لبھی چیز خدا دی

دین کے بارے علم رکھنے والے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں کہ اگر مجھے کسی کی کوئی چیز کہیں پڑی ہوئی مل جائے تو کیا میں اسے اٹھا سکتا ہوں؟ اور کیا وہ میری ملکیت بن سکتی ہے؟ تو آپ حیران ہوں گے کہ اس چیز کے بارے جس طرح کے احکام ہماری شریعت میں ہیں اس کو پورا کرنے کی بجائے آپ اسی میں عافیت سمجھیں گے کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ سب سے پہلے تو آپ پر لازم ہوجائے گا کہ آپ اس چیز کے حقیقی مالک کی تلاش کریں اور اس تک پہنچائیں ، اگربالفرض آپ اس کا مالک ڈھونڈنے میں ناکام ہوجاتے ہیں یا وہ نا معلوم ہے تو آپ پر لازم ہے کہ اس چیز کی قیمت اس مالک کے نام سے کسی غریب کو صدقہ کردیں تاکہ متعلقہ مالک کو ثواب ملے اور تیسری سب سے اہم بات ،اگر اس کے بعد متعلقہ مالک اپنی چیز کو ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پاس آجاتا ہے اور آپ سے اس کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اسے وہ چیز یا اس کی قیمت واپس کریں ۔آپ یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتے کہ آپ نے اس کا صدقہ کر دیا تھا یعنی اب آپ کو اس کا ڈبل واپس کرنا پڑ گیا ۔ ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ اس متعلقہ چیز کے مالک بن جائیں ۔
کاش اس طرح کے مسائل ہمارے منبر و محراب پر زیر بحث آئیں تو پھر احمد پور شرقیہ میں تیل لوٹنے والوں کو بھی خیال آتا کہ وہ اس پٹرول کے مالک نہیں ہیں اور گری ہوئی چیز کو اٹھانا بھی ایک قسم کی چوری ہی ہے ۔ فیس بک پر ایک اور ویڈیو شیئر ہوئی ہے جس میں لوگ کوکاکولا لوٹ رہے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو میں لوگ دوسرے آئل ٹینکر سے تیل اسی طرح چوری کر رہے ہیں ۔ مجھے نہیں پتہ دو لیٹر پٹرول یا ایک لیٹر کوکاکولا سے آپ کتنے دن تک عیاشی کر سکتے ہیں۔ لیکن کاش ہم سب یہ جان لیں کہ حقیقی اور دائمی رازق اللہ تعالی ٰ کی ذات ہے ۔ اور اس طرح کی ویڈیوز اور اس طرح کا رویہ بطور قوم ہمار لٹیرا پن ظاہر کرتا ہے۔ ہر وقت حکمرانوں کی لوٹ مار کا شور مچانے والوں کو کبھی اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہیے۔ پتہ نہیں کس جاہل نے یہ جملہ مشہور کرا دیا کہ “لبھی چیز خدا دی ،نہ دھیلے دی نہ پا ء دی “لوگوں نے اس کو اتنا سیریس لے لیا کہ ہر گری ہوئی چیز کو مال غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply