نظریاتی شیطان بقلم خود ۔۔۔ آریان ملک

ایڈیٹر نوٹ: حال کی میں عاطف جاوید صاحب کا ایک اختصار یہ “نظریاتی شیطان” کے عنوان سے مکالمہ پر شائع کیا گیا۔ محترم آریان ملک صاحب نے اس مضمون کو پڑھ کر جواب لکھنا چاہا جس کے لیے مکالمہ حاضر ہے۔ جو قارئین عاطف جاوید صاحب کی تحریر پڑھنا چاہیں وہ اس لنک پر جاسکتے ہیں۔

فاضل دوست عاطف جاوید صاحب نے نظریاتی شیطان کے نام سے ایک تحریر لکھی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر میں خود کو روک نہیں پایا اور جواب لکھنے بیٹھ گیا۔ 

عاطف صاحب نے ترنگ میں فرمایا کہ دہریہ، سیکولر اور لبرل جیسی اصطلاحات دراصل ایک ہی نظریہ میں ارتقا کی مختلف اشکال ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ ان نظریات نے پینترے بدل بدل کر خدا اور دین پر حملے کیے۔ اب یہ میرا ناقص علم ہے یا تاریخ کی ستم ظریفی کہ مختلف ادوار میں دہریوں، سیکولروں اور لبرلوں پر مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے حملے اور عدم برداشت کے مظاہرے تو بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں مگر تاریخ کے کسی سبق میں کوئی سطر ایسی نہیں ملتی کہ مذکورہ طبقات نے کسی مذہب کو نقصان پہنچایا ہو۔ اگر صرف سوال اٹھانا، دین اور خدا پر حملے کے زمرے میں آتا ہے تو عاطف صاحب کی بات سے متفق ہوا جا سکتا ہے۔ 

اگلی بات، دہریت ہو، سیکولرزم ہو یا لبرلزم، یہ کسی تحریک کے نام نہیں ہیں۔ نہ ہی ان نظریات کے حامل افراد نے اپنے نظریات کی کبھی تبلیغ کی ہے۔ یہ تو محض علم اور غوروفکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات اور موجود حقائق کی بنیاد پر دئیے گئے جوابات کا نام ہے۔ جب تبلیغ و ترویج انکے مقاصد میں شامل ہی نہیں، تو کس طور وہ نام بدل کر، ایک نظریے کو دوسرے کپڑے پہنا کر انسانوں کو “گمراہ” کریں گے؟ 

قطعی مختلف نظریات کو ایک ہی چیز کہنا دراصل تحقیق سے فرار اور اپنی ذہنی اختراع کو ہی “معصومیت” سے حق سمجھنے جیسا ہے۔ 

دہریت جہاں تمام مذاہب کا انکار کرتی ہے، وہیں سیکولرزم کے مثبت پہلو کو دیکھیں تو وہ سب مذاہب کی حرمت کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ ہم غاروں کے دور میں نہیں رہ رہے، قبائلی دور میں نہیں رہ رہے۔ اب ہم بین الاقوامی دور میں جی رہے ہیں، جہاں ایک ہی جگہ پر مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک مذہب کی حاکمیت دیگر تمام مذاہب کی حرمت جوتے کی نوک پر رکھنے کے مترادف ہے۔ 

آگے چل کر موصوف نے لبرلزم کا شیطان بنا کر دونوں ہاتھوں سے کنکر مارتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس فتنے نے انفرادی آزادی کا نعرہ لگا کر پڑھے لکھے نوجوان کو متاثر کیا ہے۔ یعنی جناب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پڑھا لکھا نوجوان انفرادی ازادی کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ روایتی مذہبی طبقہ جس نظریے کو کفر کا ہار پہنا دے، غیر خواندہ طبقہ اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر عقل کو پسِ دیوار پھینک آتا ہے۔ لبرلزم کی شخصی آزادی دراصل ہر شخص کو اختیار دیتی ہے کہ وہ جو عقیدہ اپنانا چاہے، آزادی سے اپنا سکتا ہے۔ اب اس عقیدے سے جڑے اعمال و افعال بجا لانے میں کوئی دوسرا شخص مانع نہیں ہو سکتا۔ مثلاً اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب اگر کوئی مسلمان چوری کرتا ہے اور اسکے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں تو کسی دوسرے عقیدے یا نظریے کا حامل شخص اس عمل کو ظلم نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس چور نے جب اسلام قبول کیا تو اس سزا کو بھی قبول کیا۔ اسی طرح کوئی بھی عقیدہ یا نظریہ رکھنے والا شخص اپنے اعمال و افعال میں آزاد ہے۔ 

ہم نے تو بچپن میں یہ آیت بھی پڑھی تھی:

“لا اكراه فى الدين”

Advertisements
julia rana solicitors

پتا نہیں عاطف جاوید صاحب نے پڑھی ہے یا نہیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply