھا، قیمتی گولڈن سینڈل، رنگ برنگا میک اپ اور نخرا انت تھا مگر جو معصومیت اور بھول پن شموں کے چہرے پر تھا اس کا عشرِ عشیر بھی اس دوسری لڑکی کے چہرے پر نہ تھا۔
“تم کم از کم ٹوکری تو اٹھا سکتی تھی”میں نے دل ہی دل میں اس دوسری لڑکی کو ڈانٹ پلا دی۔
مگر وہ تو کسی سیٹھ کی بیٹی تھی، وہ شموں سے یکسر بے پرواہ لگ رہی تھی۔ بلکہ وہ تو اس کے قریب بھی نہیں پھٹک رہی تھی۔ شاید وہ بھی شموں کو ایک نوکر سے زیادہ نہیں سمجھتی ہو گی۔ شادی والے گھر میں اسے اپنے جیسی کئی ہم عمر سہیلیاں مل گئی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ ہنس کھیل رہی تھی۔
“آج اگر شموں بھی کسی امیر گھر کی بیٹی ہوتی تو وہ بھی یہاں شان و شوکت سے بیٹھی ہوتی۔ اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی ہوتی، ہنستی، مسکراتی، کسی اچھے سے سکول میں پڑھتی۔ بہت ذہین ہوتی، اور مجھے یقین ہے کہ وہ سیٹھوں کی ان باقی لڑکیوں کی طرح مصنوعی اور بناوٹی نہ ہوتی بلکہ سچی، کھری اور انمول ہوتی انمول!۔۔۔۔۔ آج بھی اگر کوئی اسے دھیان سے دیکھے تو وہ کتنی انمول اور چمکدار ہے۔ ارد گرد سجی بنی لڑکیاں اس کے آگے پانی بھرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کی ستواں ناک پر جگمگاتا ہوا چھوٹا سا لونگ کتنا بھلا لگ رہا ہے۔ کوئی مقابلہ نہیں،میں دل ہی دل میں شموں کو دس میں سے دس نمبر دے چکا تھا۔
ہال میں کچھ کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ شموں ایک کرسی کی جانب بڑھی۔
اے شموں !۔۔ اس سے پہلے کہ شموں کرسی پر بیٹھتی بیگم کی تیز آواز آئی۔
“تم یہاں نیچے دری پر بیٹھو اور ببلو کو ابھی سے دودھ پلا دو ،ورنہ بعد میں چندرا تنگ کرے گا”بیگم شاىٔد کھانے سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری میں تھی۔
شموں نے فوراًحکم کی تعمیل کی۔ ٹوکری رکھی اور ببلو کو احتیاط سے دری پر لٹایا اور دوزانو بیٹھ کر ٹوکری میں ہاتھ چلانے لگی۔ شادی والے گھر میں کافی رونق اور چہل پہل تھی۔ زرق برق لباس میں بچے ادھر ادھر بھاگتے کھیلتے پھر رہے تھے۔ لڑکیاں بالیاں کِھل کھلا رہی تھیں، گپ شپ لڑا رہی تھیں۔ ہر طرف سے قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ لیکن شموں سب سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھی۔ اس نے ایک منجھی ہوئیسمجھدار عورت کی طرح ٹوکری سے فیڈر کی بوتل نکالی۔ اپنے الٹے ہاتھ سے دودھ کی گرمائش کو محسوس کیا پھر تولیہ کو اپنے چھوٹے چھوٹے نرم گھٹنوں پر بچھایا اور بچے کو گود میں لے کر اس کے منہ میں بوتل دے دی۔ مگر ببلو بہت ہی اتھرا بچہ معلوم ہوتا تھا۔ بار بار بوتل کو اٹھا کر پرے پھینک دیتا تھا۔ پھر اس کا دھیان ٹوکری کی طرف چلا گیا، اس نے شموں کے نرم حصار سے نکل کر ٹوکری کو ہاتھ مارا اور الٹا دیا۔ سارا سامان ٹوکری سے چھلک کر فرش پر پھیل گیا۔ پھر وہ واپس شموں کی طرف مڑا، اس کا من پسند کھلونا تو وہی تھی، اس کے منتشر سنہری بال کھینچنے لگا ۔ اس کے اداس چہرے پر ناخن چلانے لگا۔ بیگم نے ایک دو بار بچے کو بہلانے کے لیے پکارا جس پر بچہ متوجہ ہو کر گرتا پڑتا جیسے ہی اپنی ماں کی طرف بڑھا تو بیگم نے دہائی مچا دی “او شموں کمینی ! ارے جلدی اٹھا ببلو کو، کہیں میرے کپڑوں کا ستیاناس نہ کر دے، کتنی سُست ہے تو !”
شموں بجلی کی سی تیزی سے مڑی اور اس موٹے تازے بچے کو گود میں اٹھانے کی کوشش کرنے لگی مگر اتھرا بچہ زور لگاتا اور تڑپ کر پھر نیچے پھسل جاتا۔ شموں عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔ وہ تو خود بے چاری کم سن سی تھی مگر بچے کو سنبھالنے کی اپنی پوری کوشش کر ہی تھی۔
ھونہہ جمے کوئی تے پالے کوئی، یہ بیگم خود تو دوسری بیگمات کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہے اور اس چھوٹی سی بچی کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے، مجھے دل میں بہت رنج ہو رہا تھا۔
یہ سب سوچتے ہوۓ غیر ارادی طور پر میری نظریں شموں اور بیگم کی حرکات پرمرکوز ہو گىٔیں۔ میں نے محسوس کیا کہ شموں کی بیگم کے ساتھ بیٹھی عورت شموں کی کار گزاری کو بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے شموں کی طرف اشارہ کیا اور بولی “یہ لڑکی کہاں سے ملی تجھے۔ کیا دیتی ہو اسے؟”
ارے سب کچھ دیتی ہوں اسے، کپڑا لتہ، کھانا پینا، پیسے اور کیا ۔۔ بیگم نے آنکھیں مٹکاتے ہوۓ جواب دیا۔
اچھا کہاں سے ملی ہے ،; عورت نے پھر پوچھا۔
ان کے دوست ہیںنا گیلانی صاحب جن کا ملتان میں کھڈیوں کا کاروبار ہے، آۓ ہاۓ وہی جو سیاست میں بھی ہاتھ پلہ مار لیتے ہیں۔ اور زمین بھی بہتیری ہے گاؤں میں، ان کے ایک مزارعے کی لڑکی ہے۔،بیگم نے بتایا۔
صرف بچہ ہی سنبھالتی ہے یا کچھ کام وام بھی جانتی ہے،عورت نے پھر ٹوہ لگائی۔
ارے کام تو بڑا کر لیتی ہے اور تھکتی بھی نہیں،بیگم ایک آنکھ بند کرکے شرارت سے مسکرائی۔ بیگم شموں کو یوں ستائشی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے کو ئی کمہار اپنے سب سے ہونہار خچر کو دیکھتا ہے۔گاؤں سے آئی ہے نا اسی لیے ابھی منہ میں زبان نہیں، ارے یہاں شہر کے نوکر تو اف توبہ اس قدر بدتمیز ہیں کہ پوچھو مت، ارے مالک کی تو ایک نہیں سنتے، مرضی سے کام کرتے ہیں اور چھٹیاں بھی خوب کرتے ہیں حرام خور کہیں کے،عورت ناک بھوں چڑھا کر بولی۔
دونوں سیٹھانیاں نوکروں کی مختلف نوع و اقسام اور ان کی ریشہ دوانیوں پر تبادلہ خیال میں محو ہو گئیں۔
ہمم۔۔۔۔۔ تو شموں کو ملتان کے کسی گاؤں سے کام کی خاطر منگوایا گیا ہے، کمال ہے ، ننھی سی پردیسن، دن رات کام ہی کام، لیکن سکون ؟۔۔۔ سکون کب ملتا ہو گا اس ننھی گڑیا کو؟ کیا یہ کبھی ہنستی بھی ہو گی؟ میری نظریں مسلسل شموں کے بھولے بھالے مگر سپاٹ چہرے کا احاطہ کر رہی تھیں۔۔۔ اور اس کے ماں باپ کیسے ہیں ؟ مجھے سیٹھانیوں کے ساتھ شموں کے ماں باپ پر بھی غصہ آ رہا تھا جنہوں نے اپنا ننھا سا جگر کا ٹکڑا اتنی دور پردیس میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ ظالموں نے بے چاری شموں کا بچپن بیچ دیا۔ یہی تو عمر ہوتی ہے کھیلنے کودنے کی، پڑھنے لکھنے کی ، میٹھے سہانے سپنے دیکھنے کی۔ کیا کم سن شموں کی بھی کوئی امنگ ہوگی؟ کوئی ترنگ ہو گی؟ اگر ہو گی بھی تو خاک میں مل گئی ہو گی۔ کیا وہ اپنی ماں سے پوچھتی ہوگی۔۔ ماں ! او میری ماں، کیا تجھے پتا نہیں کہ یہ دنیا کس قدر ظالم ہے۔ اگر تُو مجھے محبت، تحفظ اور عزت کی زندگی نہیں دے سکتی تھی تو کیوں اس دنیا میں لائیتھی۔ ماں ! بتاؤ نا ! کیا میرے جیسی چھوٹی لڑکیوں کا زندگی پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ یہ بس یونہی ہوتی ہیں نامراد سی، ان کے ہاتھوں کو مہندی اور چوڑیوں کی حاجت نہیں ہوتی یا ان کے ہاتھ صرف لوگوں کے جوٹھے برتن مانجھنے کے لیے بنے ہیں، ماں میرا اپنا گھر کونسا ہے؟ کیا ماں سے بھی زیادہ کوئی سگا ہوتا ہے، پھر کیوں تم نے اپنی چھوٹی سی بیٹی کو یوں اکیلے زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ کیوں ، آخر کیوں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یقیناً اس کی ماں سگی نہیں ہے۔ اگر سگی ہوتی تو یوں اپنی ننھی سی پیاری بیٹی کو اپنی آنکھوں سے دور نہ بھیجتی،۔ میں سوچتا چلا جا رہا تھا۔ ،اس بے چاری کی ماں مر چکی ہے،۔ بیگم نے میری سوچ میں خلل ڈالا
سنا ہے باپ نے دوسری شادی کر لی ہے ، اب پتہ نہیں اسے باپ نے بھیجا ہے یا سوتیلی ماں نے،بیگم اپنے ناخنوں کو نیل پالش کا آخری ٹچ دیتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔
ماں تو تم سب کی مر چکی ہے اور ساتھ میں ضمیر بھی،میں غصیلی نظروں سے دونوں سیٹھانیوں کو دیکھتے ہوۓ زیرِ لب بڑبڑایا۔
پھر اچانک میرے ذہن میں ایک خیال کوندا اور میں اٹھ کر شموں کے قریب جا بیٹھا۔ میں اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا اس کا جی بہلانا چاہتا تھا۔ اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے اپنا گاؤں کس قدر یاد آتا ہے۔ گاؤں کی سکھیوں کے پاس جانے کا کتنا ارمان ہے۔ اس کا جی اندر سے کتنا جل رہا ہے کڑھ رہا ہے۔ ننھا سا جیا، کم سن سا جیا، اپنوں سے دور پردیسی جیا۔
وقت رینگ رہا تھا۔ مہمانوں کے تاثرات بتا رہے تھے کہ انہیں اب بھوک ستانے لگی ہے ۔ بیگمات کو کچھ زیادہ ہی بے قراری تھی۔ سب لوگ اب صرف کھانے کے منتظر تھے۔ کھانے کا جہاں انتظام کیا جارہا تھا وہاں سے اب برتنوں کی چھن چھناہٹ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ پھر قورمے، تِکے اور زردے کی مہک فضا میں پھیلنے لگی۔ کچھ لوگوں کے ناک سوں سوں کرنے لگے۔ اچانک چہ مہ گوىٔیاں بند ہو گئیں۔ ،کھانا کھل گیا۔ کھانا کھل گیا،کہیں سے فلک شگاف نعرہ اٹھا۔ لوگ کھانے کی طرف بے دردی سے لپکے۔ جگہ کافی کشادہ ہونے کے باوجود عجیب دھما چوکڑی اور کشمکش سی مچ گئی۔ خواتین و حضرات کا ایک ساتھ ہی انتظام کیا گیا تھا۔ البتہ لوگ کھانے کی میزوں کی جانب یوں بھاگ رہے تھے جیسے موت سے جان بچا کر زندگی کی طرف لپک رہے ہوں۔ اگرچہ سب کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ تھے لیکن پھر بھی کھانے کے لیے ان کی دیوانگی دیدنی تھی۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر حیرت بھی ہو رہی تھی اور افسوس بھی۔ ،کیا دولت انسان کو تمیز اور تہذیب بھی سکھا سکتی ہے؟ میرا ذہن سوچنے سے باز نہیں آرہا تھا۔بیگمات بھی اپنے اپنے پلوُ سنبھالتے ہوۓ آگے بڑھیں اور پلیٹوں اور تھالوں پر پل پڑیں۔ اب صرف پلیٹوں کے کھنکھنانے اور چمچوں کے چرچرانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بیگمات کے منہ ایسے چل رہے تھے جیسے بھینسیں کھرلی کے ارد گرد بیٹھی جگالی کر رہی ہوں۔
شموں کا تھکا ماندہ بدن بھی کھانے کی میزوں کی طرف مڑ گیا۔ انمٹ بھوک اس کے درماندہ چہرے سے عیاں تھی۔ وہ ببلو کو کمر پر ٹکاۓ بمشکل اٹھی اور میزوں کی طرف بڑھی۔ اس کی بیگم کا منہ پھولا ہوا تھا اور وہ کھپا کھپ کھانے میں مشغول تھی۔ببلو بھی اپنی ماں کو کھاتا ہوا دیکھ کر کلبلانے لگا اور شموں کی گود سے نیچے اترنے کے لیے تڑپنے لگا اور آخرکار زور لگا کر نیچے اتر گیا۔ ببلو کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر بیگم نے ایک پل کے لیے مرغی کی ٹانگ دانتوں تلے سے آزاد کی اور غضبناک ہو کر چلائی۔
اے شموں کی بچی، میں نے تجھے کیا کہا تھا، تو نے سنا نہیں، جا اسے دور لے جا، کہیں اس نے زیادہ کھا لیا تو خوامخواہ پیٹ خراب ہو جاۓ گا، اس وقت میں کہاں ڈاکٹر دھونڈتی پھروں گی۔ جا تو بعد میں کھانا کھا لینا۔۔۔
شموں پھر آ کر دری پر بیٹھ گئی۔ اُدھر کھانے کے ساتھ دھینگا مشتی عروج پر تھی۔ رنگ برنگ کھانوں کے بھرے تھال آتے اور چند لمحوں میں خالی ہو کر لوٹ جاتے۔ بعض لوگ آدھا کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر کسی دوسری ڈش پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے بڑھ جاتے اورصفائی والا سٹاف ادھ بھرے برتن کوڑے دان میں انڈیل دیتا۔ میں اس تماشے کوبالکل نہ سمجھ سکا۔
شموں اسی طرح لان میں بچے کو بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نہ جانے کتنی بھوک لگی ہو گی بے چاری شموں کو، پہلے بھی اس نے کونسا انڈوں پراٹھوں سے ناشتہ کیا ہو گا،میں نے ایک پلیٹ اٹھائیاور شموں کی جانب بڑھا۔ میں نے اپنا کوٹ اور ٹائی پہلے ہی اتار کر رکھ دیئے تھے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ شموں کوئی”صاحب” وغیرہ سمجھ کر مجھ سے ڈرے یا ججھک محسوس کرے۔ اسے مجھے ایک عام سا انسان سمجھنا چاہیے۔ تب مجھے شدت سے یہ خیال آیا کہ کیا میں کوئی عام انسان نہیں ہوں۔ خصوصاً شموں جیسے غریب لوگوں کے لیے؟ کیا میں کوئی اعلٰی انسان ہوں ؟ ایسی کیا خوبی ہے مجھ میں جو مجھے شموں سے بہتر یا ممتاز بناتی ہے؟
ایسا کیا کارنامہ کیا ہے میں نے؟ ارے میں تو شموں سے بھی گیا گزرا ہوں، بہت چھوٹا ہوں میں۔ شموں ارفع ہے، عظیم ہے۔ اور یہ تمام لوگ جنہیں اپنی تعلیم، دولت،نسل اورنفاست پر بڑا مان ہے نا، یہ سب کے سب شموں کے میلے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں۔ یہ شموں کے ان نحیف بازؤں سے بھی حقیر ہیں جن سے وہ جھاڑو پوچا لگاتی ہے۔ مجھے پوری دنیا شموں کے آگے ہیچ لگ رہی تھی۔ کہاں ہیں میرے ملک کے دانشور، کہاں ہیں وہ مذہبی رہنما جن کی زبانیں دن رات دین کے افکار بیان کرنے سے نہیں تھکتیں، وہ لیڈران جو انصاف مہیا کرنے کی بلند و بانگ تقریریں کرتے ہیں، بلند اخلاق اور اونچی روایات کا دعوے دار ہمارا دوغلا معاشرہ، کہاں مرگئے سب کے سب؟ کیا یہاں ان چار پانچ سو لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ہے جسے شموں دکھائی دے سکے۔ میرا روں روں جل رہا تھا ، کڑھ رہا تھا۔
تمھیں بھوک تو نہیں لگی؟ میں نے پوچھا
اس کی کتھئی آنکھوں کی سیاہ پتلیاں لرز نے لگیں، یوں لگ رہا تھا جیسے ان پتلیوں نے نمکین پانیوں کے منہ زور سیلاب کے آگے بند باندھ رکھا ہو.،چہرے پر اداسی کے بادل چھا گئے. سوکھے ہونٹ ناراض سے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ صاحب بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، کیا آپ کو میرے چہرے پر بھوک ناچتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔
مجھے لگا جیسے کوئی ننھا سا فرشتہ آسمان سے اتر کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا ہے
میرا جی چاہ رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اس کی معصوم پیشانی پر بوسہ دوں… جانے اسے آخری دفعہ پیار اور شفقت سے بھرا بوسہ کب ملا ہو، یا شائد کبھی نہ ملا ہو۔
یہ لو تم جا کر کھانا کھاؤ، ببلو کو میں سنبھالتا ہوں،میں نے صاف ستھری پلیٹ شموں کے ہاتھ میں تھما کر پر اعتماد لہجے میں کہا۔
شموں نے پلیٹ فوراًہی نیچے رکھ دی ،نا نا ، بابو ، ول میں روٹی بعد میں کھاساں، مینڈی بیگم ابھی ویلی کیہ نہ تھیسی،وہ اردو اور سراىٔیکی کے ملے جلے لہجے میں بولی۔
میرے کانوں میں رس گھل گیا، مدھر سروں کی تان چھڑ گئی، آواز جیسے سریلی بانسری، گلے میں ایسی کھنک جیسے چاندی کے گھنگرو بج اٹھے ہوں۔ شہد ہی شہد، مٹھاس ہی مٹھاس۔۔۔۔۔
دیکھو تینڈی بیگم تو کبھی بھی ویلی نہ تھیسی، اور تیرے جوگا کچھ نہ بچے گا ،میں نے بھی اردو اور سرائیکی گڈ مڈ کر دی۔ پھر میں نے کچھ سوچا اور مڑ کر کچھ چاول اور روسٹ کے دو ٹکڑے پلیٹ میں رکھ کر لے آیا ، یہ لو ، یہاں آرام سے بیٹھ کر کھا لو، بڑی دیر ہو چکی، تمھیں بھوک لگی ہو گی۔ اگر تمھاری بیگم آ گئی تو وہ الٹا تمھاری جان کھا لے گی، شاباش لے لو،میرے لہجے میں پیار کی حلاوت تھی جو شموں نے محسوس کی اور پلیٹ میرے ہاتھوں سے لے لی۔ سر کا دوپٹہ سنوارا اور آلتی پالتی مار کر یوں بیٹھ گئی جیسے پوجا کرنے بیٹھی ہو۔ اس نے چمچ ایک طرف رکھا اور اپنی پتلی پتلی مخروطی انگلیوں سے چاولوں کا چھوٹا سا نوالہ بنایا اور کھانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ منہ کھولے بغیر۔ بنا کسی آواز کے وہ اب کھا رہی تھی، اتنی بھوک ہونے کے باوجود بھی اس کے کھانے کے انداز میں ایک تہذیب تھی،صبر تھا، عجز تھا۔
اس کے بانکپن اور ادا میں شرافت تھی، اس کی نفاست وہاں پرموجود انگلش میڈیم سکولوں کے پڑھے ہوۓ بچوں سے کہیں زیادہ اوپر تھی۔
” تم یہاں آرام سے کھاؤ، میں تمھارے لیے کچھ اور لے کر آتا ہوں” میں نے کہا۔
“نہ نہ ۔۔۔بابو۔۔ یہ بہوں زیادہ ہے، میں ایڈا کیہ نہ کھاساں” اس نے پھر اردو اور سراىٔیکی کا حسین امتزاج کیا۔
لیکن میں پھر بھی اس کے لیے کچھ مزید ڈشز لے آیا۔ میری کوشش یہ تھی کہ
وہ جتنا ممکن ہو پیٹ بھر کر کھاۓ ، پتہ نہیں پھر اسے کھانا کب ملے۔
” بس جی ایڈا بہوں ہے مینڈے جوگا” اس نے پتلی کلائی فضا میں لہرائی۔
میں اسے کھاتے ہوۓ دیکھنے لگا۔ چھوٹی سی لڑکی، بالکل اکیلی، پردیس میں، سر پہ بیگم جیسا پہاڑ لیے کمال ضبط سے کھانے میں محو تھی۔ جب وہ کوئل کی طرح سریلے لہجے میں بولتی تو یوں لگتا جیسے ساری کائنات اس کے ساتھ بول رہی ہو۔ شیریں گفتار، الفاظ کھرے، اجلے، دھنک جیسے۔ اس کے بھولے مکھڑے پر پسینے کے قطرے سُچے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ بیگم کا پسینہ گوند تھا، شموں کا پسینہ صندل۔
وہ میرے سامنے بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہاں چنبے کی کلی کھل اٹھی ہے۔ فضا میں کسی نایاب خوشبو کا جھونکا سرایت کر گیا ہے۔ بغیر سیکھے آداب، جیسے تہذیب کی مہکتی کونپلیں کھل رہی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے میں نے کھانے کی میزوں کی جانب نظردوڑائی جہاں جوٹھی ہڈیوں کا ڈھیر، میزوں پر چکنائی اور سالن کے داغ تھے۔ جو میزیں کچھ دیر پہلے بڑے سلیقے اور قرینے سے سجی تھیں، اب دیکھنے کے قابل نہیں تھیں، رزق کی بے حرمتی، نہ کھانے کی تمیز نہ صبر۔
ادھر شموں کی اداس آتما میں صبرواستقامت کی بادشاہی تھی، عجز کا نور تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس میں حضرت ایوبؑ کی روح حلول کرگئی ہو۔
میں باری باری سب کے چہرے دیکھنے لگا جن لوگوں کو میں پڑھا لکھا، روادار اور مرنجاں مرنج سمجھتا تھا آج مجھے ان میں سے ہر ایک کے چہرے پر عجیب سی نحوست دکھائی دے رہی تھی. یوں لگ رہا تھا جیسے پوری فضا ہی گدلی ہے، ہر طرف بے اعتنائی اور بے حسی کا گردوغبار ہے۔ میرے سامنے اندھی اور خبیث روحیں ہیں جنہیں دری پر جلتی ننھی شمع دکھائی نہیں دے رہی. مجھے وہ سب مردار کھانے والے گدھ لگ رہے تھے. دوسری جانب شمع جل رہی تھی. ایک پر وقار روشنی کے ہالے نے شمع کو گھیر رکھا تھا۔
کس گمان پہ ہم اکڑتے ہیں؟ کس طرح ہم اپنے برتر مذہب اور اعلٰی تعلیمات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور کیوں ہم اپنے اس مجرمانہ رویے کا اقرار نہیں کرتے، وہ رویہ جو ہم نے معاشرے کے ہر اس غریب بچے کے ساتھ روا کر رکھا ہے جو گھروں، ہوٹلوں، کارخانوں، بازاروں، اور منڈیوں میں دو وقت کی روٹی کے لیے اپنا پچپن بیچتے ہیں۔
یہ تعلیم ہے یا جہالت، یہ تہذیب ہے یا تاریکی، یہ اخلاقیات ہے یا منافقت … مجھے اپنی تعلیم پر شرم آنے لگی۔ مجھ میں اپنی ہی تہذیب اور سماج کے خلاف بغاوت سی اٹھنے لگی. مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس تلپٹ نظام کو کس طرح درست کروں، امیرغریب، خاص و عام ، رنگ و نسل اور مسالک کا فرق مٹا دوں۔ان تمام عاقل و فاضل اور اشرف المخلوقات کہلانے والے انسانوں میں انسانیت، الفت، اور یگانگت بھر دوں. مگر کیسے؟ پتہ نہیں یہ سب کیونکر ہو گا؟ یہ ڈگری یافتہ پڑھے لکھے لوگ کیسے سمجھیں گے؟ کیا ان کو بجلی کے جھٹکے لگائے جائیں یا ہر ایک کے بچے کو اسی طرح مزدوری پر لگا دیا جائے تا کہ یہ کسی کے درد کو محسوس کر سکیں؟
میں عجیب سے اضطراب میں مبتلا ہو گیا۔
وقت کافی بیت چکا تھا۔ شادی کی تمام رسومات اور عکس بندی وغیرہ ہو چکی تھیں۔ تماشہ اب ختم ہونے کو تھا، بیگم کا قافلہ واپس لوٹ رہا تھا۔ شموں نے بھی بچہ اور ٹوکری اٹھا کر خود کو بیلنس کر لیا تھا۔ دوسری لڑکی جیسے ہاتھ لٹکاۓ آئی تھی ویسے ہی واپس جا رہی تھی۔ بیگم ایک ہاتھ سے ساڑھی کو سنبھالتی اور دوسرے ہاتھ سے الوداعی سلام پھینکتی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔
قریب پہنچ کر شموں نے اپنی کالی پلکیں اٹھا کر میری جانب دیکھا۔ اس کے جامنی ہونٹوں میں ایک ستائشی مسکراہٹ چُھپی تھی جیسے میرا شکریہ ادا کر رہی ہو، مجھے دعائیں دے رہی ہو۔ میں نے اسے ہاتھ لہرا کر رخصت کیا۔
خدا حافط ۔۔۔ ! جا تیری گلوکند جیسی میٹھی بولی کا رب راکھا۔ تیری پیاری مسکان کا، تیری عاجزی اور آکاش جیسے وسیع دل کا، تیری روح میں رچے صبر کی گہری جھیل میں کھلے کنول کا، تیری اجلی عصمت کا رب راکھا۔۔! میں نے دل ہی دل میں اسے ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”شموں ۔( افسانہ )

Leave a Reply