زندہ ڈھانچوں والی قوم

اس راستے پر جانے والی گاڑیاں جام ہوگئیں تھیں، اور گاڑی میں بیٹھا ہوا ہر ایک ڈرائیور یا موٹر سائیکل سوار ہارن بجانے میں مصروف تھا ۔ایسے لگ رہا تھا کہ ہارن بجانے سے گاڑیوں کا رش ایک دم ختم ہوجائے گا اور راستے کو جام کرنے والی رکاوٹ اڑ جائے گی اور ایسے لگ رہا تھا یہ ہارن بجانا یا تو کوئی مذہبی فریضہ یا وظیفہ ہے جو مشکلات میں گھرے ہوئے انسانوں کو بچاتا ہے یا کوئی سائنسی طریقہ ہے جس سے ٹریفک جام کو ختم کیا جاسکتا ہے ، یہ قافلہ تھوڑا آگے بڑھا تو ایک تنگ گلی میں بہت سارے لوگ شور مچاتے ہوئے جارہے تھے اور انہی کی وجہ سے راستہ بلاک ہوگیا تھا ۔ایک کھڑے شخص سے پوچھا یار خیریت تو ہے ؟ گھورتے ہوئے کہنے لگے بریانی بٹ رہی ہے ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہنسوں یا روؤں ،ایک بریانی کی تھیلی کیلئے لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے یہ غربت و افلاس کا نتیجہ ہو ہر گھر میں بریانی نہ بنتی ہواسی لئے یہ لوگ ایسے لپکے جارہے تھے ، میں نے اپنے گھوڑے (بائیک ) کو ایڑ ھ لگائی اور آگے بڑ ھ گیا ۔یہ واقعہ ذہن کے دریچوں سے آیا گیا ہوگیا ۔
ایک دن ایک شادی کی دعوت تھی وہاں چلا گیا جہاں پر سب لوگ اچھے اچھے کپڑوں میں ملبوس تھے ، اکثریت تعلیم یافتہ افراد کی تھی اور دعوت دینے والے پس منظر کی واقفیت کی بنا پر یہی کہا جاسکتا ہے اکثریت بیوروکریٹ ہی تھے ۔ جیسے ہی بوفے سے پردہ ہٹایا گیا تو سب لوگ ایسے بھاگنے لگے جیسے بہت بڑی مصیبت پیچھا کررہی ہے ہر ایک دوسرے کو دھکیل کر کسی نا کسی ڈش پر ٹوٹ پڑتا اور بوتلوں کے کریٹ اپنی جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی لٹ جاتے ۔ ایک تو بھوک نے نڈھال کردیا اوپر سے ان افسران نے کچھ چھوڑا بھی نہیں تھا ۔دوسرے دن دعوت دینے والے نے میسج کرکے معذرت کی ۔
مجھے فورا ًوہ تنگ گلی کا واقعہ یاد آگیا کہ یہ غربت نہیں ہے یہ ہمارا کلچر ہے ، ہماری مسخ شدہ فطرت کا ایک طرز عمل ہے۔ جو کئی دہائیوں کے کئی حادثات کے بعد بنا ہے ۔ ہر ایک شخص اپنے حصے اور حق کے بارے میں ایک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کیا گیا ہے۔ چاہے وہ ایک عام غریب انسان ہو یا ایک امیر یا افسران شاہی کے طبقے سے ۔ یہاں کسی کو بھی یقین نہیں ہوتا ہے کہ کون سا ادارہ کس وقت لوٹ لے ۔ایک بجلی کے صارف کو چوری نہ کرنے کے باوجود جب ایک لاکھ روپے اضافی چوری کے جرمانے کا بل تھما دیا جاتا ہے ۔ وہ مجبور ہوکر نہ صرف چور بنتا ہےبلکہ ایک خطرناک چور بنتا ہے کیوں کہ شریف جب اپنی شرافت کے لباس کو اتار دیتا ہے تو اس سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں ہوتا ۔
ایک شخص جس نے پوری زندگی سرکار کی خدمت میں بسر کردی ہو اور پیچھے اس کے پسماندگان اور بیوہ حکومت وقت سے پنشن وغیرہ لینے کیلئے کئی سالوں تک عدالتوں کے چکر لگائے تو اس خاندان کے ان بچوں کو بے حس ہونے سے کون بچائے گا جن کی ماں نے اپنی آخری عمر میں پنشن لینے کیلئے کئی سال تک عدالتوں کے چکر لگائے ہوں ۔ شاید ان ملتے جلتے واقعات نے افسران کو بھی بے حس کردیا اور وہ بھی نہیں چاہتے ہوں کہ ان کے خاندان والے پیچھے ایسے دھکے کھاتے پھریں اسی لئے وہ بھی دھڑلے سے دولت جمع کرتے جارہے ہیں ۔
حقوق دینے کے نام پر ہر سال ا یک الیکشن کا ڈھونگ رچا دیا جاتا ہے ۔ اور اس ڈھونگ کی عمر بھی 50 سال سے زائد ہوگئی ہے نہ حقوق ملے اور نہ کوئی وعدہ وفا ہوا ۔ہر شخص آج بھی اپنے بنیادی حقوق کے حوالے ایک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔جب ریاستیں اپنی رٹ کھودیتی ہیں تو اسے تباہ کرنے کیلئے کسی ہلاکو خان کی ضروت نہیں ہوتی ہے ، اس کا ہر ایک ادارہ یہی کردار ادا کرتا ہے ۔مجھے ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے اس وطن عزیز میں ریاستی رٹ کہیں نظر نہیں آتی ۔صرف اس وقت نظر آتی ہے ایک افسر اپنے گریڈ اور اختیار کے زور پر ایک سادہ انسان پر اپنی افسریت کی دھونس جمارہا ہوتا ہے! ہاں اس وقت بھی نظر آتی ہے جب علاقے میں پانی نہ آنے کی شکایت کرنے والوں پر پولیس ڈنڈے برسا رہی ہوتی ہے! اور اب ریاستی رٹ نظر آتی ہے مہنگائی ، بیروزگاری ، اور ان ٹیکسوں کی صورت میں !
ایسے ماحول میں ایک عام بندے سے لے کر خاص الخاص تک ،ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ جمع کرنے کے چکر میں دوسرے سے آگے بڑھنے یا دوسرے کو لوٹنے کے چکر میں ہے ،اس کے لیے اسے چاہئے بریانی ایک تھیلی مل جائے یا ٹینکر سے رستا ہو تیل مل جائے ۔ جب اخلاقی اقدار ختم ہوجاتی ہیں تو زندہ ڈھانچوں اور مردہ ڈھانچوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے ۔ تو پھر آئیں اپنے زندہ ڈھانچوں کے ساتھ مردہ ڈھانچوں کے مرنے کے اسباب تلاش کریں ، فیس بک پر تبصرے کریں اور کمنٹس کریں شیئر کریں ، ٹی وی پر بڑے بڑے پروگرام کریں ، زخمیوں کیلئے دس لاکھ کے چیک کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیں کہ واقعی ہم زندہ ڈھانچوں والی قوم ہیں ۔

Facebook Comments

بشیراحمد درس
بشیراحمد درس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply